پاکستان کے اہم درآمدی ممالک اور امریکی درآمدات
پاکستانی تاجروں کو دبئی اور دیگر اہم شہروں کی طرف توجہ دیتے ہوئے پاکستانی برآمدات میں اضافہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہوگا۔
پاکستان نائن الیون کے بعد سے بھی امریکا کے ساتھ مکمل تعاون کرتا رہا ہے اور ان دو عشروں کے دوران شدید متاثر ہونے والا ملک بن کر رہا گیا۔ جس کے مالی نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ جانی نقصانات کی تعداد کا بھی شمار نہیں۔
امریکا کے لیے بے انتہا قربانی دینے کے باوجود امریکا کی طرف سے پابندیوں کی تجویز نے روپے کی قدر کو مزید گرادیا ہے، اگرچہ روپے کی بے قدری کا سلسلہ کافی عرصے سے چل رہا ہے، لیکن اب ڈالر کو پہیہ لگ چکا ہے۔ ملکی معیشت و تجارت امریکا کے اس نئے حربے سے شدید متاثرہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
امریکا کی طرف سے اس قسم کا رویہ آج کا نہیں بلکہ بہت ہی پرانا ہے، امریکا کو پاکستان کئی بار آزما بھی چکا ہے۔ 98 میں جب پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکا کردیا تو فوری طور پر پاکستان پر پریسلر ترمیم کی پابندیاں عائد کردی گئیں۔
چند سال کے بعد نائن الیون کے برپا ہوتے ہی پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا اور ان دو عشروں کے دوران ہر طرح سے جانی و مالی نقصان صرف اور صرف امریکا کی وجہ سے اٹھانا پڑا۔ پھر بھی پاکستان نے امریکی فوج کے انخلا میں بھرپور مدد فراہم کی جس کے صلے میں پاکستان پر پابندیوں کی تیاری ہے، لیکن ان باتوں کے باوجود پاکستان پہلے کی طرح ہر طرح کی پابندیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے معیشت کو پروان چڑھانے میں کامیاب رہے گا۔ اس دوران پاک امریکا باہمی تجارت کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
لہٰذا پاکستان کو مختلف ممالک کے ساتھ باہمی تجارت کا بغور جائزہ لینا ہوگا اور اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ کس طرح دیگر ملکوں کے ساتھ تجارتی روابط بڑھائے جائیں۔ کیونکہ روپے کی بے قدری کی جو انتہا ہو رہی ہے اس کو روکنے کے لیے پاکستانی معیشت کو امریکی پابندیوں کے اثرات سے نکالنا ضروری ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں کے ساتھ باہمی تجارت کو فروغ دیا جائے۔ ان ممالک کے ساتھ ہونے والی تجارت کا بغور جائزہ لیا جائے۔
باہمی تجارت کے سلسلے میں کئی ممالک ایسے ہیں جن کے ساتھ ہماری درآمدات کی مالیت زیادہ ہے۔ آج کی نشست میں پی بی ایس کی طرف سے شایع کردہ ان اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اہم ترین درآمدی ممالک میں چین اس وقت سرفہرست ہے۔
بے شمار اشیا جس میں فوڈ گروپ، مشینری گروپ، ٹرانسپورٹ اور اس سے متعلقہ سامان، یا اسپیئر پارٹس اور مختلف اقسام کی کم قیمت سستی یا مہنگی اشیا و مصنوعات درآمد کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی برآمدات نہایت ہی کم مقدار اور مالیت کی روانہ کی جاتی ہیں۔ جولائی تا مارچ 2021 ان 9 ماہ کے دوران چین سے 17 کھرب 25 ارب 84 کروڑ 32 لاکھ روپے مالیت کا سامان درآمد کیا گیا۔
اس کا موازنہ اس سے گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے سے کیا جائے تو یہ رقم 13 کھرب 94 ارب 29 کروڑ 97 لاکھ روپے بنتی ہے۔ اگر چین سے ہونے والی درآمدات کا جائزہ لیں تو کچھ اس طرح سے ہے کہ ہماری کل درآمدات میں 2021 کے 9 ماہ کے دورانیے میں کل درآمدات میں اس کا شیئر 27.07 فیصد بنتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ جولائی تا مارچ 2021 تک کا ذکر کیا جا رہا ہے اور اسی کے بالمقابل گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کی درآمدی بل کی مالیت 13 کھرب 94 ارب 29 کروڑ97 لاکھ روپے بنتی ہے اور مالی سال 2019-20 کے دوران کی گئی کل درآمدات میں چین کا حصہ 25.66 فیصد ہے۔
چین سے درآمدی اشیا کی فہرست طویل ہے۔ بہت سی اشیا ایسی ہیں جن کو پہلے درآمد کیا جاتا ہے پھر اسے ملکی برآمدات کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے اور ملکی برآمدات کی ویلیو بڑھا کر برآمد کردی جاتی ہے۔ پاکستان جن ملکوں سے درآمدات کرتا ہے ان میں مالیت کے اعتبار سے متحدہ عرب امارات دوسرے نمبر پر ہے۔
پاکستانی تاجروں کو دبئی اور دیگر اہم شہروں کی طرف توجہ دیتے ہوئے پاکستانی برآمدات میں اضافہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہوگا، کیونکہ دنیا کے دیگر کئی ملکوں کی برآمدات سے وہاں کی مارکیٹیں بھری پڑی ہیں اور پاکستانی صنعتکار اپنی مصنوعات اور برآمدات کی کوالٹی کو بہتر سے بہتر بنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کے لیے آرڈرز میں اضافہ نہ ہو۔