ماڈرن کہانیاں
عزت نفس کس چڑیا کا نام بھلا ہمیں اس سے کیا ویسے بھی ہم تو ہیں ہی بہت ماڈرن۔
یہ ابھی پچھلے ہفتے ہی کی بات ہے کہ گھر آتے ہوئے سڑک پر برابر جاتے رکشے میں سوار ایک بچے پر نظر پڑی۔ بچے کے ہاتھ میں چپس کا خالی پیک تھا جو اس نے ساتھ بیٹھی ماں کو دکھاتے ہوئے اشارے سے پوچھا کہ کیا وہ یہ خالی لفافہ باہر روڈ پر پھینک دے، ماں نے جھٹ سر ہلا کے ہاں کا اشارہ دیا اور بچے نے چپس کا وہ خالی پیک سڑک پر پھینک دیا۔
معلوم یہ ہوا کہ بچے میں ابھی حس صفائی کی کچھ رمق باقی تھی، جو ماں کے طفیل انجام پذیر ہوئی۔ اب شاید یہ بچہ دوبارہ کبھی سڑک پر کوڑا پھینکتے نہ تو کسی سے پوچھے گا نہ خود ہی کسی تردد میں پڑے گا۔ ہمارے ہاں دانشوری کے مالیخولیا میں گرفتار فکری قلاش قوم کی تعلیمی حالت سدھارنے کے خلجان میں مبتلا اخباروں کے صفحے سیاہ کرتے نظر آتے ہیں۔
جو سوال انھیں اٹھانا چاہیے وہ یہ اپنے فکری خسارے کی بنا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں کہ تعلیم بنا تربیت نرا ڈھکوسلا ہی ہے مگر اس قوم کی تربیت کرے تو کون کرے؟ بلکہ اس قوم سے پہلے اس قوم کی ماؤں کی شہری آداب ، سماجی تہذیب اور اخلاقی قدروں کی تربیت کون کرے ، تاکہ یہ پھر اپنی اولادوں تک یہ قطعی عنقا بنیادی شخصی خوبیاں منتقل کرسکیں؟
دیکھیے نا اگر اس قوم کی ماؤں کی اپنی تربیت ہوئی ہوتی تو کیا وہ اپنے بچوں کو سڑکوں پہ کوڑا پھینکنے کی اجازت دیتیں؟ حرام کمانے، حرام کھانے کا سبق پڑھاتیں؟ اور تو اور کیا حرام کاری کرنے سے منع کرتیں کہ جن کے ویڈیوکلپس جو منظر عام پہ آئیں تو پوری ڈھٹائی سے ان کا دفاع کریں۔
چلیے خیر اس قوم کی سماجی ، شہری اور اخلاقی تربیت کبھی ہوئی کہ نہیں مگر یہ قوم خصوصاً اس کا جینیاتی کرپٹ حکمران طبقہ اور اس طبقے کا حامی میڈیا ہے بہت ''ماڈرن'' جی ہاں ہم اتنے ماڈرن ہیں کہ کیا یہ بے چارے افغانستان کے غم کے مارے امریکی ہوں گے یا یورپی ہوں گے۔
بھئی ! آپ خود دیکھیے نا کہ امریکا ، یورپ یہاں تک کہ اگر اسرائیل میں بھی جو کسی حکمران ، سیاستدان ، سرکاری و نجی ادارے کے کسی اعلیٰ عہدیدارکا کوئی جنسی اسکینڈل بشمول قابل اعتراض ویڈیوکے اگر لیک ہو جائے تو ان کافر معاشروں میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے، تحقیقات شروع ہو جاتی ہیں اور پوری قوم بشمول ان کا میڈیا سب مل کر لعن طعن کا وہ طوفان اٹھاتے ہیں کہ متعلقہ حکمران، سیاستدان، سرکاری و نجی ادارے کے اعلیٰ عہدیدارکو اپنی پوزیشن سے استعفیٰ دینا ہی پڑتا ہے اور وہ گم نامی میں گم ہو جاتا ہے۔
آخرکیوں؟ ان ماڈرن ملکوں میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ بھئی بقول ہمارے '' لیڈروں '' کا پرائیویٹ معاملہ ہے تو پھر ایسے پرائیویٹ معاملات پر ان ماڈرن ملکوں میں ایسا انتہا پسندانہ ردعمل کیوں ہوتا ہے جہاں کہ لوگ بغیر شادی بیاہ کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر ساتھ رہتے ہیں؟
کیونکہ ان ماڈرن ملکوں کے عوام ، میڈیا اور ادارے اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، سرکاری و نجی اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں سے کردار کے سخت ترین معیارات چاہتے ہیں پھر یہ کہ ان معاشروں میں شادی شدہ ہوتے ہوئے یا کسی ایک فرد کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے دوسرے افراد کے ساتھ غیر اخلاقی تعلق میں ملوث ہونا ایک ناقابل قبول اور ناقابل معافی حرکت ہے جس کی قیمت متعلقہ فرد کو اپنے کیریئر کی تباہی کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے ، مگر جناب ہم تو جیسا کہ ابھی بتایا ان امریکیوں، یورپیوں، اسرائیلیوں سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں.
ہمارے ہاں تو چاہے کتنے ہی بڑے بڑے ناموں کی کتنی ہی بڑی بڑی''کارروائیاں'' منظر عام پر آجائیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ میڈیا الٹا تلقین شاہ بن جاتا ہے کہ جی یہ تو ان کا ''نجی'' معاملہ ہے، آپ کو کیا ، ادھر ایسے گمراہوں کے سیاسی و ادارہ جاتی آقا ان کا کندھا تھپتھپاتے ہیں کہ جو کیا خوب کیا ، تم شرم کرو نہ کرو ہمیں تم پر ناز ہے۔ دوسری طرف اپنی تحریروں میں اخلاقیات کا پھٹا ڈھول پیٹنے والے بھی منہ سے جھاگ اڑاتے دیہاڑی لگانے آجاتے ہیں اور عوامی عہدوں پر رہنے والے اپنے ممدوحین کی نہیں بلکہ ان کے ''اعمال'' کے ویڈیو منظر عام پر لانے کی '' غیر اخلاقی'' حرکت کرنے والے عاقبت نااندیشوں کے لتے لیتے ہیں۔
اب بتائیے ایسا ماڈرن ماحول تو آپ کو امریکا ، یورپ ، آسٹریلیا ، اسرائیل کہیں بھی ڈھونڈے نہیں ملے گا۔ ویسے بھی کیا ہوا کہ ہمارے پاس شہری آداب، سماجی تہذیب اور اخلاقی قدریں نہیں ، ہمیں ان کی ضرورت بھی نہیں ، ہمارے پاس زبان ہے اور اس کے استعمال میں ہمارے آگے دنیا پانی بھرتی ہے۔
دانا کہتے ہیں کہ قدرت نے ہر انسان کو تقریباً ایک جیسی بنیادی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، اب یا تو داناؤں کا دانائی کی طرح ہمارے ہاں سے گزر نہیں ہوا یا وہ ہمارے ایکشن میں آنے سے پہلے ہی گزر گئے ورنہ یہ دیکھ کر دانتوں تلے اپنی انگلیاں چبا ڈالتے کہ کیسے قدرت نے زبان دانی المعروف زبان درازی کی خدا داد صلاحیت کے دس حصے کیے جن میں سے ساڑھے نو ہمیں سونپ دیے جب کہ باقی ماندہ صفر اعشاریہ پانچ صفر پوری دنیا میں تقسیم کیے۔ چنانچہ قدرت کے اس تحفے کا یہ قدرتی نتیجہ ہے کہ ہماری زبان کے آگے کھائی خندق برابر ہے۔
اب آپ افغانستان کا معاملہ لے لیجیے کہ 15 اگست کو کابل میں طالبان کی آمد کے بعد سے اب تک شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ ہمارے ہر دلعزیزحکمرانوں اور وزراء نے افغانستان پر دنیا کو لیکچر نہ دیا ہو اور یہی نہیں بلکہ ہمارا ہر اینکر، ہر کالم نگار حتیٰ کہ نیوز ریڈر بھی جن سے اگر پوچھیں کہ افغانستان مشرق میں ہے یا مغرب میں تو جنوب بتائیں، سب ہی بلاناغہ ، بلا تکان ، بلا تکلف ، بلا لحاظ افغانستان پر بولتے ہیں اور بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔
اب معاشیات کا کیونکہ اصول ہے کہ سپلائی ڈیمانڈ سے زیادہ ہو تو قدر گر جاتی ہے جب کہ ہماری نان اسٹاپ تقریروں ، لیکچروں اور بیانات کی سپلائی بے حد و بے حساب ہے لہٰذا دنیا ہمارے ان روز روز کے لیکچروں ، تقریروں ، بیانات ، پریس کانفرنسوں پر دھیان دینا کب کا چھوڑ چکی، یقین نہ آئے تو جس دن چاہیں اپنے میڈیا پر '' بریکنگ نیوز '' کے طور پر چلنے والے ان بیانات اور لیکچروں کو دیکھ لیں پھر دنیا بھر کا میڈیا کھنگال لیں آپ کو جو اب اقوال زریں کی کہیں بھنک بھی پڑ جائے تو بتائیے گا۔
کرکٹ کو ہی دیکھ لیجیے، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ والے تو ایک آدھ بیان دے کر چپ کر گئے ادھر ہماری چیخ و پکار ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ والے خوب جانتے ہیں کہ ابھی انگلی سے ذرا جو اشارہ کریں گے تو ہم دوڑے دوڑے جائیں گے۔ عزت نفس کس چڑیا کا نام بھلا ہمیں اس سے کیا ویسے بھی ہم تو ہیں ہی بہت ماڈرن ، پہلے ہمارے ہاں اخلاقی کہانیوں کا دور دورہ تھا ، وہ دور کب کے لد گئے، ہمارے ہاں اب ماڈرن کہانیاں چلتی ہیں۔