میڈیا میں کام کرنے کے مواقع اور خواہش

موجودہ دور میں میڈیا کا لفظ جس قدر پرکشش ہے شاید ہی کوئی دوسرا لفظ ہو


Dr Naveed Iqbal Ansari October 10, 2021
[email protected]

موجودہ دور میں میڈیا کا لفظ جس قدر پرکشش ہے شاید ہی کوئی دوسرا لفظ ہو۔ بچہ کیا، بڑا کیا، ہر کوئی میڈیا کا دیوانہ ہے۔ اسی ضمن میں طلبہ کی ایک خاصی تعداد چاہتی ہے کہ وہ اس میدان میں سند حاصل کرنے کے بعد میڈیا میں جا کر کام کرے۔

بلاشبہ یہ میڈیا کا سحر ہے کہ طلبہ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ صحافت کی تعلیم مکمل ہوتے ہی فوراً کوئی نہ کوئی میڈیا جوائن کرلیں۔ راقم نے چونکہ خود اپنے پچیس سال مختلف اخبارات، ٹی وی چینلز تعلقات عامہ اور صحافت کے شعبے میں بطورایک استاد و محقق گزارے ہیں لہٰذا اس تناظر میں یہاں کچھ رہنمائی فراہم کی جارہی ہے۔

میڈیا میں ملازمت حاصل کرنا صرف صحافت کے طلبہ کی ہی خواہش نہیں ہوتی بلکہ ان کے اساتذہ اور جامعات کی بھی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ان کے طالب علم سند حاصل کرنے کے بعد کوئی اچھی ملازمت حاصل کر سکیں۔

اس ضمن میں جامعات بھی مختلف کوششیں کرتی رہتی ہیں۔ چند برس قبل جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ نے ایک بڑی انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں میڈیا انڈسٹریز سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کرکے ان سے مشورے بھی طلب کیے گئے تھے کہ اس جدید دور میں کن خطوط پر اپنے نصاب کو تبدیل کیا جائے۔ اسی طرح گزشتہ روز ایک نجی جامعہ کی میٹنگ میں بھی مجھ سمیت میڈیا سے وابستہ صحافیوں سے رائے طلب کی گئی کہ کس طرح اپنے طلبہ کو میڈیا انڈسٹریز کی ضرورتوں کے مطابق تیار کیا جائے؟

اگر مختصر طور پر بات کی جائے تو دو اہم ترین پہلو سامنے رکھنا ہونگے۔ ایک یہ کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو بالمشافہ شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علموں سے متعارف کرایا جائے مثلاً انھیں اپنے سیمینار، ورکشاپ میں بلایا جائے، مختلف موضوعات پر لیکچرز کے لیے بلایا جائے اور طلبہ کو بھی مختلف میڈیا ہاؤسز کے مطالعاتی دورے کرائے جائیں جس سے طلبہ کا وژن بھی بڑھتا ہے اور انھیں سیکھنے کے مواقع بھی ملتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ دور تعلقات کا دور ہے جتنے زیادہ تعلقات صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز سے ہونگے ، ملازمت کے لیے اتنی ہی آسانیاں ہونگیں۔ یہ کام جامعات اور ان کے شعبہ صحافت کی ایک اہم ذمے داری ہونا چاہیے۔

صحافت کے طلبہ کو پڑھائے جانے والے نصاب میں یوں تو بے شمار موضوعات ہوتے ہیں جن کی اپنی جگہ اہمیت ضرور ہے مگر نہ صرف اساتذہ بلکہ طلبہ کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ جس ادارے میں جاکر انھوں نے ملازمت کرنی ہے اس کی ضرورت کیا ہے ،یعنی میڈیا کو کسی صلاحیت کے حامل افراد کی ضرورت ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ اگر صحافت کی دنیا میں قدم رکھنے والے ان کی ضرورت پر پورا اترتے ہونگے تو انھیں ملازمت پرلے لیا جائے گا ورنہ مفت کی روزی تو کوئی بھی نہیں دیتا۔

اب اس بات پر غور کیا جائے کہ میڈیا کی زیادہ تر ضرورت کس قسم کی ہے؟ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا دونوں جگہوں پر لکھنے کا کام سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ لکھنے کا کام کئی قسم کا ہوتا ہے۔ عام طور پر سب سے زیادہ لکھنے کا کام خبر کی شکل میں ہوتا ہے، اس کے بعد اداریہ، مضمون، فیچر، رپورٹ وغیرہ۔ الیکٹرونک میڈیا میں تو اسکرپٹ رائٹنگ اس قدر ہوتی ہے کہ ڈراموں یا ڈاکومنٹری ہی نہیں بلکہ مارننگ شوز تک کے لیے لکھنے کا کام ہوتا ہے۔ گویا اگر کسی کو یہ تمام لکھنے والے کام آتے ہیں تو اس کے لیے میڈیا کے تمام قسم کے دروازے کھلے ہیں یعنی ایسی صلاحیت کے حامل فرد کے لیے میڈیا میں ملازمت کے مکمل اور بھر پور مواقعے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ طالب علموں کے لیے موجودہ نصاب میں یہ سب کچھ سیکھنا کیسے ممکن ہے؟ بحیثیت ایک استاد کے میرے خیال میں پاکستان کی تمام جامعات کے نصاب میں یہ چیزیں شامل ہیں بس ان کی پریکٹس (یعنی مشق) کرانے کی ضرورت ہے ، جتنی زیادہ مشق ہوگی ایک طالب علم اتنا ہی زیادہ عملی صحافت میں کامیاب ہو گا۔ تمام جامعات میں خبروں کی ادارت سے متعلق ایک کورس سب ایڈیٹنگ کا ہوتا ہے۔ اس میں طلبہ کو خبریں بنانا اور اس کی ادارت کرنا سیکھا یا جا تا ہے، اگر طلبہ کو اردو اور انگریزی میں اس کی بھر پور مشق کرائی جائے تو انھیں تمام اخبارات ، ٹی وی چینلز اور دیگر جگہوں پر با آسانی کام کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں۔

انگلش میڈیم کے بعض طلبہ اردو میں خبریں بنانا نہیں سیکھتے اور صرف انگریزی ہی میں مشق کرتے جس کے نتیجے میں وہ نا صرف اردو اخبارات میں کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ ان پر تقریباً تمام ٹی وی چینلز کے دروازے بند ہو جاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں اردو ہی کے ٹی وی چینلز ہیں انگریزی کا کوئی ایک دو ہی ہے۔ یہ کام جامعات اور ان کے اساتذہ کا ہے کہ وہ انھیں اردو اور انگریزی دونوں میں خبریں بنانا سکھائیں، طلبہ کو اگر یہ پہلو سمجھائیں تو وہ اردو میں بھی خبر بنانے میں دلچسپی لے سکتے ہیں۔ راقم نے اپنے ایک کلا س میں طلبہ کو سمجھایا تو بیشتر طلبہ نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی خبر بنانا شروع کی اور اس کی مشقیں بھی کیں۔

ضرورت اس مر کی بھی ہے کہ اساتذہ ''سب ایڈیٹنگ'' کورس کی ، طلبہ کے لیے کورس آوٹ لائن بناتے وقت اگر اس میں سب ایڈیٹر کے فرائض یعنی کام کو بھی شامل کرلیں اور اس حوالے سے طلبہ کو مشق کرائیں تو پھر طلبہ میں لکھنے کی کئی مہارتیں (اسکلز) بھی پیدا کی جاسکتی ہیں مثلاً اداریہ ، ادارتی نوٹ، فیچر، کالم، اسپیشل رپورٹ، بلاگ وغیرہ ۔ ویسے ''کریٹیو رائٹنگ'' اور دیگر کئی صحافتی کورسز میں بھی لکھنے کی یہ مہارتیں سکھائی جا سکتی ہیں۔

علاوہ ازیں ''نیوز رائٹنگ اینڈ رپورٹنگ'' کے کورس میں بھی طلبہ کو لکھنے کی بھر پور صلاحیتوں سے روشناس کرایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ لکھنے سے متعلق طلبہ میں صلاحیت پیدا کرکے ان کے لیے ملازمت کے بے پناہ مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں کیونکہ میڈیا میں تقریباً نوے فیصد کام تو لکھنے کا ہی ہوتا ہے خواہ وہ خبر کی شکل میں ہو یا اداریہ ، فیچر، کالم ، بلاگ، رپورٹ، ڈرامے یا ڈاکومنٹری کے اسکرپٹ وغیرہ کی شکل میں ۔ اہم ترین بات یہ کہ اس میں جامعات پر مالی طور پر کوئی بڑا بوجھ بھی نہیں پڑتا ، بس پڑھانے والا استاد تجربہ کار اور اپنے کام سے وفاداری کرنا جانتا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔