قانون کی حکمرانی کا خواب پریشاں
پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا خواب، خواب پریشاں بن کر رہ گیا ہے
پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا خواب، خواب پریشاں بن کر رہ گیا ہے جس کی تعبیر خودکار ہتھیاروں اور کلاشنکوفوں کی فائرنگ سے بکھر رہی ہے اور افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ کسی روایتی جاگیردار سیاستدان کا کیا دھرا نہیں بلکہ یہ سب کچھ بین الاقوامی درس گاہوں سے فارغ التحصیل انجینئرنگ اور معاشیات کی ڈگریاں رکھنے والے وفاقی وزیر تجارت انجینئر خرم دستگیر خان کے متوالوں نے کیا ہے۔ قانون کی حکمرانی کا خواب گوجرانوالہ میں اوراق پریشاں کی طرح بکھر رہا ہے۔ انجینئر خرم دستگیر خان کے وفاقی وزیر بننے کی خوشی میں استقبالی ہجوم میں شامل لیگی کارکنوں کی خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔
مقامی پولیس کے دو فرض شناس افسروں نے خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ہوائی فائرنگ کے خلاف (Zero Tolerance) کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے مسلم لیگی کارکنوں کو گرفتار کر لیا جو حوالات کی بجائے تھانے میں پولیس اہلکاروں کے بستروں پر استراحت فرما رہے ہیں اور اپنے ملاقاتیوں کا استقبال انگلیوں سے فتح کا نشان بنا کر کرتے ہیں جس کی تصاویر قومی اخبارات میں شایع ہو رہی ہیں۔ اصل کمال تو انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس خان بیگ نے کیا ہے جنھوں نے نامعلوم اشارے پر دونوں فرض شناس افسروں کو تبدیل کر کے قانون کی حکمرانی کا جھنڈا مزید بلند کر دیا۔
نوجوان دانشور اور قلم کار انجینئر خرم دستگیر خان، کوئی ایسے ویسے وفاقی وزیر یا رکن قومی اسمبلی نہیں ہیں وہ موقر انگریزی اخبارات میں ملکی معاشی حالات پر لکھنے والے ممتاز دانشوروں میں شامل ہیں۔ حسن ابدال کیڈٹ کالج کے بعد انھوں نے دو عالمی شہرت یافتہ درس گاہوں سے انجینئرنگ اور معاشیات میں گریجویشن کی۔ California Institute of Techonolgy سے انجینئرنگ جب کہ معاشیات میں امریکا کے عالمی سطح پر معروف Bowdoin College سے فارغ التحصیل ہیں۔ گوجرانوالہ شہر اپنی تمام تر صنعتی ترقی کے باوجود صدیوں پرانی قبائلی روایات کے سحر سے نہیں نکل سکا۔ اس لیے خرم دستگیر کے مکمل وفاقی وزیر تجارت بننے پر خودکار ہتھیاروں سے ہوائی فائرنگ معمول کا عمل تھا لیکن ٹی وی چینلز پر اس جشن بے ہنگام کی براہ راست تشہیر (Live Coverage) نے معاملہ بگاڑ دیا۔
وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان کے والد اور بزرگ سیاستدان جناب خان غلام دستگیر خان نے ہوائی فائرنگ کی خبر اور لائیو کوریج پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایکسپریس نیوز کے گوجرانوالہ میں بیورو چیف حافظ شاہد عمران، جیو کے شفقت عمران اور دنیا نیوز کے احتشام شامی کا نام لے کر انھیں کالی بھیڑیں قرار دیتے ہوئے حقائق کے برعکس من گھڑت رپورٹنگ کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے اپنا قبلہ درست کرنے کی دھمکی اور قانونی چارہ جوئی کرنے کے حق کے بارے میں بتایا ہے۔ بزرگ سیاستدان غلام دستگیر خان نے پریس ریلیز میں اعتراف کیا ہے کہ پنڈی بائی پاس پر چند مسلم لیگی رہنماؤں نے جو شہر کے معروف کاروباری حضرات ہیں، جذبات سے بے قابو ہو کر فائرنگ کی جنھیں خرم دستگیر خان خود منع کرتے رہے لیکن میڈیا نے یکطرفہ رپورٹنگ کر کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور اس واقعے کو ہمارے خاندان کی کردار کشی کے لیے بنیاد بنا ڈالا۔ میڈیا نمائندے آئندہ حقائق کے منافی رپورٹنگ اور لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کی عادت ترک کر دیں ورنہ ہم قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
دھیمے مزاج کے حامل، ہمیشہ شفقت اور محبت سے پیش آنے والے بزرگ سیاستدان خان غلام دستگیر خان عملی سیاست سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ان سے اس قدر تلخی اور ایسی ناروا پریس ریلیز جاری کرنے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابلاغیات کا یہ طالب علم چوتھائی صدی اس پیشے میں گزارنے کے باوجود یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ لائیو کوریج کو توڑ مروڑ کر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے۔
جناب غلام دستگیر خان کی ناراضگی کی وجوہات کچھ اور ہیں وہ اصل میں اس تقابل پر ناخوش ہیں جو ہوائی فائرنگ کی لائیو کوریج کے ساتھ تینوں بڑے چینلز کے نمائندوں نے کیا تھا۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما خالد ہمایوں، وزیر خزانہ تنویر اشرف کائرہ اور امتیاز صفدر وڑائچ کی آمد پر بھی پیپلز پارٹی کے جیالوں نے اسی طرح فائرنگ کر کے جشن فتح منایا تھا۔ میڈیا کے ان ہی نمائندوں نے اس ہلڑ بازی کی شدید مذمت کی تھی جس پر جناب دستگیر خان اور ان کے صاحبزادے خرم دستگیر خان نے پیپلز پارٹی کے جیالوں کی مبینہ ہلڑ بازی کی دلیرانہ رپورٹنگ پر آزاد میڈیا کے ان مجاہدوں کو خراج تحسین پیش کیا تھا اب انھیں اصل شکوہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے ان کے مطابق گندے رہنماؤں کے ساتھ دودھ کی طرح اجلے مسلم لیگی کارکنوں کی فائرنگ کا تقابل کیوں کیا گیا اور یہ تقابل ہی مزاج شاہاں پر گراں گزرا ہے۔
تلقین شاہ کے نام سے جانے پہچانے جانے والے بابا جی اشفاق احمد خان مرحوم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان ان پڑھ اور جاہلوں نے نہیں، پڑھے لکھوں نے پہنچایا ہے جس کی اس طالب علم کو سمجھ نہیں آتی تھی لیکن مدتوں بعد امریکی درس گاہوں سے فارغ التحصیل نوجوان دانشور اور معاشی امور پر لکھنے والے قلم کار، وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے اپنے رویئے سے بابا جی تلقین شاہ کی یہ بات اس کند ذہن کو اچھی طرح ذہن نشین کرا دی ہے۔
لاہور میں ایکسپریس کے کرائم رپورٹر مشرف شاہ نئی کہانی سنا رہے ہیں کہ فرض شناسی کے صلے میں بغیر کسی انکوائری رپورٹ کے راتوں رات ہنگامی تبادلے پر پنجاب کے پولیس افسران میں شدید بددلی پھیل گئی ہے کیونکہ فائرنگ کرنے والے ملزمان کی گرفتاری کے بعد دونوں افسروں کو مزہ چکھانے کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کی خدمت میں گزارش ہے کہ قانون کا یکساں نفاذ آپ کی نیک نامی میں اضافہ کرے گا۔ ہم سے پہلے بہت سی قومیں صرف اس لیے تباہ ہو چکی ہیں کہ انھوں نے انصاف کا دہرا معیار اپنایا ہوا تھا، وہ جرم کرنے پر کمزور کو سزا دیا کرتی تھیں جب کہ طاقت ور کو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ میرا آقاؐ و مولاؐ نے فرمایا تھا کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ جناب شہباز شریف صاحب کیا آپ کو ہادی دوجہاں ؐ کا یہ فرمان یاد نہیں۔