کمزور کرنسی ‘شرح ترقی اور مہنگائی
حکومت اور پالیسی ساز ادارے اس بات کے خواہاں ہیں کہ کسی طرح ملکی معیشت کو ترقی دی جائے
CHINA:
حکومت اور پالیسی ساز ادارے اس بات کے خواہاں ہیں کہ کسی طرح ملکی معیشت کو ترقی دی جائے۔ گزشتہ مالی سال کے بارے میں حاصل ہونے والی شرح ترقی کو 4 فیصد تک جب بتایا جا رہا تھا اس دوران بھی بعض معاشی تجزیہ کاروں کی جانب سے کچھ شکوک و شبہات کا اظہارکیا جا رہا تھا۔
حکومت اس بات پر بھروسہ کر رہی تھی کہ تعمیراتی شعبے کے لیے عمدہ مراعاتی پیکیج کا اعلان کرنے کے بعد ملکی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا گیا ہے ، اگرچہ اس کے اچھے نتائج برآمد ہونے کی توقع تھی ، لیکن نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ ہی عالمی منظر نامے میں اور ملک کے معاشی منظرنامے سے متعلق کچھ ایسی باتیں سامنے آگئیں جس نے معاشی ترقی کی راہ میں شدید رکاوٹیں ڈال دی ہیں۔
ان میں افغانستان کے حالات ملکی درآمدات میں اضافے کے باعث بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ جس نے تین ماہ بعد اس قسم کی دھماکا خیز شکل اختیارکرلی کہ اب بتایا جا رہا ہے کہ تجارتی خسارے میں 100 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس سے قبل امریکا کی جانب سے پاکستان پر پابندی سے متعلق تجویز کی خبر نے ڈالر پر نفسیاتی اثر ڈالا اور ڈالر ریٹ میں مزید اضافہ ہوا۔ لامحالہ پاکستانی کرنسی مزید کمزور ہوکر رہ گئی۔
کرنسی کی یہی کمزوری اب ملکی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ اس سے قبل تعمیراتی پیکیج کی بات کی گئی، اگر اسے پاکستان کی کمزور کرنسی سے جوڑتے ہیں تو صورت حال کچھ یوں بنتی ہے کہ سینیٹری پائپ بنانے والی کمپنی کے ایک مالک کا کہنا تھا کہ ڈالر ریٹ بڑھنے کے باعث سینیٹری پائپ بنانے کے لیے درآمدی میٹیرل کی قیمت میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔
روز بہ روز بڑھتی ہوئی قیمت بالآخر صارفین کو ہی منتقل کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں جب سینیٹری کا سامان فروخت کرنے والوں کا موقف لیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ بعض اوقات کمپنی کی جانب سے نئی ریٹ لسٹ آنے کے باعث اب سینیٹری کا کاروبار مندی کی جانب مائل ہے۔ اسی طرح سینیٹری فٹنگز کا معاملہ ہے جس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے تعمیراتی کاموں کو سست رو کردیا ہے۔
حکومت نے تعمیراتی شعبے کو مراعات فراہم کردیں لیکن تعمیرات کے لیے استعمال ہونے والے سریے اور سیمنٹ کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ مکان بنانے والا عام شخص سریا اور سیمنٹ کے ریٹ معلوم کرتا ہے اس کے حساب سے پیسوں کا بندوبست کرلیتا ہے اور پھر ہفتے یا دو ہفتے بعد جب خریداری کے لیے جاتا ہے تو فی ٹن قیمت میں 4 سے 5 ہزار روپے فی ٹن کا اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اسی طرح اب خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے سیمنٹ کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔
کچھ یہی حال الیکٹروگڈز کا ہے جوکہ مکان تعمیر کرتے وقت استعمال کیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بجلی کی تاروں کی قیمت میں 5 تا 10 روپے فی میٹر کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح دیگر استعمال میں ہونے والی پراڈکٹس کی قیمتیں بھی بڑھ چکی ہیں۔ پلاٹ کی قیمتوں میں روز بہ روز اضافے نے خریداروں کو ششدر کرکے رکھ دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی حکومت نے ساڑھے پانچ لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی ہے جوکہ عالمی مارکیٹ سے اونچے نرخ پر خریدی جا رہی ہے۔ میں اس بات کی طرف بار بار توجہ دلاتا رہا ہوں کہ گندم، چینی اور دیگر اہم فصلیں مثلاً کپاس وغیرہ کی پیداوار میں کمی وغیرہ کا حل پاکستان میں ہی ڈھونڈنا ہوگا۔ اب اگر گندم کو لے لیتے ہیں تو گزشتہ کئی سالوں سے پیداوار ڈھائی کروڑ ٹن سے زائد ہے اور ملکی کھپت اس سے کم ہے۔
ساری بات ہے بدانتظامی کی۔ خبر یہ شایع ہوتی ہے کہ ہزاروں ٹن گندم خراب ہوگئی۔ اب کوئی پوچھنے والا نہیں۔اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ درآمدی گندم کی قیمت 65 روپے فی کلو پڑے گی۔ آٹے کی قیمت کے بڑھنے کا مطلب روٹی کی قیمت میں اضافہ۔ روٹی کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کے اثرات وسیع تر ہوتے ہیں۔
اسی طرح آج کل چینی فی کلو 120 روپے دستیاب ہے۔ ملک میں 6 تا 7 کروڑ ٹن گنا پیدا کیا جاتا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں شوگر ملز کی زیادہ تعداد ہونے کے باوجود گزشتہ مالی سال کے دوران تقریباً 3لاکھ ٹن چینی برآمد کی گئی۔ اسی طرح 36 لاکھ ٹن گندم درآمد کرلی گئی تھی۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ چینی کی قیمت بڑھانے کی خاطر کس طرح مارکیٹ سے چینی غائب کردی جاتی ہے۔ اسی طرح گھی کوکنگ آئل کی بڑی مقدار میں ذخیرہ اندوزی کے باعث فی کلو قیمت میں دس سے بیس بائیس روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں گھی 160 روپے فی کلو دستیاب تھا اب دگنی قیمت میں فروخت کی جا رہا ہے۔
تین سال قبل چینی 52 روپے فی کلو فروخت ہو رہی تھی۔ کیا پیداوار میں بڑی مقدار میں کمی ہوگئی ہے۔ کسی شوگر ملز کے بارے میں معلوم نہیں ہوا کہ کسی بھی نقصان یا پیداوار کی فروخت نہ ہونے کے باعث مل کو تالا لگا دیا گیا ہو۔ البتہ لیدر فیکٹری یا ٹیکسٹائل مل کے بارے میں یا دیگر فیکٹریز یا ملز کے بارے میں یہ علم ہوتا رہتا ہے کہ تالا لگا دیا گیا ہے، بند کردی گئی ہے۔ مل مالک کسی اور ملک میں فیکٹری لگا رہا ہے یا توانائی بحران، گیس بحران، پانی کی شدید قلت یا دیگر کئی وجوہات کی بنا پر سرمایہ کار اپنا کاروبار اب کسی اور ملک میں جاکر کر رہا ہے۔