محسن پاکستان۔ چند یادیں
محسن پاکستان کا وزیر اعلیٰ سندھ کے نام آخری خط بھی زیر بحث ہے جس میں انھوں نے حکمرانوں کی بے اعتنائی کا گلہ گیا ہے۔
اس کالم کے قارئین یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور میرے مرحوم والد عبدالقادرحسن کے درمیان نیاز مندی کا رشتہ تھا اورانھی کالموں کے ذریعے قارئین کو دفاع پاکستان کے استحکام کے متعلق وقتاً فوقتاً اطلاع بھی دی جاتی رہی۔ میں اتوار کو گاؤں میں تھا اور اسی ڈیرے پر موجود تھا۔
جہاں پر آج سے بیس برس قبل ستمبر کے آخری دنوں میں محسن پاکستان کمال مہربانی کرتے ہوئے تشریف لائے تھے، یہ میری شادی کا موقع تھا۔ میں اور والد صاحب محسن پاکستان کو دعوت دینے اسلام آباد میں ان کے دفتر میں حاضر ہوئے تو شادی کارڈ پر لاہور کے علاوہ گاؤں میں دعوت ولیمہ کا بھی ذکر تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے کارڈ پڑھتے ہی کہا کہ قادر صاحب لاہور میں تو آپ کے بہت وی آئی پی مہمان ہوں گے، میں تو آپ کے گاؤں آؤں گا جہاں میرے چاہنے والے ہوں گے۔ والد صاحب نے کہا، اسلام آباد سے تین گھنٹے کا راستے ہے، آپ کو تکلیف ہو گی لیکن محسن پاکستان بضد تھے کہ وہ گاؤں ہی آئیں گے۔
کہنے لگے ان کا ایک ڈرائیور ہمارے علاقے کا ہے، اس لیے وہ باآسانی گھر پہنچ جائیں گے ۔یہ ہماری خوش بختی تھی کہ پاکستان کی سب سے عظیم ہستی ہماری دعوت میں شرکت کا اعزاز بخش رہی تھی ۔ ولیمہ کی مقررہ تار یخ کو محسن پاکستان معروف صحافی زاہد ملک مرحوم کو ساتھ لے کر صبح گیارہ بجے اسلام آبادسے ہمارے گاؤں کھوڑہ وادیٔ سون پہنچ گئے۔ ڈیرے پر ان کا استقبال ڈھول اور شہنائیوں کی مدھر دھنوں سے کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے شہنائی نواز کو خصوصی انعام بھی دیا ۔ ڈیرے پر ان کو اعوانوں کی روایتی پگڑی بھی پہنائی گئی ۔ اسٹیج پر انھوں نے میری بیوی کوسلامی میں ڈالردیے اور کہا کہ جب آپ ملک سے باہر سیر کو جائیں گی تو یہ اس وقت کام آئیں گے ۔
محسن پاکستان کی آمد سے قبل سابق وزیر اعظم اور محترم چچا جان ملک معراج خالد بھی موجود تھے جو وادیٔ سون پہلی دفعہ تشریف لائے تھے، ان کے آباؤ اجداد بھی وادیٔ سون سے ہجرت کر کے لاہور کے مضافات میں جا بسے تھے، اس لیے ملک صاحب نے شادی کی دعوت کو بہانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ایک دفعہ اپنے بزرگوں کے اصل وطن کو دیکھنا چاہتے ہیںاور یہ بہترین موقع ہے ۔
معروف کالم نگار ہارون الرشید بھی تشریف فرما تھے۔ وہ دن ہمارے گاؤں کی خوش بختی کا دن تھا۔ گاؤں کے لوگ پاکستان کے سب سے بڑے آدمی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے اور محسن پاکستان نے بھی پروٹوکول کے آداب کو ایک طرف رکھ کر سب کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں اور عوام میں گھل مل بھی گئے، وہی عوام جنھوں نے محسن پاکستان کو ہمیشہ اپنی آنکھوں پر بٹھایا کیونکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ قائد اعظم کے بعد اگر پاکستان میں کوئی بڑا آدمی ہے تو وہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان ہیں جنھوں نے پاکستان کے دفاع کے لیے ایسا حصار کھینچا جو رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا۔ محسن پاکستان کو ولیمہ کی دعوت میںدیسی گھی اور گڑ سے بنایا گیا حلوہ بہت پسند آیا اور بعد میں اسلام آباد کی ملاقاتوں میں کئی دفعہ اپنی بیگم صاحبہ کو بھی کہا کہ میں تمہیں حلوہ کھلانے قادرحسن کے گاؤں لے جاؤں گا۔
میں اتوارکو گاؤں میں اسی ڈیرے پر موجود تھا جہاں محسن پاکستان تشریف لائے تھے۔ میرے بیٹے نوشیروان نے آ کر اطلاع دی کہ ڈاکٹر صاحب اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں ۔یہ اطلاع سن کر یوں لگا کہ میں ایک برس کے دوران دوسری دفعہ یتیم ہو گیا ہوں۔
آج سے گیارہ ماہ قبل والد صاحب کی وفات اور محسن پاکستان کی رحلت سے یوں محسوس ہوا کہ اپنے وجود کا کوئی ایک حصہ الگ ہو گیا ہے۔ یہ جذبات میرے تو ہیں ہی لیکن یہی جذبات پاکستانی قوم کے بھی ہیں جن کے ملک کی حقیقی حفاظت کی ذمے داری ڈاکٹر صاحب اور ان کے رفقاء نے خوب نبھائی۔ وہ پاکستان کی محبت سے سرشار تھے اور پاکستان کے دفاع کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور پاکستان پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا۔ لیکن ہم نے اس کے بدلے میں انھیں کیا دیا،وہ آخری وقت تک اس کا شکوہ ہی کرتے رہے۔
عوام اور پاکستانی قوم نے تو انھیں بھر پور محبت دی اور پذیرائی کی اور انھیں ہیرو کا اعزاز دیا، ان کی راہ میں آنکھیں بچھائیں لیکن ہمارے ایک حکمران پرویز مشرف نے ان کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب اسلام آباد سے مجھے صحافی دوستوں کی فون کالیں موصول ہوئی کہ آج آپ کے والد نے ہم صحافیوں کی لاج رکھ لی ہے ۔ واقعہ یوں ہے کہ پرویز مشرف نے پاکستان بھر سے صحافیوں کو اسلام آباد کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں پریس کانفرنس کے لیے بلا رکھا تھا جہاں پر انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر خان پہلے تو میرے ہیرو تھے لیکن اب وہ میرے ہیرو نہیں ہیں۔
اس پر والد مرحوم کھڑے ہو گئے اور کہا کہ جنرل صاحب! وہ آپ کے ہیرو ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ میرے اور اس قوم کے اب بھی ہیرو ہیں۔ یہی واقعہ بعد میں غیر سیاسی باتیں کی ایکسپریس منتقلی کی ایک وجہ بھی بنا ۔ غیر سیاسی باتیں کے قارئین اس بات کی گواہی دیں گے کہ اس کالم کے ذریعے محسن پاکستان کی ذات گرامی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا گیا اور ہر مشکل وقت میں ڈنکے کی چوٹ پر ان کا ساتھ دیا گیا۔
دفاع پاکستان کے متعلق وہ جب بھی گفتگو کرتے تو بھارت کا نام ان کی زبان پر آتے ہی ان کے چہرے کی رنگت بدل جاتی تھی۔ میں ایک دفعہ والد صاحب کے ساتھ ان کے دفتر میں حاضر ہوا تو کہنے لگے کہ قادر صاحب مجھے اطمینان ہے کہ پاکستان اب مکمل طور پر محفوظ ہو گیا ہے، اس موقع پر انھوں نے غوری میزائل کا ماڈل بھی تحفہ میں دیا اور اپنے ہاتھ سے یہ تحریر لکھ کر دی کہ ہم جب چاہئیں بھارت کے کسی بھی شہر کو پندرہ منٹ میں صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں، یہی تحریر بعد میں اخبار کی شہ سرخی بھی بنی۔ ان گنت یادیں ہیں ۔ روزانہ کے ٹیلی فون پیغامات ہیں جو والد صاحب کی وفات کے بعد تک باقاعدگی سے عل الصبح ملتے رہے۔
ڈاکٹر صاحب کو شاعری بہت پسند تھی۔ وہ شعراء کرام کا کلام اپنی ڈائری میں لکھتے رہتے تھے۔ انھوں نے اپنی بیاض کی فوٹو کاپی والد صاحب کے حوالے کی تاکہ ان کو ترتیب دے کر ان کی کتاب شایع کی جائے۔ یہ کتاب ''انتخاب کلام شعراء'' ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام سے شایع ہوئی۔
محسن پاکستان کا وزیر اعلیٰ سندھ کے نام آخری خط بھی زیر بحث ہے جس میں انھوں نے حکمرانوں کی بے اعتنائی کا گلہ گیا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ بڑا آدمی گزشتہ چند برس سے اپنی گزر بسر تحریر کے ذریعے کر رہے تھا۔ ہم ایک با وفا قوم ہیں لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمیں رہنما اور حکمران بے وفا ملے ہیں جس کا گلہ محسن پاکستان بھی اس فانی دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے کر گئے۔ آخر میں محسن پاکستان کا پسندیدہ شعر
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف، مگر کوفیوں میں گزری ہے
اﷲ کریم محسن پاکستان کی مغفرت فرمائیں اور ان کے درجات بلند فرمائیں۔( آمین)