محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رخصتی
ڈاکٹر خان سے بے پناہ محبت کرنے والے عوام کو بھی اُن ملنے نہیں دیا جاتا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بعد وطنِ عزیز پاکستان کی جن اہم ترین شخصیات کو عوامی محبت و اکرام ملا، ذو الفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان میں ممتاز ترین اور سر فہرست حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض مقامی اور بین الاقوامی قوتوں نے دونوں شخصیات کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ عوام مگر دونوں کا دل و جاں سے احترام و اکرام کرتے رہے۔
دونوں کا ''قصور'' یہ تھا کہ ایک نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی اساس رکھی اور دوسرے نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان دونوں عظیم پاکستانی شخصیات کی موت اس حال میں ہُوئی کہ ایک پھانسی کے تختے پر اُس وقت جھول گیا جب ملک آمریت کے سائے تلے کراہ رہا تھا اور دوسرے نے ایسے حالوں میں موت کو لبیک کہا کہ اسپتال میں کوئی اہم ترین سرکاری شخصیت اُن کی تیمار داری اور پرسش کے لیے حاضر نہ ہو سکی۔
جی ہاں ، پاکستان کی یہ اہم ترین اور محترم ترین شخصیت اب ہمارے درمیان میں نہیں رہی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے خالق کے پاس حاضر ہو گئے ہیں۔ اُن سے پوری پاکستانی قوم کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کروڑوں عوام نے اُن کی بے مثل خدمات کے صلے میں انھیں ''محسنِ پاکستان'' کے لقب سے نوازا۔
محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پچھلے چند ہفتوں سے خاصے بیمار تھے۔ کووِڈ 19کے اِس جاں سوز اورمہلک موسم سے وہ بھی متاثر ہُوئے تھے ؛ چنانچہ اسپتال میں داخل کر دیے گئے تھے۔ پہلے اسلام آباد میں اور پھر راولپنڈی میں۔ درمیان میں کچھ دنوں کے لیے اُن کی صحت سنبھل بھی گئی تھی لیکن مکمل صحت کی جانب وہ لَوٹ نہ سکے۔
بسترِ علالت پر انھیں اس بات کا شدید رنج اور قلق تھا کہ کوئی ایک بھی اہم سرکاری اور غیر سرکاری شخصیت اُن کی عیادت کے لیے نہ آ سکی تھی؛ چنانچہ ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر سے انھوں نے اس بات کا بر ملا گلہ اور افسوس بھی کیا تھا۔ کسی حکمران نے فون کے ذریعے بھی اُن کا حال تک نہ پوچھا۔
ہماری سیاسی اور مقتدر شخصیات اس قدر بے حس ہو چکی ہیں کہ کسی اَن دیکھی طاقت سے خوف کھاتے ہُوئے بسترِ مرگ پر پڑے اُس شخص کا حال احوال پوچھنے سے بھی گریزاں رہیں جس نے پاکستان کو ہر قسم کے دشمنوں کی یلغار سے ہمیشہ کے لیے محفوظ و مامون بنا ڈالا۔ ڈاکٹر قدیر خان کی عیادت کے لیے نہ تو ہمارے صدر صاحب جا سکے، نہ وزیر اعظم صاحب اور نہ ہی کوئی اپوزیشن لیڈر۔ البتہ اپوزیشن لیڈر جناب شہباز شریف نے ڈاکٹر خان کی بیماری کے حوالے سے تشویش میں ایک ٹویٹ کرتے ہُوئے اُن کی صحت کے لیے دعا بھی کی تھی۔
ڈاکٹر خان سے بے پناہ محبت کرنے والے عوام کو بھی اُن ملنے نہیں دیا جاتا تھا۔ سخت پابندیاں تھیں۔وہ شدید تنہائی اور قید کے ماحول میں اپنے اللہ کے پاس پہنچے ہیں۔ اتنے بڑے احسانوں کی ایسی سزا؟ یہ تو کبھی انھوں نے اُس وقت سوچا بھی نہ ہوگا جب وہ ہالینڈ میں ایک شاندار ملازمت اور پُر آسائش زندگی کو تیاگ کر محض اپنے وطن کی کامل خدمت کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان آئے تھے ۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی دشمنی اور مخالفت میں امریکی اور مغربی ممالک اور وہاں کے میڈیا نے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف بھرپور مہمات چلائیں لیکن وہ سب مل کر بھی پاکستانی عوام کے دلوں سے ڈاکٹر خان کی محبت ختم نہ کروا سکے ۔ ہمارے ملک کے نامور اخبار نویس اور ''ایکسپریس'' کے معروف کالم نگار جناب عبدالقادر حسن مرحوم جب تک حیات رہے، ہمیشہ ڈاکٹر خان کا ذکر اعلیٰ ترین الفاظ میں اور محبت سے کرتے رہے۔
عبدالقادر حسن صاحب مرحوم ہر اُس مقامی اور عالمی شخصیت اور ادارے کی بھی گوشمالی کرتے تھے جوتعصب سے مغلوب ہو کر ڈاکٹر خان کو ہدف بناتے تھے۔ اسلام آباد میں فروکش ممتاز صحافی جناب زاہد ملک مرحوم بھی ڈاکٹر خان کے سب سے بڑے حامی تھے۔ زاہد ملک صاحب نے تو ڈاکٹر خان کی شخصیت اور خدمات پر مبنی ایک ضخیم کتاب ( محسنِ پاکستان کی ڈی بریفنگ) بھی لکھی۔
اس تصنیف میں ڈاکٹر خان پر عائد کیے جانے والے متنوع الزامات کا شافی جواب بھی دیا گیا۔ اور یہ جناب مجیب الرحمن شامی کا جریدہ (قومی ڈائجسٹ) تھا جس نے پاکستان میں سب سے پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مفصل انٹرویو شایع کیا تھا۔
ویسے تو عالمی سطح پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام اور پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کے حوالے سے اُن کی شخصیت کی باز گشت عالمی میڈیا میں مسلسل سنائی دیتی رہتی تھی لیکن اس بازگشت میں اُس وقت بے پناہ اضافہ ہُوا جب ممتاز بھارتی صحافی، آنجہانی کلدیپ نئیر،نے بھارت سے اسلام آباد آ کر ڈاکٹر خان کا مفصل انٹرویو کیا۔ اسی تاریخی انٹرویو میں پہلی بار اعتراف اور اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔
یہ انٹرویو پاکستان کے ایک اہم صحافی ، جو اب مشہور سیاستدان بھی ہیں، کے توسط سے کیا گیا تھا۔ یہ انٹرویو بذاتِ خود ایٹم بم بن کر بھارت کے حواس پر گرا تھا۔ ساتھ ہی ساری دُنیا بھی ششدر رہ گئی تھی۔ کلدیپ نئیر نے اس انٹرویو اور ڈاکٹر خان سے ملاقات کا تفصیلی احوال اپنی سوانح حیات (Beyond The Lines) میں بھی کیا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ زیڈ اے بھٹو کے بعد ڈاکٹر خان پاکستان کی دوسری شخصیت تھے جن پر کئی غیر ممالک میں کئی کتابیں لکھی گئیں۔
مغربی ممالک میں انھیں ایک پُر اسرار اور اساطیری کردار کی حیثیت میں بھی یاد کیا جاتا تھا۔ یہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی وطن سے شدید محبت اور محنت کا نتیجہ تھا کہ بالآخر اسلامی جمہوریہ پاکستان 28مئی1998 کو عالمِ اسلام کی پہلی جوہری طاقت بن گیا۔ برملا ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو دُنیا کی جوہری طاقتوں میں شامل کرنے کا یہ اعزاز جناب میاں محمد نواز شریف کا مقدر بنا۔
پوری پاکستانی قوم وہ دُکھی لمحہ نہیں بھول سکتی جب ڈاکٹر خان صاحب کو، پاکستان کے ایک آمر کے جبریہ دَور میں، پی ٹی وی پر اپنے ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ایسا اقدام کرکے شاید ہمارے حکمرانوں نے اپنی جان عالمی قوتوں سے چھڑا لی ہو لیکن ذلت کا یہ لمحہ پوری پاکستانی قوم آج تک فراموش نہیں کر سکی۔ اور وہ لمحہ بھی ہمارے لیے شرمناک ہی تھا جب ڈاکٹر خان اسلام آباد کی ایک سڑک کے فٹ پاتھ پر بیٹھے، پاؤں میں معمولی سی چپل پہنے، ایک ٹی وی اینکر سے گفتگو کررہے تھے۔
جبر کا یہ عالم تھا کہ محسنِ پاکستان کا چہرہ پاکستان کے کسی ٹی وی پردکھایا جا سکتا تھا نہ اُن کی گفتگو سنائی جا سکتی تھی۔ اپنے محسنوں سے کوئی ایسا بھی کرتا ہے؟ لیکن ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں نے یہ انہونی بھی کر کے دکھا دی۔ آج یہی جبریہ سلوک پاکستان کے تین بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم جناب نواز شریف کے ساتھ کیا جارہا ہے۔
اس جبریہ اور قہریہ ماحول میں محض سانسیں لیتے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو احساس ہو گیا تھا کہ اب وہ شاید زیادہ دنوں تک زندہ نہ بچ سکیں؛ چنانچہ انھوں نے ایک معاصر میں خود ہی اپنے بارے میں یہ الفاظ شایع کروا دیے تھے :''میری وفات کے بعد پورے پاکستان کے ہر شہر، ہر گاؤں، ہر گلی کوچے میں آپ لوگوں نے میرے لیے جنازہ پڑھنا ہے اور دعائے مغفرت کرنا ہے'' ۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اللہ کریم اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔( آمین )۔