نجی اور سرکاری اسپتالوں کی حالت زار
گزشہ ہفتہ اورنگی کے ایک اسپتال میں مریضوں کو کھانا دینے کے نام پر لاکھوں روپے کے اسکینڈل اخبارات کی زینت بنے تھے۔
کراچی کے مضافاتی علاقہ میں رہنے والا نوجوان جو موٹرسائیکل پر سوار تھا، رات گئے کسی نامعلوم گاڑی کی ٹکر کا شکار ہوا، پرائیویٹ اور سرکاری اسپتالوں کی عدم توجہ سے یہ نوجوان بغیر علاج کے موت سے ہمکنار ہوا۔
صوبائی محکمہ صحت کی اس بارے میں ہونے والی تحقیقات سے اس کی تصدیق ہوگئی۔ 17سالہ عارف ہاشم رات گئے حادثہ کا شکار ہوا، وہ کچھ دیر سڑک پر تڑپتا رہا۔ یہ حادثہ 12 ستمبر کو لیاقت آباد پل پر پیش آیا۔ اس پل سے گزرنے والے چند راہ گیروں نے زخمی نوجوان کو اپنی گاڑی میں سوار کرکے قریبی نجی اسپتال میں منتقل کیا۔
یہاں سر کی چوٹ، ایکسیڈنٹ اور ٹراماسینٹر سے متعلق سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ زخمی کو دوسرے نجی اسپتال منتقل کیا۔ اس اسپتال میں زخمی کو صرف کینولا لگانے کے بعد سرکاری اسپتال منتقل کیا۔ اس سرکاری اسپتال میں نیورو فزیشن اور نیورو سرجن تعینات نہیں ہیں۔ دماغ کا گہرائی سے ایکسرے کرنے والی سی ٹی اسکین مشین ناکارہ ہوچکی ہے۔ اس صورتحال میں سرکاری فرائض انجام دینے والے ایمرجنسی وارڈ کے ڈاکٹروں نے زخمی مریض کو کراچی کے سب سے بڑی سرکاری اسپتال ریفرکردیا۔
اس غریب نوجوان کو پھر ایمبولینس میں سوارکرایا گیا، آدھے گھنٹہ بعد زخمی نوجوان کو اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ پہنچایا گیا۔ یہاں کے ڈاکٹروں نے زخمی کو داخل نہیں کیا ، جواز یہ دیا گیا کہ زخمی نوجوان کے پاس شناختی کارڈ ہے نہ کوئی اٹینڈنٹ ہے، یوں بیچارا مریض ایمبولینس میں رہا۔ ایمبولینس ڈرائیور زخمی نوجوان کو پھر پہلے والے سرکاری اسپتال لے گیا جہاں پھر اس زخمی پر توجہ نہیں دی گئی اور وہ 6 گھنٹے تک ایمبولینس میں پڑا رہا اور اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔
اس واقعہ کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے کراچی کے سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی کے تمام ڈاکٹروں کو برطرف کرنے کی سفارش کی ہے۔ اب سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو اس رپورٹ پر غور و خوص کررہی ہیں۔ اس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ روڈ ایکسیڈنٹ اور ایمرجنسی کیسزکے لیے ایمرجنسی مراکز اور ٹراما سینٹرز میں اصلاحات کی جائیں اور غفلت کے مرتب عملہ کے خلاف فوری قانونی اور محکمہ جاتی کارروائی کی جائے۔ عیدالاضحی کے دوسرے دن حیدرآباد کے گنجان آباد علاقہ میں بجلی کا ٹرانسفارمر پھٹ گیا تھا۔
ٹرانسفارمر سے نکلے ہوئے کھولتے تیل سے کئی افراد جھلس گئے تھے، ان میں سے 16افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ ان لوگوں کو فوری طور پر سول اسپتال حیدرآباد لے جایا گیا جہاں کوئی طبی سہولت موجود نہیں تھی۔ پھر انھیں لیاقت یونیورسٹی اسپتال ریفر کیا گیا ، وہاں برنس وارڈ موجود ہی نہیں ہے۔ مجبوراً ان افراد کو سول اسپتال کراچی منتقل کیا گیا۔ کراچی کا سول اسپتال جدید سہولتوں سے لیس ہے اور پرائیوٹ اداروں نے یہاں برنس وارڈ قائم کیا ہے مگر اس دن اس وارڈ میں جگہ خالی نہیں تھی۔ بیچارے مریض پرائیوٹ اسپتالوں میں ہی موت کا شکار ہوئے۔ پلاسٹک سرجری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے مریضوں کو فوری طبی امداد فراہم کی جائے تو ان کی زندہ بچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
چند سال قبل کورنگی روڈ پر ڈاکو سگنل پر رکنے والی گاڑیوں کے مسافروں کو لوٹ رہے تھے۔ اچانک پولیس پارٹی آگئی۔ پولیس والوں نے اندھادھند فائرنگ شروع کردی۔ پولیس کی گشتی پارٹی کی گولی ایک بچی ایمل کو لگی جو اپنی گاڑی میں سفر کررہی تھی۔ والدین اپنی بچی کو فوری طور پر قریبی اسپتال میں لے گئے مگر وہاں ایمرجنسی وارڈ ناکارہ تھا۔ یوں اس بدقسمت بچی کو پھر سول اسپتال بھیج دیا گیا اور یہ بچی اسی دوران جاں بحق ہوگئی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور اسپتال میں دستیاب سہولتوں کی تحقیقات کا حکم دیا اور انتظامیہ کو بھی اس واقعہ کا ذمے دار قرار دیا۔ سندھ اسمبلی نے اس بچی ایمل کے نام پر ایک قانون بنایا جس میں لکھا ہوا ہے کہ پرائیوٹ اسپتال ہر زخمی کو طبی امداد دے گا مگر اس فیصلہ پر آج تک عمل نہ ہوا ۔ سندھ میں ایک ہیلتھ کیئر کمیشن موجود ہے مگر عملی طور پر اس کی کارکردگی نظر نہیں آتی۔ اس پورے سانحہ میں پہلا المیہ ایک معروف نجی اسپتال کی انتظامیہ کے غیر انسانی رویہ کا ہے۔
اس حوالے سے فوری کارروائی ہونی چاہیے اور اتنا جرمانہ ہونا چاہیے کہ سرکاری اسپتال میں نیورو سرجری وارڈ میں جدید آپریشن تھیٹر تعمیر ہوجائے۔ تحقیقاتی کمیٹی کی یہ تجویز بالکل درست ہے کہ سرکاری اسپتال کے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کے ان ڈاکٹروں کو جنھوں نے زخمی ہاشم کو طبی امداد فراہم نہ کیں برطرف کرنا چاہیے۔ مگر معاملہ صرف چند ڈاکٹروں کی برطرفی سے حل نہیں ہوگا۔ سندھ کے محکمہ صحت کو ملنے والے فنڈز اور ان کے استعمال کے بارے میں تحقیقات ہونی چاہیے۔
گزشہ ہفتہ اورنگی کے ایک اسپتال میں مریضوں کو کھانا دینے کے نام پر لاکھوں روپے کے اسکینڈل اخبارات کی زینت بنے تھے۔ ایسے ہی جام شورو اور دیگر اسپتالوں سے متعلق شایع ہوتے رہتے ہیں۔ حکومت سندھ کبھی ان بدعنوانیوں کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ شعبہ صحت پرکام کرنے والے ایک رپورٹر کا کہنا ہے کہ ایمل الرٹ بل اسمبلی نے تو منظور کرلیا مگر محکمہ صحت کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کے قواعد و ضوابط تیار کرسکے۔
اس بناء پر اس قانون پر عملدرآمد ہوا ہی نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ صحت میں بڑے پیمانہ پر اصلاحات کی جائیں۔ بدعنوانیوں کے خاتمہ کے لیے زیرو ٹالرینس کا رویہ اختیار کیا جائے۔ اس ملک میں کسی سانحہ پر متعلقہ وزیر ، وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کی روایت نہیں ہے۔ یہ '' بری'' روایت تو عیسائیوں اور یہودیوں کے ممالک کی ہے، اس بناء پر وزیر موصوف سے اس طرح کی توقع رکھنا عبث ہے۔