افراط زر اور سیاسی بحران
افراط زر اور کچھ بھی نہیں بالآخر یہ سیاسی بحران کا ملبہ غریبوں پر ہی گرانا ہے۔
جب قدغن لگانا ہی رہ گیا ہو، ہر شے پر، اداروں پر پریشر ڈالنا ہی رہ گیا ہو۔ جب انتخابات سے ڈر لگنے لگے اور پھر آپ کو معقول امیدوار اب کے بار نہ ملنے لگیں تو سمجھ لیجیے آپ کی چھٹی ہوگئی ہے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون ڈالے، سوال یہ ہے کہ گھنٹی بھی ہے اور بلی بھی ہے اور چند ڈالنے والے ہوں نہ ہوں گے وہ الگ ماجرا ہے مگر آپ نوشتہ دیوار پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نہ پڑھیں! تاریخ کو توآگے بڑھتے جانا ہے۔
انتخابات ہمیں صاف و شفاف کرانا ہوں گے۔ نہیں کرائیں گے اس کا مطلب یہی ہے کہ انتخابات کے نتائج آپ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ آپ نہ مانیں مگر یہ کام صرف اک دفعہ ہوسکتا ہے بار بار نہیں۔ اور وہ جو ایک دفعہ ہوا ہے اس نے اپنا زہر پھیلا دیا ہے۔ پاکستان کی بقا صرف اور صرف جمہوریت میں ہی ہے اور جمہوریت ایک رات، ایک سال میں پک کے راس نہیں ہوتی۔
ایک عمر چاہیے ہوتی ہے کبھی تو دہائیاں اور صدیاں لگ جاتی ہیں۔ پھر بھی ان جمہوریتوں کو ٹرمپ اور مودی جیسے ٹکرا جاتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں ان جمہوریتوں کے اوپر مسلسل تلوار لٹکی رہتی ہے۔ اور ــ''ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے '' کس طرح ایک طویل فہرست نوابزادہ نصر اللہ سے لے کر بزنجو کی، بھٹو اور بے نظیر کی۔ اب کے تو رسم چلی ہے کہ جہاں بھٹو بھی غدار نکلے ہیں۔ وہ بھٹو جس کے زمانوں میں ولی خان غدار تھے۔
یوں کہیے اب کے جو جمہوریت کی بات کرے وہ غدار ہے۔ اس بار جو بیانیہ حکمرانوں کو چاہیے وہ ایسا ہو جس میں سب سے پہلا اور بنیادی ہدف جمہوریت ہی ہو۔ لوگوں نے اب تو توبہ کرلی، کرپشن تو ختم نہ ہوئی لوگ ختم ہوگئے۔ خودکشیاں بڑھ گئیں، جینا محال ہوگیا۔ جو بیانیہ اپنی حکومت کو طول دینے کے لیے خان صاحب نے چنا ہے وہ ہو بہ ہو جنرل ضیاء الحق والا بیانیہ ہے۔ جس سے میاں نواز شریف دور ہوگئے۔
بھٹو اور نواز شریف اسٹیبلشمنٹ اور دائیں بازو کی اشرافیہ کی بیسا کیوں پے چل کے آئے تھے اور پھر عوام میں جڑیں بنا گئے۔ خان صاحب وہ جڑیں بھی نہ بنا پائیں گے۔ وہ تقاریر سے لوگوں کو بہلانا چاہتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔
جتنا جتنا ہم شفاف اور صاف انتخابات سے دور بھاگ رہے ہیں اتنا ہی ہم دلدل کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہم نے آدھا ملک گنوایا انتخابات کے نتائج نہ ماننے کے انکار میں۔ ہم نے پھر غیر جماعتی انتخابات کرائے پھر ہم نے بڑی مشکل یعنی ایک ووٹ سے ظفر اللہ جمالی کو جتوا کے وزیر اعظم کیا۔ ہم جونیجو لائے تو وہ ہمیں گلے میں پڑ گیا۔
خود جمالی صاحب بھی آنکھیں دکھانے لگے۔ اور اب کے بار اتنا اچھا وزیر اعظم لائیں ہیں کہ پوری پارٹی قربان کردی، پورا بیانیہ جو کرپشن کے خلاف انھوں نے بنایا تھا الٹ پلٹ ہوگیا۔ اس سے پہلے جو بھی آمریتیں یا نیم آمریتیں تھیں، ہمارا معاشی بحران اتنا سنگین کبھی نہ تھا، نہ اتنے قرضوں کا بوجھ تھا۔ ایسی زور زبردستی سے پہلے کبھی کسی کو نہیں بٹھایا گیا تھا۔
خان صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے افراط زر دیکھنی ہے تو جاکے وینزویلا کی دیکھیں مگر خاں صاحب یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وینزویلا کے افراط زر کے پیچھے کیا عوامل تھے۔ یہی سیاسی عدم توازن جو بڑھ کے بالآخر افراط زر کی شکل اختیار کر گیا۔ خان صاحب کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ خود ہٹلر افراط زر کی کوکھ سے پیدا ہوا، لوگ سمجھے، جس طرح ہم خان صاحب پے بھروسہ کر بیٹھے کہ جرمن قوم کو نہ جانے کہاں لے جائے گا۔
اور بلا آخر کیا ہوا جرمنی کو ہٹلر کے بیانیے نے غاروں میں دھکیل دیا اور ذلت سے بچنے کے لیے خودکشی کی، کوئی عینی شاہد نہ ملا ،کس طرح سے ہٹلر اور اس کی کچن کیبنٹ کے لوگ گم ہوگئے۔ سانحہ ڈھاکا کے بعد بھی یحییٰ خان کھڑے تھے۔ ہم نے سوچا ہے کبھی ہم کر کیا رہے ہیں۔ سچ سننے کے لیے ہم تیار نہیں وہ جو ہمیں ان برہنہ آنکھوں سے نظر آرہا ہے وہ آپ کو کیوں نظر نہیں آرہا۔ یہ اقتدار چیز ہی ایسی ہے۔ آدمی کو اندھا کر دیتی ہے۔
بات صرف افراط زر کی بھی نہیں اور بھی دکھ ہیں ہمیں لاحق افراط زر کے سوا اور یہ سب بالآخر افراط زر میں دم توڑتے ہیں۔ یہ سب پک کے افراط زر میں ضم ہوجاتے ہیں، وینزویلا کے اندرونی سیاسی بحران کی طرح۔ اب ہم خوراک میں خود کفیل نہیں رہے۔
ہمارے پاس اپنی گیس تھی اب ہم گیس امپورٹ کررہے ہیں، ہمارے پاس اتنے ہنر مند نہیں جو ہم ان کی اشیاء کو ایکسپورٹ کرکے زر مبادلہ کما سکیں۔ ہم معجزوں پے بیٹھے ہیں کہ یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا۔ چالیس سال تو ہم افغانستان کی وجہ سے چلتے رہے۔ کبھی جہادی سنبھالے، کبھی مارے۔ اب افغانستان پر طالبان پھر قابض ہیں ۔ دنیا دیکھ ہی ہے کہ صرف ہم ہیں جو ان کے ساتھ ہیں۔ یہ ہمیں اور تنہا کرتا ہے۔
یہ ملک جنھوں نے بنایا وہ اب کے جو بنا بیانیہ ہے اس میں اجنبی ٹھہرے۔ مگر جو بھی ہے یہ ان لوگوں کا پاکستان ہے۔ اس کی قانون سازی، پالیسی اب انھی کا اخذ ہو۔ ان کے رائے کا احترام ہو۔ ہماری فوج ہماری مضبوطی کی ضامن ہے۔ ہماری عدلیہ جتنی آزاد ہوگی، ہمارا میڈیا جتنا آزاد ہوگا اس سے ہماری بنیادیں اور مضبوط ہوں گی۔ ہر ایک ادارہ اپنی آئینی حیثیت اور دائرے میں رہ کر کام کرے۔
ہم نیب کے چیئرمین کو آرڈیننس کے ذریعے توسیع دینا چاہتے ہیں یہ آئین کے مطابق قدم نہیں ہوں گے اور اپنے کئی کام ہم نے آرڈیننس کے ذریعے کیے مگر اٹھارویں ترمیم کے بعد ایسا کام ممکن نہیں۔ ہم اب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر قانون سازی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب بلآ آخر جاکر افراط زر کی شکل میں رونما ہوں گے۔
افراط زر اور کچھ بھی نہیں بالآخر یہ سیاسی بحران کا ملبہ غریبوں پر ہی گرانا ہے۔ جس سیاسی ڈھانچے میں اور جس شرفا کی قیادت میں ہم چل نکلے ہیں، دور دور تک خوشحالی آتی ہوئی نظر نہیں۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کے
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل