سڑک اور حادثات

ایک نارمل شخص کے لیے چاہے وہ کتنا ہی قوی و جری ہو کسی بھی حادثے کی خبر پریشان کن اثر رکھتی ہے


Hameed Ahmed Sethi February 02, 2014
[email protected]

ایک نارمل شخص کے لیے چاہے وہ کتنا ہی قوی و جری ہو کسی بھی حادثے کی خبر پریشان کن اثر رکھتی ہے لیکن ہمارا دوست راشد عزیز جس نے نواب شاہ میں گزشتہ دنوں ہونے والے سڑک کے حادثے کی خبر پڑھی اور اس کی ویڈیو بھی دیکھی ابھی تک صدمے کی کیفیت میں ہے۔ اسکول وین جس میں انتہائی ذہین اور کم سن طالب علم سوار تھے سڑک پر جا رہی تھی کہ ایک ڈمپر الٹی سمت سے اس کے سامنے آ نکلا وین کا ڈرائیور اپنی تیز رفتار وین پر قابو نہ رکھ سکا۔ وین اور ڈمپر آپس میں ٹکرائے نتیجتاً انیسں ذہین و کمسن بچے حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ ڈمپر کا اچانک سڑک پر وہ بھی رانگ سائیڈ پر آنا اور وین ڈرائیور کا اپنی تیز رفتار وین پر فوری کنٹرول نہ کر سکنا حادثے کا سبب بنا۔ راشد عزیز بظاہر ایک غیر متعلق شخص ہے لیکن اس المیے پر بے حد دکھی ہے۔ وہ پوچھتا ہے کہ ہر روز وقوع پذیر ہونے والے اس جیسے دیگر حادثوں کا ذمے دار کون ہے اور تدارک ممکن نہیں تو ان میں کمی اور ان کا کنٹرول کیسے ممکن ہے۔ کیا سڑک کے حادثات کی ذمے داری صرف اسٹیئرنگ پر بیٹھے افراد پر عائد ہوتی ہے یا کوئی اور بھی ان کا مجرم گردانا جا سکتا ہے۔

ہم روزانہ کسی نہ کسی مصروفیت سے اپنے گھروں سے نکل کر سڑکوں کا رستہ اختیار کرتے ہیں۔ کوئی پیدل تو کوئی بائیسکل، موٹر سائیکل، رکشے، موٹر کار، ویگن یا بس کے ذریعے جاتا ہے۔ سڑکوں پر دیگر سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیاں بھی اپنے کام کاج کے سلسلے میں نکل پڑتی ہیں۔ اسکول، کالج، دفتر، فیکٹری، دکان غرضیکہ ہر کسی کو کہیں نہ کہیں پہنچنا ہوتا ہے۔ یہ مزاج ہے یا عجلت پسندی یہاں ہر کوئی جلدی میں نظر آتا ہے۔ پیدل چلنے والا بھی دوڑ کر یا تیزی سے سڑک کراس کرتا ہے یا تیز رفتار موٹر کے آگے سے گزرتا ہے چاہے اسے کچھ دور جا کر رک ہی جانا ہو۔ وہی منیر نیازی کے شعر والی صورتحال کہ

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

یہ درست ہے کہ آبادی میں اضافہ کے علاوہ محدود وقت میں زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کے لیے لوگوں کو رفتار تیز کرنا پڑ رہی ہے اس لیے آٹو موبائیل کا استعمال بڑھ گیا ہے اور اس ضمن میں خاص طور پر بڑے شہروں میں ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن جن لوگوں کے زیر استعمال یہ دو اور چار پہیوں کی گاڑیاں آ رہی ہیں ان میں روڈ سینس اور ڈسپلن کی بے انتہا کمی بلکہ فقدان ہے۔ ہر کسی کو اپنی ذات اور اپنا کام عزیز ہے سڑک پر چلنے والوں اور دوسرے موٹر سواروں کی قطعاً پروا نہیں خود غرضی اور نفسانفسی کی اس صورتحال میں ٹریفک ڈسپلن کے بخیے ادھڑ رہے ہیں۔ بیشتر موٹر ڈرائیوروں کو گاڑی میں صرف اسٹیئرنگ اور ایکسلریٹر نظر آتے ہیں۔ انڈیکیٹر اور بریک ان کی نظر میں فالتو گیجٹ ہیں اور ان کو سڑک پر چلنے یا دوسرے موٹروں والے شاید نظر ہی نہیں آتے نوٹ کرنے کی بات کہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے والوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے اور تربیت یافتہ آٹو موبائل ڈرائیوروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر۔ بعض سڑکیں تو افراتفری کا شاہکار نظر آتی ہیں۔

شہر کی سڑکوں اور شاہراہوں پر ہونیوالے ٹریفک کے حوادث کے تواتر اور ان کی شدت کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس کے ذمے دار وہی مستقل چار یا پانچ عوامل ہیں۔ سب سے پہلے سڑکوں کی حالت، پھر کم از کم دو موٹر ڈرائیور اس کے بعد یا دونوں مکینیکلی ناقص گاڑیاں۔ اگر سڑک میں نقص ہے تو یہ ڈرائیوروں کے علم میں ہونا لازمی امر ہے تا کہ وہ محتاط ڈرائیونگ کریں۔ موٹر ڈرائیور اگر اچھا اور ماہر ڈرائیور نہیں ہے تو وہ آج نہیں تو کل ایکسیڈنٹ ہی کرے گا۔ اگر وہ خود نہیں تو سڑک پر گاڑی چلانے والا اسی طرح کا دوسرا ڈرائیور اپنے اناڑی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاڑی ٹکرائے گا۔ اگر موٹر میں کوئی تکنیکی خرابی ہے تو یہ خرابی اپنا آپ حادثے ہی سے ظاہر کرے گی۔ اگر گاڑی کے ٹائر ناقص ہیں تو ان کے پھٹنے سے حادثہ یقینی نہیں تو ممکن ضرور ہے اور جائزہ لیں تو ایک وجہ اچانک کسی چیز یا شخص کا سامنے آ جانا بھی حادثے کا سبب بنتا ہے لیکن اس میں بھی ڈرائیور کی غیر حاضر دماغی یعنی الرٹ نہ ہونا ہی وجہ ٹھہرے گا۔ اندھا دھند گاڑی چلانے والوں کو تو بچنے یا بچانے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ اسی لیے محتاط باہوش اور تجربہ کار ڈرائیور ہی حادثوں سے بچا رہتا ہے۔

اوور اسپیڈنگ اور غلط اوور ٹیکنگ کا مشاہدہ ہر وقت دیکھا جا سکتا ہے جس کی روک تھام سے صرفِ نظر کی وجہ سے دوسروں کو بھی شہ ملتی ہے اور جب کسی جرم کا محاسبہ نہ ہو تو ہر کوئی دوسرے سر سبقت لے جا کر قانون و ضوابط کی دھجیاں اڑانے میں فخر کرتا اور بڑائی دکھاتا نظر آتا ہے اور ہمارے ملک میں غلط کاری کی تقلید کرنا وجہ افتخار بنتا جا رہا ہے۔

اکثر احباب بتاتے ہیں کہ انھیں ٹیلیفون آتے ہیں جن کے ذریعے لیزنگ پر موٹر کار لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بڑے ہی نہیں چھوٹے شہروں میں بھی شاید اسی پالیسی کی وجہ سے موٹروں کی بہتات نظر آتی ہے۔ اس بھر مار کی ایک وجہ آرام دہ اور وافر پبلک ٹرانسپورٹ کی غیر موجودگی اور موٹر مالک بننے کی بھیڑ چال ہے۔

ٹریفک حادثات میں اضافے کی ایک وجہ پبلک ٹرانسپورٹ شعبہ میں رکشوں، ویگنوں، ٹرکوں، بسوں اور دیگر گاڑیوں کی مناسب مکینیکل ششماہی چیک اپ کے بغیر ان کو چلائے جانے کی ناجائز اجازت کا مروجہ طریق ہے جس کی موجودگی کرپٹ پریکٹس کے بغیر ناممکن ہے۔ موٹر وہیکل قانون کے تحت کوئی ناقص موٹر گاڑی ششماہی چیک کے بغیر سڑک پر PSR کے طور پر نہیں چل سکتی لیکن ہر قسم کی کھٹارہ گاڑی فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کر کے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔

سڑکوں پر اندھا دھند گاڑیوں کی ڈرائیونگ، اوورٹیکنگ کرتے ہوئے حادثات کو کھلی دعوت، موٹر سائیکلوں کی Zig Zag ڈرائیونگ، بسوں، اناڑی رکشہ اور ویگن والوں کی سواریاں اٹھانے کے لیے خطرناک ریس اور نو دولتیوں کی جوان اولادوں کی مہنگی گاڑیوں میں من مانی کی ڈرائیونگ، ہر قسم کی موٹر وہیکلز چلانے کے لیے ڈرائیونگ لائسنس کی آزادی نے روڈ ڈسپلن کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اس صورتحال کو قابو اور ڈرائیونگ ڈسپلن کو بحال کرنے کے لیے ڈرائیونگ ٹریننگ ادارے قائم کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ ایسے انسٹیٹیوٹ ضلعی سطح پر فوری قیام میں لانا چاہئیں جو سرکاری کی بجائے تجربہ کار لیکن پرائیویٹ ہاتھوں میں ہونا بہتر ہو گا۔ کوئی موٹر ڈرائیور لائسنس اور ٹریننگ کے بغیر سڑک پر نہ آئے یہی ایک طریقہ ہے جو خطرناک ڈرائیونگ اور حادثات میں کمی کا باعث ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں