یہ NRO نہیں ہے تو کیا ہے
ہمارے بچوں کے دشمنوں کو لمحہ بھر میں معاف کردینے کے پیچھے ہماری کون سی مجبوری ہے
موجودہ حکمران جب سے اس کرسی پر بیٹھے ہیں ، قوم نے اُن کی زبان سے ایک ہی جملہ تواتر اور تسلسل کے ساتھ سنا ہے کہ وہ کسی کوNRO نہیں دیں گے، اپنے کسی بھی مخالف کوکوئی رعایت نہیں دیں گے، یہاں تک کہ وہ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف سے بھی کسی بڑے قومی مسئلہ پرکوئی بات چیت کرنے کو تیار نہیں اور ہم نے دیکھا بھی یہی کہ وہ گزشتہ تین سالوں میں کسی وقت بھی اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کرنے کو تیار نہیں ہوئے اور کوشش کرتے رہے کہ اُن کے ساتھ کوئی نشست بھی نہ ہوسکے۔
اُن کا یہ رویہ خود اُن کے لیے مسائل پیدا کرتا رہا اور وہ کئی قومی امور نمٹانے کے لیے آرڈینینس کا سہارا لیتے رہے۔ابھی حال ہی میں انھیں نیب کے نئے چیئرمین کے انتخاب کا مسئلہ درپیش ہے اور جس کے لیے آئینی و دستوری پابندی ہے کہ سربراہ مملکت اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے ساتھ یہ کام احسن طریقہ سے سر انجام دے گا ، لیکن وہ قائد حزب اختلاف سے بات چیت کرنا پسند نہیں کرتے لہٰذا ایک صدارتی آرڈینینس کے ذریعے موجودہ چیئرمین ہی کو ایکسٹینشن دیکر فی الحال وقتی طور پر اس مسئلہ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی سے تو وہ بات چیت کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اگر وہ اُن کے ٹیلیفون کا جواب دیدے ۔
دوسری جانب ہم افغانستان میں تیزی سے بدلتی صورتحال کے سبب اپنے اُن سے بھی بات چیت کرنے کو تیار ہوچکے ہیں جو ہمارے یہاں مسلح دہشت گردی ، بم دھماکے اور خود کش حملوں کے ذمے دار بھی رہے ہیں۔ وہ ہمارے ہزاروں معصوم اور بے گناہ افراد کو قتل کرتے رہے اور جنھوں نے ہمارے بچوں کو بھی نہیں چھوڑا ، ہم اُن سے آج کل نہ صرف بات چیت کر رہے ہیں بلکہ انھیں مکمل معافی اورNRO بھی دینے کو تیار ہیں۔ سمجھ نہیں آرہا کہ چند ہفتوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ ہم نے اپنی پالیسی اور حکمت عملی بھی بدل ڈالی۔ اپنے بچوں کے قاتلوں کو معاف کرکے اُن کو گلے سے بھی لگا دینے کا عندیہ دے ڈالا۔
وزیر اعظم کے رفقاء کا مؤقف ہے کہ یہ ایک بہت ہی حساس معاملہ ہے اور اس پر پارلیمنٹ میں کھل کر بات نہیں ہوسکتی ، لیکن پھرکیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم خود تو ساری دنیا کو یہ بتاتے پھر رہے ہیں کہ اندرون خانہ تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت ہو رہی ہے اور اگر وہ ہتھیار ڈال دینے کا وعدہ کریں تو انھیں معافی بھی دی جاسکتی ہے۔ مختلف غیر ملکی چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے تو یہ کیوں محسوس نہیں کیا گیا کہ یہ ایک بہت ہی حساس اور سیکریٹ معاملہ ہے اور اسے یوں دنیا بھر کے سامنے نہیں لایا جاسکتا ہے۔
امریکا ویسے ہی ہمارے اوپر دباؤ بڑھانے کی کوششیں کر رہا ہے اور افغانستان میں اپنی شکست کا ذمے دار بھی ہمیں قرار دے کر ہم پر مختلف پابندیاں لگانے پر غور بھی کررہا ہے تو پھر ایسے میں یہ انکشافات کیا ، ہمارے لیے اور مشکلوں کا باعث نہیں بنیں گے، اگر اندرون خانہ ایسی کوئی بات چیت بھی چل رہی ہو تو یوں میڈیا پر اُس کی تشہیر اور پبلسٹی کرنا کیا ہمارے لیے مفید ہوسکتا ہے۔
ہمارے بچوں کے دشمنوں کو لمحہ بھر میں معاف کردینے کے پیچھے ہماری کون سی مجبوری ہے کہ ہم اپنی قوم کو بھی نہیں بتاسکتے۔ یہ کیسا NRO ہے کہ 70 ہزار افراد کے قاتلوں کو صرف اس یقین دہانی پر دے دیا جائے کہ وہ آیندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے۔ کیا ہم نے اس NRO کے ممکن نتائج پر بھی غورکر لیا ہے کہ ہم ایک بار پھر انھی قیامت خیز منظروں سے دوچار نہیں ہونگے جن سے ہم پچھلے دس بارہ سال میں دوچار ہوتے رہے ہیں۔
اب آجائیے اپنے ملکی NRO پر۔ ہم یہاں بھی اچھے مخالف اور برے مخالف کی تفریق پر احتسابی کارروائیاں کررہے ہیں۔ جن سے ہمیں اگلے عام انتخابات میں خطرہ لاحق ہے ہم ان کے خلاف تو بھرپور لڑائی لڑ رہے ہیں ، جب کہ پیپلزپارٹی اور اس کے لیڈروں پر ہاتھ نرم کیے ہوئے ہیں، جو کہانیاں زرداری صاحب کی کرپشن سے متعلق گھڑی گئی تھیں وہ ساری کی ساری دم توڑ چکی ہیں۔
اب کسی بھی دودھ والے اور فالودے والے کے قصے منظر عام پر نہیں آرہے۔ نہ ڈاکٹر عاصم کی پیشیاں ہورہی ہیں اور نہ انورمجید اور حسین لوائی کی باتیں سنائی دے رہی ہیں۔ اب صرف اور صرف شہباز شریف کے نوکروں ، مالیوں اور پاپڑ والوں کے اکاؤنٹس کے قصے قوم کے گوش گزار کیے جا رہے ہیں۔
لوگوں کا اِن قصوں سے بھی اعتبار اُسی طرح اُٹھ چکا ہے جس طرح زردار ی صاحب کے قصوں کے انجام دیکھ کر اُٹھ چکا ہے۔ ہمارے یہاں احتساب کا نعرہ صرف اور صرف اپنے اقتدار کی بقاء اور طوالت کے لیے لگایا جاتا ہے۔ نو سال تک پرویز مشرف بھی یہی کرتے رہے اور اب خان صاحب بھی یہی کررہے ہیں۔ دیکھا جائے تو کرپشن کم ہونے کے بجائے بہت بڑھی ہے۔ مافیاز کے خلاف سخت ایکشن لینے کی باتیں بھی صرف ٹائم گذارنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ دو سال ہوچکے چینی اور آٹے کے بحران کو پیدا ہوئے کیا کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی دکھائی دی ، بلکہ چینی اور آٹے کے دام کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
زبانی وکلامی بہت کچھ کہا گیا اور قوم کو یہ باور بھی کرایا گیا کہ وزیراعظم کو غریب لوگوں کا بہت دکھ اور احساس ہے ، مگر ساتھ ہی ساتھ ہراس چیز کے دام بھی بڑھا دیے گئے جو شاید کسی کی نظروں سے اوجھل ہوچکے تھے۔ اب کھانے پینے کی کوئی شے بھی سستی نہیں رہی۔
شہباز شریف اور اُن کے بیٹے سلیمان شہباز کے خلاف الزامات میں برطانیہ کی تحقیقاتی ایجنسی NCA سے بریت نے ملک کے اندر بھی اُن کے خلاف لگائے گئے بے شمار مقدمات کی صحت و صداقت پر شکوک پیداکر دیے ہیں۔ اس سے پہلے براڈ شیٹ کیس میں بھی ہماری اس حکومت کو سبکی اُٹھانی پڑی تھی۔ جیسے جیسے معاملات آگے بڑھتے جارہے ہیں حقیقت عیاں ہوتی جارہی ہے۔ حکومت نے نیب کی مدد سے جتنے کیس نون لیگی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف بنائے سارے کے سارے ملکی عدالتوں میں جاکر بے وقعت اور غیر اہم ثابت ہوتے رہے۔
نتیجتاً سب رہنما ضمانت پر بری ہوتے چلے گئے۔ حکومت صرف میڈیا ٹرائل کے ذریعے اِن لیڈروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے میں مصروف ہے۔ اُس کے سارے وزیر اور مشیر اپنا اصل کام چھوڑ کر مسلم لیگ نون کے خلاف الزامات ترتیب دینے میں اپنا وقت اور توانائی صرف کررہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی کارکردگی نہیں دکھا پا رہا۔ حکومت کے نامہ اعمال میں ناکامی اور نا اہلی کے سوا کوئی کارنامہ درج نہیں ہے۔ جتنے بھی منصوبے بنائے گئے وہ یا تو شروع ہی نہ ہوسکے اور اگر شروع بھی ہوگئے تو فنڈز کی کمی کے باعث ادھورا چھوڑ دیے گئے۔
حکومت کے پاس پیسہ نہیں اور وہ بڑے بڑے منصوبوں کے اعلانات ایسے کررہی ہے جیسے وہ اگلے دو سالوں میں پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔کراچی ہی کو لیجیے یہاں سے چودہ سیٹیں جیت جانے والی تحریک انصاف کی حکومت کے پاس کراچی کو دینے کے لیے ایک دھیلا بھی نہیں ہے لیکن وہ اپنے پرانے دو نامکمل خیالی پیکیجزکے ساتھ ساتھ اب یہاں کے شہریوں کو بڑی فراخدلی سے کراچی سرکلر ریلوے کی لولی پاپ بھی تھما گئے ہیں۔