جنوبی ایشیا کا ایک ادھورا خواب چوتھا حصہ
نقشے کو دیکھیے اور اس ایشیائی خطے کی تاریخ کو مدنظر رکھیے، اور ساتھ ہی موجودہ طاقتور گلوبلائزیشن ڈرائیو پر نگاہ کیجیے۔
NEW DELHI:
اکنامک زون کا خیال یقیناً ایک ایسا خیال ہے جسے کوئی اندھا نشانہ بھی کہہ سکتا ہے۔ یہ زیادہ تر بھارت پر منحصر ہے۔
اگر بھارت چین سے نکلنے والی تین یا حتیٰ کہ چار نارتھ ساؤتھ روڈ اور ریل راہداریوں کی تعمیر کی اجازت دینے کا فیصلہ کرتا ہے، جنھیں ہمالیہ سے گزرنا ہو، اور پھر شمال مشرقی بھارت (سیون سسٹرز) کے ذریعے خلیج بنگال میں بنگلا دیشی اور بھارتی بندرگاہوں تک اسے جانا ہو، تو بجائے ایک سیاسی ادارہ بننے کے، ایک علاقائی معاشی اتحاد بن سکتا ہے۔
انگریزوں سے اگرچہ آزادی کے بعد سات دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن انھوں نے بھارت کے شمال مشرقی علاقوں کے وسائل تو خوب استعمال کیے مگر تعمیری کام نہ ہونے کے برابر کیا۔ اور آج آئینی ریاستوں میں سے ہر ایک کئی سالوں سے ہنگامہ آرائی کی لپیٹ میں ہے۔
یہی بات ساحلوں سے محروم ممالک بھوٹان اور نیپال کے لیے بھی کہی جا سکتی ہے، بھارت نے انھیں بحر ہند تک بادل نخواستہ (اور نہایت کم) رسائی دی ہے۔ دوسری طرف چین کے منصوبے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو' (بی آر آئی) کا مقصد اب تک کے ناقابل رسائی یا صرف نہایت مشکل رسائی والے علاقوں کی طرف راستے کھولنا ہے۔ نقشے کو دیکھیے اور اس ایشیائی خطے کی تاریخ کو مدنظر رکھیے، اور ساتھ ہی موجودہ طاقتور گلوبلائزیشن ڈرائیو پر نگاہ کیجیے جو بی آر آئی سے منسلک تو ہے لیکن اس تک محدود نہیں۔
متعدد سیاسی ریاستوں اور ان کے سیاسی اتحادوں کے ساتھ، بشمول ان کی حساسیت، اس منصوبے کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اور ان مشکلات کی وجہ سے اس کو تعمیر ہونے میں وقت لگے گا۔ لیکن سماجی و معاشی سوچ بچار کو (یعنی معیشتوں کی مدد کرنا اور لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانا) آخرکار ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے قابل ہو جانا چاہیے۔
کسی سڑک، ریل اور پائپ لائن نیٹ ورک کی تعمیر جو ان علاقوں کو بنگلا دیشی بندرگاہوں چٹاگانگ، چالنا، پائیرا اور مترباری سے جوڑتی ہے، (اور مغربی بنگال میں کولکتہ کی بھارتی بندرگاہ بھارت کا حصہ رہتے ہوئے) جنوبی ایشیا (یا گریٹر بنگال کے، جیسا کہ قائد نے تصور کیا تھا) کی مشرقی ریاستوں کی معیشتوں میں انقلاب برپا کر دے گی۔ قائد کی بصیرت نے 1946 میں دیکھا تھا کہ یہ ایک ممکن منصوبہ ہے، جب اے کے فضل الحق، حسین شہید سہروردی اور ابوالہاشم ان کے پاس مشرقی اور مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ آسام اور سیون سسٹرز پر مشتمل گریٹر بنگال کا آئیڈیا لے کر آئے تھے۔ برطانوی اور انڈین کانگریس نے اس منصوبے کو ایک مضحکہ خیز تکنیکی نکتے کی وجہ سے مسترد کر دیا۔ اگرچہ مجوزہ اقتصادی زون کی سیاسی تشکیل صرف ایک خواب ہے، لیکن انفرا اسٹرکچر کے میدان میں اس سے متعلق چیزیں خاموشی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔
یہاں شاہراہ ریشم سے ہٹ کر بھی راستہ تھا جس نے قدیم دنیا کے علاقوں کو 130 قبل مسیح اور 1453 عیسوی کے درمیان تجارت میں جوڑا تھا، لیکن پھر اس کا استعمال ختم ہو گیا تھا۔ 20 ویں صدی کے دوران رابطے کی بحالی کے لیے نئی کوششیں کی گئیں، لیکن اس بار تجارت کو فروغ دینے کے بجائے جنگ اور فوجیوں کی نقل و حرکت کو فروغ دینے کے لیے۔ پہلا منصوبہ برما روڈ کا تھا۔ 717 میل (1،154 کلومیٹر) کی لمبائی کے ساتھ یہ مغربی چین اور برما کے درمیان ایک دشوار پہاڑی ملک سے گزرتا ہے۔
کنمنگ سے برمی بارڈر تک کے سیکشنز 2 لاکھ برمی اور چینی مزدوروں نے 1937 میں دوسری چین جاپانی جنگ کے دوران بنائے اور 1938 تک مکمل کیے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، اتحادیوں نے برما روڈ کو چین تک مٹیریل کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا، خاص طور پر جب جنوبی گوانگشی کی جنگ میں نیننگ کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد چین نے سمندری رسائی کھو دی۔ ساری سپلائی رنگون (اب یانگون) میں اترتی تھی، اور ریل کے ذریعے لاشیو منتقل کی جاتی تھی، جہاں برما میں سڑک شروع ہوتی تھی۔ جاپانیوں نے 1942 میں برما پر قبضہ کر لیا، اور اس طرح اتحادیوں کے لیے برما روڈ کو بند کر دیا۔ اس کے بعد اتحادیوں کو چینی فوجیوں کو ہوائی جہاز کے ذریعے سپلائی کرنی پڑی، اس کے لیے انھیں ہندوستان سے ہمالیہ کے پہاڑوں پر پرواز کرنی ہوتی تھی۔
25 ہوائی جہازوں کے ساتھ شروع ہونے والی دسویں ایئر فورس پھر ایئر فورس ٹرانسپورٹ کمانڈ بن گئی۔ C-47 طیاروں کی فائنل اسمبلنگ (ہوائی بیڑے کی ریڑھ کی ہڈی) جو امریکا سے کریٹس میں بھیجے گئے تھے، پانا گڑھ میں کی گئی، بھارت کا جنگی قیدیوں کا کیمپ جہاں سے میں (اکرام سہگل) 1971 میں فرار ہوا تھا۔ یہ مشہور 'چنڈٹس' (77 بریگیڈ جس کی قیادت بریگیڈیئر جنرل آرڈے ونگیٹ کر رہے تھے) کی تشکیل کی بیس بھی تھی، برطانوی سلطنت کے یہ گوریلا اسٹائل فوجی برما میں گئے اور کسی حد تک جاپانی لائنز آف کمیونیکیشن (ایل او سی) کو متاثر کیا۔
لیکن آخرکار جاپان کے خلاف جنگی جدوجہد میں چیانگ کائی چیک کے چینی فوجیوں کی سپلائی کے لیے، چین تک ایک نیا روڈ کنکشن بنانے کی ضرورت آن پڑی، کیوں کہ مکمل فضائی سپلائی کے لیے درکار تعداد میں طیارے دستیاب نہیں تھے۔ یوں جاپانیوں کے قبضے میں آئے ہوئے برما کے ساتھ ساتھ مشرقی ہندوستان نئی سڑک کے لیے منطقی نقطہ آغاز بن گیا۔
ہندوستان اور چین کے درمیان ایک زمینی رابطہ موجود تھا جس کی وجہ سے یہ روڈ امریکی فوج کے جنرل جوزف اسٹل ویل کی قیادت میں تعمیر کی گئی تھی اور بعد میں اسے اسٹل ویل روڈ کا نام دیا گیا۔ 1726 کلومیٹر طویل اس تاریخی سڑک کو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکا کی قیادت میں اتحادی فوجیوں نے تعمیر کیا تھا۔ یہ آسام میں لیڈو سے شروع ہوئی، جو بالائی برہم پترا کی وادی میں بنگال، آسام ریلوے کے ریل ہیڈز میں سے ایک ہے۔ یہ سڑک انڈیا برما (اب میانمار) سرحد پر لیکھاپانی، جیرام پور، نمپونگ اور پانگساؤ پاس سے گزرتی ہے اور 9000 فٹ بلند پٹکائی رینج کی گزرگاہوں کو لپیٹ میں لے کر، شندوِیانگ میں نمودار ہوتی ہے اور مٹکیانا پہنچ جاتی ہے، جہاں یہ پرانی برما روڈ کے ساتھ جڑ گئی ہے۔
ریل ہیڈز سے فوج کے محاذوں تک سپلائی منتقل کرنے کے لیے 1943 کے موسم خزاں کے دوران ریکارڈ وقت میں مزید دو اہم سڑکیں تعمیر کی گئیں۔ ٹنل بنانے کی اعلیٰ ترین چینی ٹیکنالوجی کے ساتھ یہ سڑک بہت کام کی تھی۔ مذکورہ دو سڑکوں میں ایک انڈیا کے اندر دیماپور سے امپھال تک بہت ہی اہم سینٹرل فرنٹ روڈ تھی، اور دوسری برٹش انڈیا میں چٹاگانگ کے جنوب میں دوہزاری سے جنوبی روڈ۔ جنگ کے بعد اسٹل ویل روڈ ناکارہ ہو گئی۔ 2010 میں بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ سڑک کا بیش تر حصہ جنگل نے نگل لیا ہے۔
اقتصادی امکانات اور خطے میں ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کو تقویت دینے کی اشد ضرورت کے پیش نظر چین، بھارت اور میانمار میں آوازوں کا بڑھتا ہوا شور سڑک کی بحالی پر زور دے رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تینوں ممالک اس منصوبے پر سنجیدگی سے غور کریں۔ بھارت دو وجوہ کی بنا پر سڑک کی تعمیر نو کے حوالے سے پریشان ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ یہ سڑک آسام سے شروع ہوتی ہے، ایک ایسی ریاست جہاں مقامی عسکریت پسند تیزی سے سرگرم ہو گئے ہیں۔
دوسرا یہ کہ چین کی تیار کردہ مصنوعات کا ریلا اس سڑک کے ذریعے بھارتی مارکیٹ میں آ سکتا ہے۔ آزادی کے بعد علاقے کی نوآبادیاتی تقسیم سے منسلک کچھ سیاسی مسائل اور پے در پے بھارتی حکومتوں کے نوآبادیاتی طرز کے رویے نے ہندوستان کے شمال مشرق کو بے تعلق کر دیا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار فارن ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)