آہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان
ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کو بھارتی حکمرانوں کی ملک ہوس گیری سے بس یوں سمجھو کہ بچا لیا۔
پاکستان جیسے غریب ملک کا ایٹمی طاقت بننا ایک معجزے سے کم نہ تھا اور اس معجزے کا سہرا محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کو بھارتی حکمرانوں کی ملک ہوس گیری سے بس یوں سمجھو کہ بچا لیا ورنہ بھارت کے مئی 1998 میں چھٹی عالمی جوہری طاقت بننے کے بعد پاکستان کا وجود سراسر خطرے سے دوچار تھا کیونکہ بھارتی دھماکوں کے فوراً بعد ہی اس وقت کی حکمران جنتا پارٹی کے آر ایس ایس کے دہشت گرد بھارتی حکومت کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ترغیب ہی نہیں دے رہے تھے بلکہ پرزور مطالبہ کر رہے تھے، انھوں نے خاص طور پر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو پہلی فرصت میں پاکستان سے چھیننے کے لیے ملک گیر مظاہرے شروع کردیے تھے۔
اسی وقت بھارتی فوج کی بھی مشکوک نقل و حرکت دیکھنے میں آ رہی تھی لگتا تھا کہ واقعی بھارتی حکومت اپنے ایٹمی دھماکوں کا پاکستان پر رعب طاری کرنے کے لیے کچھ ایڈونچر کرنے والی ہے ، مگر ایسا کیسے ہو سکتا تھا پاکستانی حکمرانوں نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھی تھیں۔ انھوں نے بھی بھارتی دھماکوں کا جواب دینے کا پروگرام بنا لیا تھا تاکہ بھارتی حکمرانوں کا غرور اور آر ایس ایس کے غنڈوں کا جوش و جذبہ سرد ہوسکے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے پہلے ہی ایٹم بم تیار کر چکے تھے ، وہ 28 مئی 1998 کی تاریخی سہ پہر تھی جب بلوچستان کے موضع چاغی کے پہاڑوں پر پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ بھارت نے چند دن قبل راجستھان کے مقام پوکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کیے تھے پاکستان نے اس کے جواب میں چھ دھماکے کر ڈالے۔
ان اچانک دھماکوں سے پوری دنیا ضرور سہم گئی مگر بھارت کی پاکستان کے خلاف جارحیت کے ارادے خاک میں مل گئے۔ بھارت آج بھی پاکستان سے چھ گنا زیادہ فوجی طاقت رکھنے کے باوجود پاکستان پر حملہ کرنے کی جسارت توکیا ایسی سوچ بھی ذہن میں نہیں لاسکتا ، اب پاکستان محفوظ و مامون ہوچکا ہے۔
پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان چند دن قبل دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں مگر افسوس کہ اس عظیم پاکستانی کی وہ قدر نہیں کی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ اس میں شک نہیں کہ عوام نے ہمیشہ انھیں بے مثال عزت و توقیر سے نوازا اور ان کی راہوں میں پلکیں بچھائیں مگر سرکاری سطح پر سردمہری کا مظاہرہ کیا گیا۔
بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ 2004 سے لے کر تادم مرگ انھیں نظربندی جیسی کیفیت میں رکھا گیا گوکہ 2009 میں ان کے حق میں عدالتی فیصلہ تھا مگر اس کے باوجود بھی وہ اپنی مرضی سے لوگوں سے ملنے جلنے اور آزادی کی زندگی گزارنے جیسے بنیادی انسانی حقوق کے حصول سے محروم رہے۔ وہ آخر وقت تک ریلیف کے منتظر رہے مگر ان کی نہیں سنی گئی۔ وہ اپنی نظربندی کے خاتمے کے لیے درخواستیں دائر کرتے رہے۔ مگر ان کی درخواست پر نہ تو کوئی فیصلہ ہوا اور نہ ہی ان کے وکلا کو سیکیورٹی کے نام پر ان سے ملنے کی اجازت دی گئی۔ وہ کس طرح آزاد زندگی کے لیے تڑپ رہے تھے وہ ان کا دل ہی جانتا تھا۔
پچھلے 15 ستمبر کو ان کی درخواست کی آخری سماعت ہوئی تھی ۔ انھیں یہ سزا اس نام نہاد جرم پر دی گئی تھی کہ وہ دنیا میں ایٹمی پھیلاؤ کے مجرم تھے حالانکہ انھوں نے اس کا اعتراف کیا مگر صرف اپنے پیارے وطن پاکستان کو بدنامی سے بچانے کے لیے۔ ان کے اس اعتراف سے پاکستان پر تو کوئی آنچ نہیں آئی البتہ ان کی اپنی زندگی تباہ ہوگئی۔ وہ عام لوگوں سے کیا اپنے عزیز رشتے داروں سے بھی ملنے جلنے سے روک دیے گئے تھے۔ البتہ بعد میں کچھ ریلیف ضرور ملا مگر اس پر بھی خوف کا سایہ منڈلاتا رہا۔
سوال یہ ہے کہ آخر محسن پاکستان کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اختیار کیا گیا تو اس کی وجہ بھی بہت اہم ہے ان کے لیے سخت سیکیورٹی ان کی جان کی حفاظت کے لیے ضروری تھی ، کیونکہ پاکستان کے دشمن ان کی جان کے دشمن بن گئے تھے ، وہ انھیں مارنے کے لیے بے چین تھے۔
اسرائیلی مشہور اخبار "HAARTZ" نے اپنے ایک اداریے میں اعتراف کیا ہے کہ موساد کے جاسوس انھیں قتل کرنے کے لیے ہر وقت سرگرداں رہتے تھے۔ کئی مواقع پر وہ ان کی زد میں بھی آئے مگر ان کے وار سے محفوظ رہے۔ سی آئی اے ، برطانوی ایم آئی سکس اور بھارتی '' را '' بھی ان کی جان کے در پے تھیں۔ سی آئی اے نے تو انھیں دنیا کا خطرناک ترین انسان قرار دے رکھا تھا۔ اس نے انھیں اغوا کرنے کی بھی کوشش کی تھی مگر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی پاکستان سے محبت مثالی تھی جب سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا آپ خوب روئے تھے اورکئی دن تک کھانا بھی نہیں کھا سکے تھے۔
خوش قسمتی سے راقم ان کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریبات میں شریک ہوتا رہا تھا۔ وہ اعلیٰ پائے کے مقرر تھے اور ہر موضوع پر خوب بولتے تھے ، تقریب کے اختتام پر عوام ان سے مصافحہ کرنے کے لیے لپکتے اور وہ خود بھی عوام سے ملنے کے لیے بے چین نظر آتے تھے مگر انھیں کبھی عوام میں گھلنے ملنے نہیں دیا گیا۔
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میری کتاب ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' پر قائد اعظم رائٹرگلڈز کی جانب سے دیا گیا '' ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایوارڈ'' کراچی یونیورسٹی میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے خود اپنے دست مبارک سے مجھے عطا فرمایا تھا۔ میری کتاب '' بھوپال کی کہانی'' کا پیش لفظ بھی انھوں نے ہی تحریر فرمایا تھا۔ ان کی اس مہربانی پر میں تا حیات ان کا شکر گزار رہوں گا۔ ان کی ہمت افزا تحریر نے میری اس کتاب کو امرکردیا ہے۔