قرضوں میں ڈوبا پاکستان دوسرا اور آخری حصہ
ہمارے ماہر معیشت حفیظ پاشا کے بقول اب صرف خسارہ ہی خسارہ ہے۔
ہمارے ماہر معیشت حفیظ پاشا کے بقول اب صرف خسارہ ہی خسارہ ہے۔ حکومت تو قرضوں پر چل رہی ہے جب کہ ڈر اس بات کا ہے کہ جو ترقیاتی کاموں کی مد میں بجٹ میں پیسے رکھتے ہیں ،کہیں وہ ہی نہ بالکل بند کرنے پڑ جائیں جس کی طرف کچھ دنوں پہلے خان صاحب نے اپنی تقریر میں اشارہ بھی دیا تھا، اور خدانخواستہ کہیں ہمارے دفاعی خرچہ بھی قرضوں سے پورا نہ کرنا پڑے۔
اس وقت قومی قیادت کی ضرورت ہے جو یہاں پھل پھول نہیں سکی۔ جو شرفا ہیں وہ یہی ہیں جن کو الیکشن کمیشن نے نوٹس دیا ہوا ہے ۔ ہم اس صورتحال میں شفاف انتخابات کرانے کے چکر میں نہیں ہیں۔ ہر پانچ سال میں ہمارا مجموعی قرضہ پانچ ہزار ارب روپے بڑھتا رہے گا۔
خان صاحب نے یہ کام تین سال میں کرکے دکھایا جو کام نواز شریف ، نہ زرداری اور نہ مشرف کر پائے۔ اور اب جو آئے سو آئے مگر قرضے کم نہ ہوں گے۔ قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے ان ڈائریکٹ ٹیکسز لگتے رہیں گے جس کا براہ راست تعلق مہنگائی سے ہے اور غریب غریب تر ہوتے رہیں گے۔ نہ ہم ان کو اسکول دے سکتے ہیں نہ اسپتال، نہ صاف پانی۔ ہم نے اپنے غریبوں کے غربت سے نجات کے سب راستے بند کر دیے ہیں اور مڈل کلاس کے لیے غربت میں دھکیلے جانے کے لیے سب راستے کھول دیے ہیں۔
میں یہ بحث بار بار کرتا رہوںگا کیونکہ ہم ساؤتھ ایشیا میں بنگلا دیش، ہندوستان سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگرچہ ہم نے ایک ساتھ آزادی پائی ۔ بنگلا دیش تو ہماری کوکھ سے بنا، وہ جو غربت میں پھنسے ہوئے تھے ،کتنا غریب تر تھا مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان کی نسبت!!تاہم یہ بہت اچھی خبر ہے کہ ایک طرف ہماری معیشت خان صاحب کے تین سالوں میں پہلی بار چار فیصد شرح نمو کے حوالے سے اس مالی سال میں بڑھے گی۔ مگر یہ بھی حیران کن حقیقت ہے کے بے روزگاری کے حوالے سے جو خود حکومت کے انڈیکیٹر ہیں بتا رہے ہیں کہ اس میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
ایک طرف سیاسی بحران،دوسری طرف معاشی بحران تیسری طرف افغانستان کا بحران جس نے دنیا کی نظروں میں ان کے ساتھ ہمیں ایک کردیا ہے۔ یورپی یونین کی دھمکی جس سے ہماری ایکسپورٹ کو دھچکا لگنے کا خدشہ ہے۔ اس صورتحال میں پی ڈی ایم، نواز شریف اور مریم نواز وغیرہ وغیرہ دوبارہ اس وکٹ پر کھیلنے کے لیے تیار ہیں جو گوجرانوالہ کے پی ڈی ایم والے پہلے جلسے میں تحریک کے آغاز کے وقت کھیلا گیا تھا۔
دوسری طرف بلاول بھٹو حکومت پر تو تنقید کرتے ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ سے مراسم بھی بڑھا رہے ہیں ، شاید شہباز شریف سے بھی زیادہ ۔ کہیں بلاول کہیں وہی کام تو نہیں کر رہے جو بھٹو نے کیا تھا جب اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور شیخ مجیب میں جھگڑا بڑھ گیا تھا اور یہ جھگڑا پیپلز پارٹی اور بھٹو کے لیے ایک سنہری موقع بھی تھا۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی نہیں ہے۔ بس ایک آئینہ ہے جس میں آپ اپنی شکل دیکھ سکتے ہیں، کچھ سیکھ سکتے ہیں اگر آپ چاہیں تو!!!
ہمارے ملک میں ایک بہت بڑی اسٹرکچر ل ایڈجسمنٹ ناگزیر ہوچکی ہے۔ وہ سیاسی ہو یا معاشی ہو یا خود خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہو، ہمیں اپنے ادارے مضبوط کرنے ہیں ،الیکشن کمیشن سے ٹکر لے کے اسے بھی تباہ نہ کریں۔ مودی نے ہندوستان کو تباہ کر دیا مگر ان کا الیکشن کمیشن خود اپنے ٹانگوں پہ کھڑا ہوا آزاد ادارہ ہے۔ ان ستر سالوں کی مسلسل جمہوریت نے ہندوستان کے اداروں کو اتنا مضبوط کیا ہے کہ مودی کا ایک جھٹکا ان کو نقصان تو نہیں پہنچا سکتا ہاں مگر ہمارے پاس ادارے اب بھی آزاد حیثیت نہیں پکڑ سکے۔
یہ ملک ہائبرڈ جمہوریت سے بالکل ہی نہیں چل سکتا ۔ اسے یا تو دنیا کے مروج دستور پے چلنا ہوگا یا پھر ایک اور ایران، عراق یا لیبیا بننا ہوگا۔ ہم ایران، عراق یا لیبیا بھی نہیں بنا سکتے کہ خود ان آمریتوں کے پاس تیل کے لامحدود ذخائر تھے۔ اور اتنی بڑی آبادی بھی نہیں تھی اور نہ ہی وہ فیڈریشن تھے۔ ہم نے جب 1971 میں زبردستی کرنے کی کوشش کی ، دشمن نے فائدہ اٹھایا اور ہماری فیڈریشن ٹوٹ گئی۔ تب جاکے ہم نے آئین دیا اور اس آئین میں اس تاریخی فیڈریشن کو مانا، اور اٹھارویں ترمیم میں اسے اور مستحکم کیا۔
آیندہ پانچ سالوں میں ہمارے قرضوں کا حجم پچاس ہزار ارب سے تجاوز کر جائیگا۔ ہمارا سی پیک خود چین سے ترقی کے لیے قرضے لینے کا دوسرا نام ہے، جب کہ ہماری شرح نمو میں تب تک کوئی اضافہ نہیں ہوگا ۔ جب تک پاکستان ایک بہت بڑی ، سیاسی، معاشی اسٹرکچرل تبدیلی سے گزرے ہمارے شرفا جو اقتدار میں ہیں وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لہٰذا ایک اور ناگزیر ٹکراؤ ہوتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ خدا خیر کرے۔