روح محمد پھونکنے والا سائباں حصہ اول
قرآن و حدیث کی تعلیمات ہی اسلامی معاشرے کی تشکیل و بقا کی ضامن ہوسکتی ہیں۔
گزشتہ دنوں امت کے جسموں میں روح محمد پھونکنے والے مدارس دینیہ کے سب سے مضبوط اور بڑے پلیٹ فارم سائباں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نئے عہدیداروں کے چناؤ کے لیے خصوصی اجلاس جامعہ اشرفیہ لاہور میں منعقد ہوا جس میں ملک بھر کے ہزاروں علمائے کرام و شیوخ اور مدارس کے مہتممین شریک ہوئے۔
باباجانؒ کی وفات کے بعد دارالعلوم عربیہ مظہر العلوم کی اہتمام کی ذمے داری کی وجہ سے مجھے بھی شرکت کی سعادت نصیب ہوئی جس سے روح آج تک سرشار ہے۔ اور دست بہ دعا ہوں کہ اے اللہ رب العزت اگر ان اکابرین اور اولیاء اللہ سے اس دنیا میں یہ نسبت دی ہے تو بروز محشر ان کے ساتھ رکھنا۔
مولانا کی دشمنی میں سیاسی بصیرت اور عقل و شعور سے محروم '' مشروم سرکار'' وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی وحدت ختم اور مرکزیت کو توڑنے کے لیے باقاعدہ ایک منظم مہم چلا رہی ہے۔ آج سے کوئی دو سال قبل ایک اردو روزنامہ میں خبر شائع کروائی گئی کہ ''مولانا فضل الرحمن وفاق کے صدر بننے کی کوششیں کرنے لگے۔'' یہ خبر بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
تقریباً تین ماہ پہلے پیر طریقت رہبر شریعت حضرت مولانا عزیز الرحمان ہزارویؒ کے علمی گلشن دارالعلوم زکریا اسلام آباد میں وفاق المدارس کا انتخابی اجلاس ہوا۔ مولانا فضل الرحمٰن سمیت ملک بھر سے ہزاروں علماء کرام شریک ہوئے۔ ایک بار پھر ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر رحمہ اللہ اور قاری حنیف جالندھری صاحب کو بلا مقابلہ صدر اور ناظم اعلیٰ منتخب کر لیا۔ اجلاس میں ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر علالت کے باعث شریک نہیں تھے۔
چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب ہمیں داغِ مفارقت دے کر خالق حقیقی سے جا ملے اور ایک بار پھر خلا پیدا ہوگیا۔ اس وقت مدارس دینیہ کو جن مشکلات کا سامنا ہے اسی تناظر میں سیاسی فہم رکھنے والے مدارس کے اکثر ذمے داران کی رائے تھی کہ موجودہ حالات میں اگر صدارت کے لیے کوئی موثر اور موزوں ترین شخصیت ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن ہی ہیں۔
کیوں کہ اس حوالے سے خبر قریباً دو سال قبل ''بڑوں'' کے زیر اثر اخبار میں چھپ چکی تھی۔ اس لیے اس کے پیچھے مذموم مقاصد کا ہونا لازم تھا۔ میری ناقص عقل و فہم کے مطابق ''بڑوں'' کے سامنے مولانا کو صدر بنانے کے پیچھے کچھ مقاصد تھے ان میں سرفہرست ''تقسیم کرو اور استعمال کرو'' کا مقصد تھا اس حکمت عملی کے تحت مدرسوں کی وحدت اور مرکزیت کو ختم کرنا اور وفاق المدارس العربیہ کو توڑ کر مختلف حصوں میں بانٹنا تھا اور مولانا کی صدارت کی آڑ میں چند جمعیت مخالف، فرقہ پرست مدارس اور تنظیموں کو وفاق سے علیحدگی اختیار کرنے کا راستہ ہموار کرنا تھا۔
دوسرا مولانا کے صدر ہونے کے بعد مشروم سرکار کو پراپیگنڈا کرنے کے لیے ایک نیا موضوع مل جاتا کہ ''دیکھیں جی اب تو مولانا براہ راست مدارس اور طلباء کو سیاست میں لارہے ہیں'' اور اس طرح ایک تیر سے دو شکار کرتے ایک مدارس کا اور دوسرا مولانا کی سیاسی قوت کا، یقینا ان کے علاوہ کچھ اور مقاصد بھی ہوں گے، مگر ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے یہی کافی ہے۔
دینی حلقوں میں مولانا کی مقبولیت کا نہ کوئی جوڑ ہے اور نہ توڑ ، اگر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مجلس عمومی کا کوئی رکن مولانا کا نام صدارت کے لیے پیش کرتا تو بلامقابلہ اور بالاتفاق صدر منتخب ہوتے مگر قربان جاؤں مولانا کی فراست و بصیرت پر۔ جنھوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مدارس کے خلاف اس سازش کو بھانپ لیا۔ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب جیسی بین الاقوامی علمی شخصیت کا نام خود پیش کرکے وفاق المدارس العربیہ پاکستان پر ایک اور حملے کو پسپا اور دشمنان مدارس کو اپنی فہم و فراست سے چاروں شانے چت کر دیا۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب کا نام پیش کرنے کی دیر تھی کہ حسب روایت ہال میں موجود تمام علماء نے کھڑے ہوکر اس نامزدگی کی تائید کردی اور یوں مفتی تقی عثمانی وفاق المدارس العربیہ کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے بلا مقابلہ نئے صدر منتخب ہوگئے۔ موجودہ نامساعد حالات میں شیخ الاسلام جیسے بین الاقوامی حیثیت کے مالک اور کئی بین الاقوامی اداروں کے سرپرست کا انتخاب نہایت مبارک اور احسن فیصلہ ہے۔
یقینی طور پر اس کے مثبت اثرات ہم آنے والے دنوں میں دیکھیں گے۔ رہی مولانا کی بات تو وفاق المدارس کے ساتھ ان کا رشتہ بہت مضبوط اور سب سے طاقتور ہے حسب سابق حکومتی ریشہ دوانیوں کے خلاف پارلیمنٹ سمیت ہر سیاسی فورم پر مولانا وفاق المدارس العربیہ کے لیے ایک آہنی ڈھال اور شیشہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے رہیں گے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا قیام کیسے عمل میں آیا، اس کے پیچھے کیا محرکات تھے، اب تک وفاق نے کیا فریضہ انجام دیا اور مستقبل کے لیے اس سے کیا توقعات وابستہ ہیں، آج کے کالم میں اسی پر گفتگو ہوگی۔ آیئے! پہلے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں۔
قرآن و حدیث کی تعلیمات ہی اسلامی معاشرے کی تشکیل و بقا کی ضامن ہوسکتی ہیں، اگر قرآن و حدیث کی تعلیمات کا دامن چھوڑ دیا جائے اس کے بعد کوئی لاکھ جتن کرلے نہ اسلامی معاشرہ تشکیل پاسکتاہے اور نہ ہی کوئی اسلامی معاشرہ قائم رہ سکتا۔ کیونکہ قرآن و حدیث ہی اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ ہیں۔
روئے زمین پر جہاں کہیں بھی دینی مدارس موجود ہیں ان کی موجودگی کا سب سے بڑا اور بنیادی مقصد صرف یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے ماہرین، قرآن و حدیث کا فہم رکھنے والے علماء اور علوم اسلامیہ میں دسترس رکھنے والے رجال کار پیدا ہوں کیونکہ یہی علماء کرام آگے چل کر مسلم معاشرے کی تشکیل میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں اور آگے چل کر یہی علماء کرام معاشروں کا ناتا اسلام سے جوڑنے کا باعث بنتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں آج اگر کہیں نام اور کہیں کام کے جو مسلمان نظر آتے ہیں یہ انھیں مدارس دینیہ کا فیضان ہے۔ برصغیر میں اسلام کی کرنیں نمودار ہونے کے بعد یہاں دینی روایات اور اسلامی اقدار کے قیام، تحفظ اور سربلندی کے لیے علمائے حق نے جو مجاہدانہ و سرفروشانہ کردار ادا کیا ہے وہ اسلامی تاریخ کا ناقابل فراموش اور درخشندہ باب ہے۔
برصغیر کے علماء کو اللہ کریم نے یہ اعزاز بخشا کہ انھوں نے مدارس دینیہ کے قیام و استحکام کا عظیم و بے مثال کارنامہ سر انجام دیا۔ مدارس دینیہ کے یہ عظیم ادارے انفرادی حیثیت میں کام کر رہے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد اکابر علماء نے مسلمانان پاکستان کے اسلامی تشخص کو قائم و دائم رکھنے کے لیے مدارس دینیہ کے ربط و استحکام کی غرض سے ملک کے طول و ارض میں پھیلے ان مدارس کی ایک تنظیم کی ضرورت محسوس کی۔ 1957 میں علماء کی اس مسئلہ پر مشاورت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مدارس اور اہل مدارس کا یہ مبارک سلسلہ دوسال تک مسلسل جاری رہا اور فکرو مشاورت ہوتی رہی۔
راتوں کو دعاؤں اور مناجات کا اہتمام ہوتا تھا، ہر پہلو پر غور کیا گیا اور بالآخر اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے وفاق المدارس جیسی عالمگیر تحریک، عظیم ادارہ، مشترکہ پلیٹ فارم اور وسیع نیٹ ورک معرض وجود میں آیا۔ ابتدا میں تو وفاق المدارس العربیہ کا مقصد ایک امتحانی بورڈ بنانا اور یکساں نصاب تعلیم کا تعین تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے مدارس کے خلاف سازشیں شروع ہوئیں تو وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے مدارس دینیہ کے لیے سائبانی اور چوکیداری کا کام بھی اپنے ذمہ لے لیا۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو اپنے قیام سے لے کر تاحال یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس ادارے کی قیادت وسیادت اور نگرانی وسرپرستی اکابر، اہل اللہ اور ایسے مشائخ کے ذمے رہی جن کا اخلاص، تقویٰ، للہیت، بزرگی، صلاحیت، بصیرت، الغرض ہر خوبی اپنی مثال آپ تھی، جیسے اس بار شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی جیسی عظیم ہستی جو علم وعمل، زہد وتقوی، للہیت، مہارت وبصیرت ہر حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔ اسی طرح ہر دورمیں ہی اپنے اپنے عہد کی ایسی عبقری ہستیاں اس ادارے کی قیادت و سیادت کے منصب پر فائز رہیں کہ سبحان اللہ۔ (جاری ہے)