ہمارے شرفاء
پاناما پیپرز سے لے کر پینڈورا پیپرز تک میں ایک نیا ترانہ سامنے آیا ہے، وہ ترانہ ہے ’’دنیا کے صحافیو، ایک ہوجاؤ‘‘
آج پاناما پیپرز سے لے کر پینڈورا پیپرز تک میں ایک نیا ترانہ سامنے آیا ہے، وہ ترانہ ہے ''دنیا کے صحافیو، ایک ہوجاؤ'' اس لوٹی ہوئی دولت کے خلاف جو غریب ملکوں کی اشرافیہ نے اپنے لوگوں کو سہولتیں نہ دے کر بنائی ہے اور ان امیر ممالک نے آنکھیں بند کرلیں اور یہ سب کچھ ہونے دیا، اپنے بینک ، اپنے کاروبار ، اپنی جائیدادیں ان کو خریدنے دیں۔
ہاں مگر پچھلی بار پاکستان میں پاناما لیکس، جمہوریت کے خلاف استعمال ہوئی، وہ بین الاقوامی سچ تو تھا مگر اس کا نشانہ وہ نہ بنے جن کو بننا چاہیے تھا، پھر پاناما تو کہیں اور چلا گیا، نیب کورٹ کے جج ارشد ملک کی روداد تو آپ کو پتا ہوگی۔ کس نے کہا نواز شریف اور زرداری نے کچھ نہیں کیا۔
اس سے اہم سوال یہ ہے کہ صرف یہ کیوں؟ یہاں تو جنرل مشرف سے لے کر بہت سے نام ہیں جن پر لب کشائی کرنے کی تو مجھ میں اب بھی جرات نہیں۔ لگ بھگ سات سو شرفاء کے نام اس بار پینڈورا پیپرز میں آئے ہیں جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔ بیچارہ ہندوستان ایک ارب تیس کروڑ سے زائد لوگوں کا ملک، ہم سے پانچ گناہ بڑا ملک، بس صرف تین سو لوگ؟ اور وہاں سے ایک بھی ایسا بندہ نہیں جس کی آف شور کمپنی ہو اور دفاعی امور میں افسر ہو۔ ان سات سو لوگوں میں اکثر لوگوں کا تعلق حکمران جماعت سے ہے۔ اب تو کیا خوب ہوا ہے کہ خود وزیر اعظم اس سیل کی سربراہی کریں گے حالانکہ پاناما کے زمانے میں ہماری سپریم کورٹ اور ان کی نگرانی میں جی آئی ٹی دیکھا کرتی تھی۔
پینڈورا پیپرزمیں 35 راہبران، روس کے ولادی میر پیوٹن سے لے کر موجودہ و سابق وزیر اعظم، صدر ہیں یا رہے ہوں گے اور دیگر کھرب پتی لوگ ہیں۔ جو رقم اس کالے دھندے میں ، بے نامی کمپنیوں میں موجود ہے، وہ پانچ ہزار ارب ڈالر سے لے کر 32 ہزار ارب ڈالر تک ہے، جو امریکا کی ایک سال کی مجموعی پیداوار سے بھی زیادہ ٹھہرتی ہے، جو دو، تین ہزار لوگوں کے پاس ہے جن کی یہ آف شور کمپنیاں ہیں جن کے پیچھے یہ لوگ ہیںاور یہ لوگ پینڈورا پیپرز نے ظاہر کردیے۔
سوال یہ ہے کہ یہ پیسا کہاں سے آیا؟ پیسا اکٹھا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جو بین الاقوامی سرکاری سطح پہ معاہدے کیے جاتے ہیں جس میں سے ایسے ممالک کی حکومت ٹینڈر کال کرتی ہے۔ جو اس میں کمیشن ہوتا ہے، اس بین الاقوامی ٹھیکیداروں کی طرف سے حکومت میں موجود لوگوں کو ملتا ہے۔ اور یہ پیسے ایسے لیڈروں کے فرنٹ مین کی آف شور کمپنی میں ڈالے جاتے ہیں۔ یہ کمپنیاں صرف نام کی ہوتی ہیں، ان کا کوئی بھی کاروبار نہیں ہوتا، نہ ہی کسی اسٹاک ایکسچینج میں یہ لسٹڈ ہوتی ہیں۔
ایسے کئی مقامی ٹھیکیدار بھی ہیں جن سے حکومتیں راستے، انفرا اسٹرکچر وغیرہ بنواتی ہے اور کمیشن کبھی بھی بینک اکاؤنٹ کے ذریعے نہیں لی جاتی یا تو وہ نقدی میں لی جاتی ہے یا پھر ایسی کمپنیوں کے آڑ میں لی جاتی ہے جو بظاہر کسی کاروبار میں ملوث ہوتی ہیں اور ان بے نامی کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹ میں جاتی ہے۔ یہ ہے ہماری اشرافیہ اور تیسری دنیا کے غریب لوگوں کے رہبر۔ ان غریبوں کو دینے کے لیے ان کے پاس بہت بڑے نعرے ہیں، وعدے ہیں۔ آپ ہی کہتے تھے جب پٹرول کی قیمت بڑھنے لگے تو سمجھ لیں کے آپ کے حکمران کرپٹ ہیں۔ آپ ہی کہتے تھے کہ اگر آئی ایم ایف کو پاس جانا پڑا تو اس سے پہلے خودکشی کرلوں گا۔
یہ سب جن کی جائیدادیں ہیں کالے دھندے ہیں، آف شور کمپنیاں ہیں، ان کو بقا کے لیے کی سیاست کی جاتی ہے، جو اقتدار کے قریب رکھتی ہے، اس سے نہ صرف اور اثاثے بنائیں گے بلکہ جو ان کے موجودہ اثاثے ہیں ان کا تحفظ بھی اسی میں ہے۔
ہمارے وڈیرے سیاست کیوں کرتے ہیں؟ اور وہ بھی اقتداری سیاست۔ اس لیے کے ان کی زمینوں پہ قبضے ہوجائیں گے اگر وہ سیاست نہیں کریں گے۔ اس لیے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ وڈیرہ شاہی کا نظام ٹوٹے، یہ پاکستان کے شرفاء ہے، انھوں نے اقتدار میں اس کے ساتھ رہنا ہے جس سے ان کو اور ان کے اثاثوں کو تحفظ ملے۔ پاکستان میں سب سے مضبوط اسٹیبلشمنٹ ہے ۔
یہ ان کے کہنے پہ کسی پارٹی میں آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ یہ جو بڑی پارٹیاں ہیں پیپلز پارٹی کی شکل میں یا پی ایم ایل نون کی شکل میں یہ بھی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ دیر تک ٹکراؤ برداشت نہیں کر سکتیں، اس لیے کہ پھر جو ان پارٹیوں کے اندر شرفاء ہیں وہ ہل جاتے ہیں، ان پارٹیوں کے محور سے۔ اس میں کچھ تبدیلی بھی آئی ہے، اب کے بار جو پنجاب کامجموعی بیانیہ ہے وہ اسٹیبلشمنٹ یا مروج ریاستی بیانیے سے متفق نہیں، وہاں یہ اب شرفاء کم ان کی مڈل کلاس سوچ زیادہ ابھری ہے اور یہ سارے لوگ اب اس طرح نہیں چاہتے جس طرح ملک چل رہا ہے۔
یہ بھی فرق ہے کہ ہندوستان کی اشرافیہ سے تین سو افراد پینڈورا پیپرز نے عیاں کیے ہیں اور ہمارے سات سو افراد۔ یہ جو غبار ہے یہ عکس ہے اس ملک کا آئین پر نہ چلنے کا ثمر ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جو 1985 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ وہ غیر جماعتی تھے اس سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے کے لیے ان شرفاء کو ڈرایا دھمکایا اور خریدا۔ کچھ کچھ باتیں الٰہی بخش سومرو نے بھی ایک انٹرویو میں میرے ساتھ کیں، کیسے پھر سب کے سب پیر پگاڑا کی چھتری کے نیچے آگئے ۔ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔
ابھی اور بھی بہت کچھ ہونا ہے، ہم تنہا رہ گئے ہیں۔ اس بیانیے کی وجہ سے جو شرفاء کے مفادات کا ترجمان ہے ۔ آئین سے انحراف اور انتخابات میں منظم دھاندلی کرانے کی وجہ سے ہم دنیا سے تو لڑ سکتے ہیں مگر ہم اپنے لوگوں کی مخالفت برداشت نہیں کرسکتے۔یہ شرفاء کا پاکستان ہے، یہ شرفاء جس کی شکل آپ کو پینڈورا پیپرز میں نظر آ رہی ہے۔ جب ادارے مضبوط نہیں ہوتے ، جب ملک آئین پر نہیں چلتا جب تاریخ کو مسخ کیا جائیگا تو پھر یہ ہے پینڈورا پیپرز کی روداد۔ اگر ہندوستان میں تین سو افراد پینڈورا کے ریڈار نے پکڑ لیے ہیں تو اس اعتبار سے ہمارے ہاں سے صرف ستر لوگ نکلتے کہ ہم کہہ سکتے کہ ہمارا حال بھی اتنا برا ہے جتنا ان کا۔