سوشل میڈیا اور اندھی تقلید

سوشل میڈیا پر اپنے مقاصد حاصل کرنے کےلیے طرح طرح کی سازشیں کی جاتی ہیں اور حالات خراب کیے جاتے ہیں


محمد نعیم September 29, 2021
سوشل میڈیا کی لت اور اندھی تقلید معاشرتی خرابی کا باعث بن رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

سوشل میڈیا پر آج کل ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا، عزتوں پر سوال اٹھانا اور کردارکشی کا چلن عام ہوگیا ہے۔

نظروں کے سامنے اسکرین آنے اور کی بورڈ پر ہاتھ رکھتے ہی ہم ہر مسئلے کو کیل سمجھ لیتے ہیں اور ہاتھ میں ہتھوڑا اٹھا لیتے ہیں۔ پھر جذباتیت اتنی زیادہ ہے کہ غوروفکر سے کام ہی نہیں لیتے۔ دیکھتے ہی نہیں کہ سامنے کس شخصیت کی کردارکشی کی جارہی ہے۔ جو ویڈیو، تصویر یا خبر دھڑا دھڑ شیئر ہورہی ہے وہ اصل بھی ہے یا کسی نے جعلی پوسٹ بنائی ہوئی ہے۔

طوفانِ بدتمیزی ایسا اٹھتا ہے کہ اس میں سنجیدہ اور پڑھے لکھے لوگ بھی اپنا حصہ ڈالنے لگ جاتے ہیں اور اسے ڈسکس کرنے لگتے ہیں۔ اس پر اپنی آرا دینے لگتے ہیں اور مذکورہ شخص یا ادارے کو آڑے ہاتھوں لے کر خوب تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

نجانے معاشی، معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے وہ کون سی محرومی ہے جس کا شکار ہوکر ہمارے اندر دن بہ دن عدم برداشت بڑھتی جارہی ہے۔

دوسری جانب ہمارے یوٹیوبر حضرت اپنے ویوز بڑھانے کےلیے کچھ بھی اپ لوڈ کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ خبر جھوٹی یا ہے سچی؟ ان کے اس طرح سنسنی پھیلانے سے کسی کے گھر یا نجی زندگی پر کیا اثر پڑے گا؟ انھیں تو بس اپنے چینل کے ویوز بڑھانے سے غرض ہوتی ہے۔

سیاست دانوں کی وائرل ہونے والی ویڈیوز پر کوئی خاص بات نہیں کروں گا۔ بس اتنا ہی کہوں گا کہ کسی نے گناہ کرلیا ہے تو اس کی تشہیر نہ کیجئے، اس کے عیب پر پردہ رہنے دیجئے۔ لوگوں کے سامنے اس کی رسوائی کا سبب نہ بنیے۔ کیوں کہ خامیاں سب میں ہوتی ہیں۔ پھر روز قیامت ستار العیوب سے کیسے امید رکھو گے کہ وہ آپ کے گناہوں کی پردہ پوشی کرے۔

ہاں اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو متعلقہ اداروں کو اس کے ثبوت دیجئے۔ اس کے خلاف قانونی کارروائی کےلیے جدوجہد کیجئے تاکہ کل کوئی اور معصوم یا مجبور کسی درندے کی ہوس کا شکار نہ ہو۔

اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ہاٹ ٹاپک بننے والی کوئی خبر بعد میں افواہ نکلتی ہے۔ چند ماہ پہلے ایک باریش صاحب کی تصویر اس کیپشن کے ساتھ وائرل ہوئی کہ ''لاہور کے فلاں مفتی نے اپنی کم عمر شاگرد سے دوسری شادی کرلی''۔ کئی دن تک اس پر تبصرے ہوتے رہے، بعد میں معلوم ہوا کہ موصوف کوئی مفتی یا عالم دین نہیں بلکہ کوئی پراپرٹی ڈیلر یا بلڈر ہیں اور بیرون ملک کہیں مقیم ہیں۔

اس کے علاوہ کسی ہندوستانی اداکارہ اور اس کی فیملی کی ڈانس کی ویڈیوز یہ کہہ کر شیئر ہونے لگیں کہ موصوف نیب سندھ کے کوئی اعلیٰ عہدے دار ہیں۔

اسی طرح کی کچھ پریشانی کا سامنا مولانا طارق جمیل کو بھی کرنا پڑا، جب ان کی جانب سے اپنی برانڈ ''ایم ٹی جے'' کا آغاز ہوا تو سب ایک ازار بند کو لے کر بیٹھ گئے کہ اتنا مہنگا ازار بند بیچ رہے ہیں۔ بعد میں انھیں وضاحت کرنی پڑی کہ ہم نے اپنے اسٹورز پر ازار بند رکھا ہی نہیں ہے۔ اور اب آج کل مولانا پھر نشانے پر ہیں۔ کل ٹویٹر پر ان کی ایک ٹویٹ دیکھی جس میں انھوں نے وضاحت کی ہوئی تھی کہ میری دوسری بیوی اور پہلی سے لڑائی والی بات میں حقیقت نہیں۔ کچھ لوگ اپنے ویوز اور سبسکرائبرز بڑھانے کےلیے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت دے۔

بات کو مختصر کرتے ہیں۔ کہنے کا مقصد اور آپ سے گزارش ہے کہ خدارا سنبھل کر چلیے۔ ایک ایک قدم اٹھانے سے پہلے دیکھ لیجئے کہ آپ کسی دلدل میں تو نہیں گر رہے۔ سوشل میڈیا پر طرح طرح کے لوگ ہیں۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے کےلیے طرح طرح کی سازشیں کی جاتی ہیں اور حالات خراب کیے جاتے ہیں۔ آج کل ویڈیو ایڈیٹنگ اور فوٹو شاپ کرکے لوگ تصاویر اور ویڈیوز کو کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں۔ ایسے کسی پروپیگنڈے کا شکار ہونے کے بجائے اپنا دامن بچائیے اور سنبھل کر نکل جائیے۔ قرآن مجید کی سورۃ الحجرات میں بھی اللہ تعالیٰ نے کسی نقصان سے بچنے کےلیے ایسی غیر مصدقہ خبروں کی تحقیق کا حکم دیا ہے۔ سوشل میڈیا کو اپنی معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ بنائیے۔ اس سے تفریح اور لطف اٹھائیے۔ بلاوجہ الجھ کر اپنا بلڈ پریشر نہ بڑھائیے۔

اور ہاں کہیں پودوں پر اگنے والے بینگن کی جگہ آپ کو بیلوں پر سفید بینگن نظر آئیں اور ویڈیو والا آپ کو توڑ کر دکھائے تو وہ کھیتوں میں اگے ہوئے انڈے ہوں۔ پھر آپ سبحان اللہ کہہ کر انھیں شیئر کرنے لگ جائیں، تو اب ضرورت ہے کہ آپ اپنی عقل کا کہیں سے کوئی ٹیسٹ کرا لیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں