غزل
دائرہ در دائرہ وحشت کماتی زندگی
ایک چھالہ بن چکی ہے کائناتی زندگی
کیا خبر اب کتنے نوری سال کی دوری پہ ہے
بے بہا سیارچوں میں خاک اڑاتی زندگی
چکھ سکے گی حسِ بے چینی شہابی ذائقے؟
جاسکے گی کہکشاں تک کسمساتی زندگی؟
نیلگوں افلاک سے باہر نکل کر دیکھیے
آکسیجن سے ورا اک دل بجھاتی زندگی
بیج کی مانند پھوٹے گی خلا سے ایک دن
سر برہنہ، پا بہ آتش، کھنکھناتی زندگی
وہ زمانہ آئے گا انسان پر کچھ روز میں
کم پڑے گی خاک پر جب دل لبھاتی زندگی
دیکھتی رہتی ہے سوئے پا بجولاں رات دن
حیرتِ بے انتہا میں سر کھجاتی زندگی
(عبدالرحمان واصف۔کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
وعدوں سے یوں مکر نہ میاں انحراف کر
جو بھی ہے بات آکے مجھے صاف صاف کر
جو وقت دستیاب ہے اب سب کے سامنے
تو رتجگوں کے سلسلوں کا انکشاف کر
سب سے نہ اب الجھ یہ مری بات سن ذرا
کرنی ہیں جو بھی سازشیں کھل کے خلاف کر
خواہش کوئی بھی اور نہیں میری بس یہ ہے
گر تجھ کو مجھ سے پیار ہے تو اعتراف کر
حج کا ثواب تجھ کو ا گر چا ہیے سحر
گھر میں ضعیف ماں کا ہمیشہ طواف کر
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)
۔۔۔
غزل
آنکھیں کھول کے پتھر کرنی پڑتی ہیں
ہجر میں نیندیں دوبھر کرنی پڑتی ہیں
لوٹانی پڑتی ہیں اتنی ہی سانسیں
جتنی کھینچ کے اندر کرنی پڑتی ہیں
ڈھال بنانا پڑتا ہے تحریروں کو
اور آوازیں نشتر کرنی پڑتی ہیں
کچھ باتیں ہوتی ہیں اتنی سنجیدہ
دل رکھنے کو ہنس کر کرنی پڑتی ہیں
مت آ اتنا پاس کہ ایسا سین بنے
جس پر فلمیں سنسر کرنی پڑتی ہیں
کام نہیں چلتا ہے پردہ پوشی سے
خالی جیبیں باہر کرنی پڑتی ہیں
جب اوروں کے سپنے پورے کرنے ہوں
اپنی آنکھیں بنجر کرنی پڑتی ہیں
پڑتا ہے جب کوئی ہاتھ گریباں پر
پھر استینیں اوپر کرنی پڑتی ہیں
خود ضائع ہو جاتے ہیں ہم لوگ حسنؔ
گھر کی چیزیں بہتر کرنی پڑتی ہیں
(احتشام حسن ۔ بہاولپور)
۔۔۔
غزل
ایک آہٹ سے کھل گئی کھڑکی
یار کی راہ دیکھتی کھڑکی
دو پرندے تھے آسمانوں میں
رات بھر دیکھتی رہی کھڑکی
اس قدر حبس تھا مرے اندر
سانس کے زور سے کھلی کھڑکی
لمس اُس کے حنائی ہاتھوں کا
چکھ رہی ہے کہیں کوئی کھڑکی
میرے کمرے میں چند چیزیں ہیں
پیڑ کی شاخ، روشنی، کھڑکی
کون رہتا ہے اس مکاں میں انسؔ
بند رہتی ہے ہر گھڑی کھڑکی
(انس سلطان ۔ جھمرہ، فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
جو زندگی کے مسائل پہ گفتگو نہ کرے
دل ایسے شخص کی بالکل بھی آرزو نہ کرے
عجیب طرز کی وحشت ہے موسمِ گل میں
اثر کسی پہ ذرا بھی یہ رنگ و بو نہ کرے
ذرا سی بات پہ ہی توڑ دے سبھی رشتے
خدا کسی کو کبھی ایسا تند خو نہ کرے
جہاں میں صبر و قناعت سے ہی رہو کہ کوئی
اداسیوں کے سبب زندگی پہ تھو نہ کرے
دل ایسے ڈوب گیا ہے تمھاری آنکھوں میں
کسی طرح سے ابھرنے کی جستجو نہ کرے
یہ تجربہ ہے مری زندگی کا جان گیا
جو کام دوست کیا کرتے ہیں، عدو نہ کرے
وہ شخص کیسے محبت شناس ہوگا بھلا
تمھارے حسن کے چرچے جو چار سو نہ کرے
بچھڑتے وقت یہ اس نے مجھے کہا صادقؔ
بھلے میں لاکھ کروں بے وفائی، تُو نہ کرے
(محمد امین صادق۔ اوگی ،مانسہرہ)
۔۔۔
غزل
تیرے ساتھ محبت نے اور تجھ سے رشتے داری نے
کتنا میرے دل کو جلایا اس ذہنی بیماری نے
اس کا عشق کہاں تھا سچا تھا اس کی زباں کب سچّی تھی
کتنے دلوں کو مار دیا ہے اس کی اس عیاری نے
گھائل دل پر زخم لگائے صبح و شام اکیلے میں
دل کو میرے بہت ستایا میری ہی خودداری نے
اب چاہت ہی کمزوری ہے نہ الفت سے میں ٹوٹی ہوں
سبق سکھائے بہت سے مجھ کو دوست تری غداری نے
پھر سے ولا ؔکے دل میں کیسے ہنگامہ ہو جائے گا
قتل کیا احساس کو اس کے جھوٹی سی دلداری نے
(ڈاکٹر ولا جمال العسیلی۔ مصر)
۔۔۔
غزل
تیرے پاکیزہ تصور میں جو باندھا مصرع
رشک کرنے لگا اس مصرع پہ مصرع مصرع
پڑھنے والوں کو مہک آتی رہے گی میری
لاکھ کوشش سے چرا لے کوئی میرا مصرع
بن ترے عمر گزرنے لگی ایسے جیسے
یاد رہ جائے کسی شخص کو آدھا مصرع
جو مرے واسطے بخشش کا سبب بن جائے
کاش کہہ پاؤں کوئی نعت کا ایسا مصرع
تیرے آنے سے کھلے ایسے خوشی کے معنیٰ
جیسے کھل جائے اچانک کوئی الجھا مصرع
(سبحان خالد۔ تلہ گنگ ،چکوال)
۔۔۔
غزل
دستِ خالی سے اڑانا ہے پرندہ مجھ کو
عالمِ غیب سے ہوتا ہے اشارہ مجھ کو
چابکِ آہ و فغاں راس نہیں آیا تو
رخشِ احساس نے کر دینا ہے بوڑھا مجھ کو
آج اک پل کو لگا یوسفِ دوراں ہوں میں
اجنبی ہاتھ نے پیچھے سے جو کھینچا مجھ کو
مر تو سکتا ہوں مگر بھاگ نہیں سکتا میں
کر دیا آگ نے اس درجہ سیانا مجھ کو
میں وہیں خاک ہوا خاک سے پھر خاک ہوا
کوزہ گر نے جہاں جلدی میں گھمایا مجھ کو
(افتخار فلک کاظمی۔ پہاڑ پور، لیہ)
۔۔۔
غزل
ویسے اچھا نہیں ہوا مرے دوست
تو بھی اپنا نہیں ہوا مرے دوست
مفت ہی ہاتھ لگ گیا ہوں ترے
تیرا خرچہ نہیں ہوا مرے دوست
پتلیاں ہجر سے ہوئیں روشن
تو ستارا نہیں ہوا مرے دوست
تب سے ہم ہو گئے ہیں بیگانے
جب سے جھگڑا نہیں ہوا مرے دوست
مجھ کو چھونے کا حق تو دے دیتے
تم سے اتنا نہیں ہوا مرے دوست
یہ بتاتجھ سے جاتے جاتے بھی
کیوں اشارہ نہیں ہوا مرے دوست؟
پہلے تو زندگی گزرتی رہی
پھر گزارا نہیں ہوا مرے دوست
(عدنان فرخ ۔ کوٹ ادو)
۔۔۔
غزل
خواہشیں سب بلند ارادہ ہیں
پر سبھی خواب پا پیادہ ہیں
تھام کر میرے ہاتھ کو چلئے
راہ میں پیچ و خم زیادہ ہیں
میرے گاؤں میں صرف صحن نہیں
ظرف و دل بھی بہت کشادہ ہیں
کوئے دنیا فنا کی بھٹی ہے
اور ہمارے بدن بُرادہ ہیں
آپ کریے غرور جی بھر کر
آپ سردار شاہزادہ ہیں
آپ کی یادیں ہر گھڑی ہر پل
روبرو میرے ایستادہ ہیں
آپ کا دل بھی خوبصورت ہے
ہاں مگر ہونٹ کچھ زیادہ ہیں
(صائمہ یوسفزئی۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
لہولہان ہے دروں،کوئی وجود ساتھیا
کوئی چکا رہا ہے قرض ساتھ سود ساتھیا
دیارِِ جسم و جان سے کسی کے نقش دھل سکیں
کوئی طلسم، اسم، دَم کوئی درود ساتھیا
دروں اندھیر مچ رہی ہے پھونک اسمِ روشنی
فقط نشان چھوڑتے ہیں یہ سجود ساتھیا
کسی کو چاہنے میں اس قدر شدید ہوگئے
کبھی کبھی تو بھول ہی گئے حدود ساتھیا
یہ چاہِ عشق ہے یہ حسن ہے، یہ عقل کی گلی
تو جس کو چاہے چُن لے جس میں جائے کود ساتھیا
عدو پہ اس قدر سلامتی، دعائیں، حد نہیں
رفاقتوں میں زیب ہے سخا و جود ساتھیا
دھنک سی آنکھ میں عجیب مے کشی سی چھا گئی
وہ رنگ آٹھواں جو آیا عود عود ساتھیا
(مہرو ندا احمد۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
کاکلِ شب کو پریشاں دیکھا
دیدہ ماہ کو حیراں دیکھا
نفسانفسی کی وہ حالت دیکھی
دہنِ انسان میں انساں دیکھا
ہر قدم درد کا صحرا پایا
نہ کہیں درد کا درماں دیکھا
یاس و حسرت ہے سبھی آنکھوں میں
نہ کوئی لب' لبِ خنداں دیکھا
خارکی نوک پہ پائوں رکھ کر
دشت میں جشنِ بہاراں دیکھا
جس کو خالق نے بصیرت بخشی
اس نے قطرے میں بھی طوفاں دیکھا
پھر صدا اُٹھی ہے دیوانے کی
نیم وا پھر در زنداں دیکھا
کس کی آمد ہے سرِ دارِ ستم
سب کی انگشت بدنداں دیکھا
( تبسم شہزاد ۔ کوئٹہ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی