جسٹس سید جمشید کی یاد میں
جمشید شاعری پسند کرتا تھا اور اچھے شعروں کا گرویدہ تھا لیکن خود اس کے قلم سے ایک مصرع بھی سرزد نہیں ہوا تھا
اگر کبھی آنکھیں بند کر کے خود کو ان کے رہائشی دفتر میں چند کتابیں سامنے رکھے بیٹھا محسوس کروں تو ذہن کہتا ہے تمہیں جسٹس سید جمشید کی آواز نہیں سُنائی دی، وہ تمہیں سامنے رکھی چائے پینے اور امپورٹڈ بسکٹ کھانے کے لیے کہہ رہے ہیں لیکن اگر میں اپنے ہی گھر میں اس کیفیت سے گزروں تو سامنے میز پر ان کی مرتب کی ہوئی کتاب ''تلاش'' ملتی ہے یا ''ذخیرہ''۔
میں اور جمشید دوست اور ہم سروس تھے، اس نے اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے سےاستعفیٰ دے کر وکالت شروع کر دی اور اس کی قابلیت نے اسے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کے جج کے منصب تک پہنچا دیا۔ اسے ہم سے جدا ہوئے ڈھائی سال ہو گئے ہیں۔ جمشید شاعری پسند کرتا تھا اور اچھے شعروں کا گرویدہ تھا لیکن خود اس کے قلم سے ایک مصرع بھی سرزد نہیں ہوا تھا۔ شعر سے اس کی دلچسپی بھی یوں سمجھئے اتفاقیہ ہوئی جب اس نے ایک محفل میں ظہیر کاشمیری کا ایک شعر سنا
؎ابھی کچھ اور کڑی دھوپ میں چلنا ہو گا
ربط اتنا نہ بڑھا سایہ دیوار کے ساتھ
شعر سن کر ان کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی کہ وہ ہم قافیہ اورہم ردیف اشعار جمع کریں۔ جسٹس انوار الحق نے ان کی دلچسپی دیکھ کر جمشید کو ایک اور شعر سنا دیا۔
؎رات بھر بیٹھے رہے دیدہ بیدار کے ساتھ
ظلمتیں کم نہ ہوئیں صبح کے آثار کے ساتھ
بس پھر کیا تھا جمشید صاحب اٹھتے بیٹھتے متعدد مجموعہ ہائے کلام کی ورق گردانی کرتے ہوئے ہم قافیہ و ہم ردیف اشعار ڈھونڈنے اور احباب کی مدد لینے میں ایسے مصروف ہوئے کہ ہر دوسری مصروفیت سے دستبردار ہو گئے لیکن ان کی تلاش بے کار نہ گئی کمال دکھا گئی۔ اب سید جمشید کے مجموعوں میں سے کچھ منتخب اشعار جن کے بغیر اس کالم کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔
شمع کے ساتھ تو جلتے ہیں پتنگے دو پل
کون ساتھی ہے مرے عالم ِ تنہائی کا (عدمؔ)
............
بوئے گل نالہ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا (غالب ؔ)
............
اگر اپنی چشم نم پر مجھے اعتبار ہوتا
تو بھلا یہ راز ِ الفت کبھی آشکار ہوتا (یاسؔ یگانہؔ)
............
میرا حال ہی جگر ؔ کیا وہ مریض عشق ہوں میں
کہ وہ زہر بھی جو دیتا مجھے سازگار ہوتا (جگر ؔ)
............
کیا پریشاں تھی ہوا رات بسر ہونے تک
بجھ گئے کتنے چراغ اپنی سحر ہونے تک(محشرؔ بدایوانی)
............
وہ کرشمہ ہو گیا جس کی توقع ہی نہ تھی
اس نے پورا کر دیا وعدہ مکر جانے کے بعد (شہزاد ؔ احمد)
............
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہر جائی کی(پروین شاکر)
............
گھر ہے اب قفس فانی گھر کبھی چمن بھی تھا
ہاں کبھی وطن بھی تھا اب وطن کہاں اپنا(فانی)
............
وہ چمن جسے ہم نے خون دل سے سینچا تھا
اس پہ حق جتاتی ہیں آج بجلیاں اپنا(جالبؔ)
............
ہم قافیہ اور ہم ردیف اشعار تلاش کرتے ہوئے جسٹس سید جمشید علی صاحب کی رسائی بیشتر صاحب دیوان استادشعرا کے کلام تک ہوئی لیکن کچھ ہم عصر اور نئے شعرا کے کلام سے بھی انھوں نے استفادہ کیا ہے۔ آخر میں جناب احمد ندیم قاسمیؔ کے دو شعر کہ وہ میرے استاد تھے اور ایک شعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کا ،ان سے محترم قتیل شفائی کے در دولت پر ملاقات ہوئی تھی۔
تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں
حسن یزداں سے تجھے حسن بتاں تک دیکھوں
(احمد ندیم قاسمیؔ)
ایک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسن انساں سے نپٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں
نہ سہی رند بلا نوش مگر پھر بھی سحرؔ
اپنے ہاتھوں کو تہی دام کہاں تک دیکھوں
(بیدی سحرؔ)