کاروباری خوراک اور دستور صحت
خیبرپختونخوا کی پولیس کی جانب سے مختلف ہوٹلوں پرچھاپے کے دوران متعدد ہوٹلوں میں کتا کڑہائی اورکتا بریانی برآمدکی گئی۔
لوگوں کا ذریعہ معاش دو قسم کی سرگرمیوں پر منحصر ہوتا ہے ، پہلا عنصر ملازمت اور دوسرا کاروبار۔ ماضی کے تجربات و مشاہدات نے ہمیں سکھایا کہ قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو ملازمت کے بجائے کاروبار کو اپنا شعار بنائیں۔
پورے برصغیر میں فرنگیوں کا دور دورہ تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ مسلمان کاروبار کی طرف راغب ہوں ، جو مسلمان تعلیم یافتہ ہوتے تھے ، ان کو سرکاری بابو یا عرف عام میں کلرک کی نوکری دے دیا کرتے تھے۔
مسلمانوں میں ایسے افراد جو اپنی وفاداریاں برٹش سرکار کے لیے پیش کرتے یا اپنا ایمان تک فروخت کرنے میں عار یا شرم محسوس نہیں کرتے تھے، انھیں انگریز زمینیں ، جائیدادیں ، حویلیاں بطور انعام پیش کردیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ برصغیر کے مسلمان کاروبار سے لاتعلق رہے اور اس کا پورا پورا فائدہ غیر اقوام نے اٹھایا۔ آج کل ہر سو بیروزگاری کا رونا رویا جا رہا ہے۔
پاکستان میں ہوٹلز دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ گوشت خور قوم صرف کھانے کے لیے اس دنیا میں وارد ہوئی ہے اور اسی بنیاد پر زندہ بھی ہے۔ کھانا زندگی ہے، زندگی کھانا نہیں ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ یہ ایک باقاعدہ کاروباری صنعت کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔ لوگوں کے اسی ذوق وشوق کو دیکھ کر مختلف ادارے بھاری رقوم کے عوض '' شیف '' تیارکر رہے ہیں۔
اب گھروں کے باورچی خانوں میں '' باورچی'' نام کے تنخواہ دار افراد کی جگہ شیف نے لے لی ہے ۔ بنیادی طور پر باورچی خانہ کا شعبہ خواتین کی میراث ہے، یہاں بھی مرد حضرات عورتوں کے حقوق کی پامالی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
قابل افسوس ہے یہ امرکہ اب اس کاروبار میں کچھ نا عاقبت اندیش کاروباری حضرات انسانی بدن کے اندر زہر آلود مال مصالحہ اتار رہے ہیں اور ایک ہم ہیں بلا سوچے سمجھے زبان کے چٹخارے میں مگن ہیں۔ اس ضمن میں حال ہی میں لاہورکے ایک نامی گرامی ریسٹورنٹ میں کھانوں میں جانوروں کا مردہ گوشت استعمال کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔
ہماری حیرت کی انتہا وہاں ہوئی جب ایک مقامی چینل نے اپنی خبر میں یہ انکشاف کیا کہ خیبر پختونخوا کی پولیس کی جانب سے مختلف ہوٹلوں پر چھاپے کے دوران متعدد ہوٹلوں میں کتا کڑہائی اور کتا بریانی برآمد کی گئی۔ اس ضمن میں گرفتار ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام گزشتہ پانچ سال سے کر رہے ہیں۔ ادھر اس حوالے سے حال ہی میں سوشل میڈیا میں بھی ایک خبر وائرل ہوئی ہے کہ کراچی کے علاقہ گلبرگ میں کیمیکل ملا پاؤڈر پر مشتمل گنے کا جوس فروخت کیا جا رہا ہے جو گنے جیسا رنگ ظاہر کرتا ہے۔
کھانے کا کاروبار اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ جانے کی وجہ سے ملک کے بڑے بڑے صنعتکاروں کا رجحان بھی ہوٹل انڈسٹری کی طرف ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ہمارے سماج میں شادی ، بیاہ اور دیگر پر مسرت تقریبات کا ایک عرصہ سے رواج چلا آرہا ہے۔ مدعو کیے گئے مہمانوں کی ضیافت کے لیے گھروں میں کھانا تو پکنے سے رہا تو لامحالہ بازار سے ہی کھانے پکوانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسی تقریبات نامکمل رہتی ہیں جب تک تقریب کے عشائیوں میں روغنی کھانوں کے ساتھ میدہ سے تیار شدہ نان ، شیر مال اور تافتان دستر خوان کی زینت نہ بنائے جائیں۔
روٹی تو گھریلو خواتین گھر ہی میں تیارکر لیتی ہیں لیکن اب یہ کلچر بھی رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ مٹی سے بنی ہوئی بھٹیاں کثیر تعداد میں شہر کراچی بن چکی ہیں ، یہ قدرتی گیس کی جگہ لکڑی کا استعمال کرتے ہیں جس سے روٹی میں سوندی سوندی خوشبو کے ساتھ ذائقے کا بھی گمان ہوتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب ان بازاری نان بائیوں کا نام و نشان ہی نہ تھا اور قدرتی گیس تک نہیں تھی سالن، چکنی مٹی سے بنی ہوئی ہانڈی میں تیارکیے جاتے تھے، البتہ چکنی مٹی سے تیارکردہ کچے تندور جسے آج کل دھابہ کے نام سے پکارا جاتا ہے ضرور ہوا کرتے تھے اور علاقے کے غریب مزدور دوپہر کا کھانا یہاں کھا لیا کرتے تھے۔ ان تندوروں میں خصوصیت یہ تھی کہ یہ دھابے مرغ مسلم، تیز مصالحہ دار اور روغنی کھانوں کے بجائے دیسی اور سادہ کھانے کا مرکز ہوا کرتا تھا۔
مزے کی بات یہ کہ گھر کی خواتین ایک تشلہ میں آٹا گوند کر اور پیڑے تیارکرکے ان تندوروں پر بھجوا دیا کرتی تھیں، یوں تندور سے روٹی پک کر واپس گھر آجاتی تھی ، اور اہل خانہ مل جل کر ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھا لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بیماریوں کا تناسب وہ نہ تھا جو آج ہے اور اموات کی شرح بھی وہ نہ تھی جو آج ہے۔
اب حال کچھ الٹا ہوگیا ہے، اکثر نانبائی حفظان صحت کے اصولوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور یوں گندھا ہوا آٹا اور تیار کردہ پیڑوں پر مکھیاں بیٹھی رہتی ہے۔ مکھی گندگی پر بیٹھنے کی وجہ سے غلاظت میں شمار کی جاتی ہے اور یہ کھانے کی اشیا پر براجمان ہو تو یہ انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ گزشتہ ماہ پوری فضا میں مکھیوں کی یلغار تھی اور ان مکھیوں کی بڑی تعداد بازاری کھلے کھانوں اور اسی قسم کے تندوروں پر دیکھی گئی۔ پہلے ہم مغلئی طرز کے سادہ کھانوں پر چل رہے تھے اب ان کی جگہ ولایتی اور چائینیز کھانوں نے لے لی ہے۔
بیف ، چکن برگرز ، بروسٹ ، پیزا ، سینڈوچیز، فاسٹ فوڈز۔ ابتدا میں ہمارے روایتی کھانوں میں دال چاول، پلاؤ، مختلف قسم کی دالیں اور سبزیوں شامل ہوا کرتی تھیں۔ ٹنڈا نامی سبزی کا تو آ ج کل نام و نشان تک ختم ہو چکا ہے۔ کاروباری حضرات کا مطمع نظر اپنے تھوڑے سے سرمایہ کو دوام بخشنا ہے۔ بدقسمتی سے یہی عنصر ان اشیائے ضروریہ میں ملاوٹ کا ذریعہ بن رہا ہے ۔
ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان مصالحوں میں مضر صحت خام میٹریل استعمال ہو رہا ہے۔ روغنیات کی مد میں بھی گھی اور کوکنگ آئل میں کیمیکل عناصر کا استعمال بھی خارج از امکان نہیں۔ امریکن ، پاکستانی ، عریبین کھانے کا کاروبار عروج پر ہے۔ ان کھانوں کے اب تک دو فوائد نظر آئے ہیں، پہلا فائدہ یہ کہ آپ یہ اشیا مقررکردہ ڈیل پیکیج کے تحت بھی با آسانی حاصل کر سکتے ہیں اور دوسرا اہم فائدہ ٹیک ہوم ڈیلیوری کی سہولت یعنی گھر بیٹھے فون پر آرڈر بک کیجیے چند ہی منٹوں کے دورانیہ میں موٹر سائیکل پر سوار نوجوان نمایندہ آپ کا مطلوبہ آرڈر لیے آپ کی دہلیز پر حاضر ہوگا۔
یہ وہ محنت کش نوجوان ہیں جو اپنے بہتر مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے ، حصول تعلیم کا سلسلہ مکمل کیا ہوگا اور اس دوران انھوں نے نا جانے کن کن مالی مسائل و مصائب کا سامنا کیا ہوگا۔ ملک میں بیروزگاری کی دلدل نے ایسے نوجوانوں کو پرانی موٹر سائیکل پر ڈیلیوری کے کام پر مجبورکردیا۔
موسم کیسا بھی ہو، آندھی و طوفان ہو یا موسم برسات کی تباہ کن بارشوں کا سلسلہ ہو ، شہرکے ٹریفک کی بدحالی ہو، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں، ان کا کام جاری رہتا ہے۔ اپنے نازک بدن کی پشت پر بڑا سا بکس لٹکائے ٹریفک اژدھام کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ لوگ اپنا فرض نبھاتے نظر آئیں گے۔ مطلوبہ گھروں کو تلاش کرنا حقیقت میں جان جوکھوں کا کام ہے۔ دن ہو یا رات ، چوبیس گھنٹے یہ افراد سڑکوں ، گلیوں میں موٹر سائیکل پر سوار رہتے ہیں۔ کوئی درد مند ، سمجھدار صارف ایسا ہوگا جو ان کو ڈیلیوری پر ٹپ کی مد میں معمولی سی رقم دے دیتا ہو۔