سال کا پہلا مہینہ
بے شک کم ظرف کی یہی پہچان ہے اور جب دشمن عاجزی سے تیرے در پر آئے تو اس وقت دل سے کینہ اور سر سے غصہ کو نکال دے
ویسے تو ہر سال خون آشام گزر رہا ہے، ماہ و سال کی گردش اسی طرح جاری ہے، لیکن حالات جوں کے توں ہیں، بلکہ اس سے زیادہ برا ہو رہا ہے۔ گزشتہ و موجودہ حکومتوں نے خونیں واقعات کو روکنے کی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی۔مسلم لیگ ن جب اقتدار میں آئی تو کچھ لوگوں کو اس سے اچھی امیدیں وابستہ تھیں، جب کہ اکثریت کا یہ کہنا تھا کہ حالات میں تبدیلی نہیں آئے گی، سابق نظام ہی قائم رہے گا، لوگوں نے دیکھا کہ ماضی کی حکومتجیسا ہی سب کچھ چل رہا ہے۔ عوام پریشان ہیں ، گھروں میں قیامت بپا ہے، سڑکوں، شاہراہوں پر دھرنے دیے جا رہے ہیں، میتوں کو رکھ کر احتجاج کیا جاتا رہا ، اس طرح زندہ لوگ بھی سفاکی کا شکار ہیں اور مرنے والوں کو بعد از مرگ بھی دائمی ٹھکانہ میسر نہیں۔
ماہ جنوری کے شروع ہی میں تخریب کاری بڑھتی چلی گئی، راولپنڈی میں خودکش دھماکا ہوا، اس دھماکے میں سویلین اور سیکیورٹی اہلکاروں نے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا، ایکسپریس نیوز کے تین کارکنان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان کا کوئی قصور نہ تھا، وہ غریب و متوسط گھروں سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے خاندان کے کفیل تھے۔ ان کا شمار اہم شخصیات میں نہیں ہوتا تھا، وہ عام لوگ تھے، عام لوگوں کو بھی اس ملک میں امان نہیں، انھیں شہادت نصیب ہوئی اور یہ بہت بڑا مرتبہ ہے جو ان لوگوں کو ملا۔ 20 جنوری کی خبر کے مطابق بنوں میں فوجی قافلے پر حملہ ہوا۔ ملک کے 23 محافظوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس موقع پر نواز شریف وزیراعظم پاکستان نے سوئٹزر لینڈ کا دورہ منسوخ کردیا۔ ان بگڑتے حالات میں وزیراعظم کو پورے پاکستان کا دورہ کرنا چاہیے کہ ملک اور عوام کو ان کی ضرورت ہے، وہ آئیں اور دہشت گردی کے خلاف منصوبہ بنائیں اور اس پر عمل کریں تاکہ بے قصور عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
اس موقع پر شیخ سعدیؒ کی ایک حکایت یاد آگئی ہے کہ کسی ملک میں ایک ظالم حکمران حکومت کرتا تھا، اس کی رعایا اس کے ظلم سے بہت تنگ تھی۔ ان کا دن بے حد خراب گزرتا اور رات کو سونے کے بجائے یہ نیک اور اچھے لوگ بادشاہ کو بددعائیں دیتے لیکن حالات بدلنے کا نام نہ لیتے۔ بادشاہ کے ظلم و ستم عوام کے ساتھ اس ہی طرح جاری تھے، ایک دن رعایا میں سے کچھ دانش ور ایک بزرگ کے پاس آئے اور حکومت کی طرف سے ہونے والے ظلم کی روداد سنائی اور کہا کہ آپ ہی کچھ تدبیر کیجیے اور بادشاہ کو سمجھائیں کہ وہ اﷲ کے عتاب سے ڈرے، اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ بزرگ بادشاہ کے ستم سے واقف تھے۔ لہٰذا انھوں نے فرمایا کہ میں تو اس کے سامنے خدا کا نام بھی لینے سے گریزاں ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اسے اس قابل نہیں سمجھتا ہوں، کیونکہ اس ذات باری کے پیغام کے لائق ہر شخص نہیں ہوتا اور اگر کسی کو حق سے برگشتہ دیکھیں تو وہاں پر خدا کو درمیان میں نہ لائیں، اس لیے کہ حق کی بات تو مرد خدا کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔
اس ہی طرح کوتاہ عقل والوں کے لیے علوم کے سمندر کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے زمین کا بیج ضایع ہونے کا اندیشہ ہے۔ جب کوئی فتنہ سر اٹھائے تو پھر جنگ کے لیے مستعد ہوجایا جائے۔ کیونکہ کینہ پرور یعنی اپنے دشمن پر مہربانی کرنا غلطی کرنے اور خطا کے برابر ہے۔ جب تو کسی سفلہ سے لطف اور خوشی سے بات کرے گا تو اس کے غرور اور تکبر میں اضافہ ہوگا۔ بے شک کم ظرف کی یہی پہچان ہے اور جب دشمن عاجزی سے تیرے در پر آئے تو اس وقت دل سے کینہ اور سر سے غصہ کو نکال دے، جب وہ امن چاہے تو پھر کرم سے کام لے لیکن اس کے مکر سے اس کے باوجود بھی ڈرنا ضروری ہے، مضبوط قلعے کی دیوار کو جوان تلوار سے اور بوڑھے بزرگ اپنی رائے اور عقل مندی سے اٹھاکر دور ڈال دیتے ہیں۔ جنگ میں بچاؤ کی ضرور گنجائش رکھو، یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ فتح مندی کسے ہو؟ جب جنگ میں یہ دیکھو کہ لشکر متفق ہوگیا تو اس وقت اپنی جان شیریں کو تنہا ضایع نہ کرو، اگر ہم ایک ہزار کی تعداد میں اور دشمن دو سو کی تعداد میں اندھیری رات میں صرف 50 سوار پانچ سو سواروں کی ہیبت رکھتے ہیں اور جب تم دشمن کو شکست سے دوچار کرو تو پھر بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑو اور جھنڈا نہ گراؤ ورنہ وہ دشمن دوبارہ تیاری کرلے گا۔
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ دشمن کی جنگ سے ڈرو بلکہ اس کی جانب سے جب صلح کا پیغام آئے تو اس سے زیادہ ڈرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دن کے وقت آیت صلح پڑھتا ہے رات کو وہ ہی سوتے میں سر پر لشکر چڑھا دیتا ہے ۔ شیخ سعدیؒ کی حکایات موجودہ زمانے کا احاطہ کررہی ہیں۔ ان کی دانش مندانہ تعلیم آج کے حالات کی عکاس اور اس پر عمل کی ضرورت ہے۔ آج بھی مسلمان حالت جنگ میں ہیں، پوری دنیا کے مسلمان غیر محفوظ ہیں، عراق ہو یا افغانستان، بھارت ہو یا کشمیر ہر محاذ پر اور ہر جگہ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ مذہب و نسل کی تفریق نے نفرتوں اور بربریت کو ہوا دی ہے۔ ہنگون کی ریاست رخائن میں بھی گزشتہ ہفتے 30 سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس خونیں واقعہ میں خواتین اور بچوں سمیت 70 افراد مارے گئے، اقوام متحدہ کی فلاحی کاموں کی سربراہ ویلری ایتبس نے برما کی حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ امدادی کارکنوں کو متاثرہ علاقے میں جانے کی اجازت دے تاکہ تحقیق شروع ہوسکے۔ یہ امداد، تعاون، انسانیت، فلاحی امور اس وقت یاد آتے ہیں جب مسلمان بستیاں جل کر خاکستر ہوجاتی ہیں، ان کے قتل عام سے پہلے فلاحی ادارے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور اگر غیر مسلموں کے ساتھ کوئی درد ناک واقعہ پیش آجائے تب تو اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے بیانات جاری ہوجاتے ہیں اور پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچ جاتاہے، برما میں اس واقعے سے پہلے بھی بدھسٹ نے گاؤں و دیہات میں بربریت کا مظاہرہ کیا تھا اور سب خاموش تھے، بولے تو اس وقت جب خاک کے سوا کچھ نہ بچا تھا۔فلسطین میں بھی مسلمانوں کی حالت سب کے سامنے ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سوچیں اور غور کریں کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اﷲ تعالٰی مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائے۔