حکمرانوں کے تضادات عروج پر
معاشی اور سماجی بحرانوں کو حل کرنے کے لیے حکمران کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں بلکہ آپس کے تضادات شدت اختیارکرگئے ہیں۔
چونکہ عالمی سرمایہ داری انحطاط پذیری کی شکار ہے۔ بے روزگاری ، بھوک ، افلاس اور وبائی بیماریاں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایک جانب چند ہاتھوں میں دولت کا انبوہ ہے تو دوسری جانب اربوں انسان غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یقیناً اس کے اثرات پاکستان پر پڑنا لازم ملزوم ہیں۔
ویسے بھی پاکستان ان چند ملکوں میں سے ہے جن میں لاکھوں انسان غربت میں مرتے مرتے جی رہے ہیں۔ خاص کر ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، افغانستان، ایران اور پاکستان۔ مہنگائی تو بڑھ ہی رہی ہے مگر اب مہنگائی اپنی قیمتوں میں چھلانگ مار رہی ہے۔ جیساکہ چند دنوں میں چکی کا آٹا 72 پھر 75 اور اب 80 روپے کلو ہو گیا۔ جو تیل کل 290 روپے کلو تھا اب 320 روپے کلو ہوگیا ہے۔ دودھ اور چینی 120 روپے لیٹر، سبزیاں 100 سے 140 روپے کلو، چاول 100 تا 200 روپے کلو، دالیں 200 سے 300 روپے کلو، پھل 100 سے 400 روپے کلو، مکان کا کرایہ 15000 سے 30,000 روپے ماہانہ، بسوں کا کرایہ 30 روپے سے 60 روپے ہوگیا ہے۔
مہنگائی تو پہلے بھی تھی مگر موجودہ دور میں ہر ہفتے اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہونا انتہائی خطرناک اور بدترین حکمرانی کی غمازی کرتا ہے۔ یہاں فی گھنٹہ امراض قلب کی وجہ سے 146 افراد جان سے جاتے ہیں۔ ہزاروں خواتین چھاتی کے کینسر میں مر رہی ہیں۔ لاکھوں لوگ صرف ڈائیلائسز پہ جی رہے ہیں۔ روزانہ کم ازکم 5/6 خواتین اور لڑکیاں قتل ہوتی ہیں۔
ان معاشی اور سماجی بحرانوں کو حل کرنے کے لیے حکمران کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں بلکہ آپس کے تضادات اتنے شدت اختیارکرگئے ہیں کہ ریاستی ادارے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بیان دیا کہ داعش کو قابو کرنے کے لیے طالبان کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بتایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری وزیر اعظم کا اختیار ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ آئینی طریقہ کار استعمال کیا جائے گا۔ یہ تو قصہ ایک ایسی حکومت کا ہے جسے شروع سے سلیکٹڈ کہا جا رہا ہے اور عمران بار بار اس کی تردید کر رہے ہیں کہ سلیکٹڈ نہیں منتخب وزیر اعظم ہوں۔
یہ سلسلہ پاکستان، برما، سوڈان، تیونس، کولمبیا اور مصر وغیرہ میں تو ہوتا ہی آ رہا ہے مگر امریکا میں بھی کم نہیں۔ پینٹاگون کی مرضی اکثر امریکی حکمرانوں کے سر پر سوار رہتی ہے۔ اسی کا نام ریاست ہے۔ جہاں چند لوگ کثرت سے بسنے والی عوام پر حکمرانی کرتے ہیں۔ یہاں صرف انھی کی چلتی ہے جن کے پاس اقتدار ہو یا پھر بندوق۔
منچوریا کی آزاد انارکسٹ خطے پر جاپانی سامراج نے ہلہ بولا اور اسے ختم کیا جب کہ لینن اور ٹراٹسکی نے سیور آف ماسکو نیسترمیخانو کی خودمختار جنوبی یوکرائن کی انارکسٹ خطے پر دھاوا بول کر اسے ختم کیا۔ 1919 میں جب زار روس نے ماسکو پر حملہ کیا تو لینن نے نیسترمیخانو جوکہ یوکرائن کی بلیک آرمی فوج کے کمانڈر تھے کو مدد کے لیے خط لکھا۔
نیستر میخانو نے زارروس کی فوج کو شکست دی اور چار ہزار زار شاہی کی فوج کو گرفتارکیا۔ جس پر سوویت یونین کی حکومت نے نیسترمیخانو کو سیور آف ماسکو کا خطاب دیا۔ ان پر فلمیں بنیں اورکتابیں بھی لکھی گئیں۔ بعد میں سوویت یونین کی فوج یوکرائن پر ہلہ بولا تو نیستر میخانو نے 20,000 روسی فوج کو گرفتارکیا۔ بعدازاں ٹراٹسکی اور نیستر میخانو کے مابین یہ معاہدہ طے پایا کہ سوویت یونین اپنی جیلوں سے انارکسٹوں کو رہا کرے گا اور نیستر میخانو 20,000 روسی فوج کو رہا کریں گے۔
نیستر میخانو نے روسی فوج کو رہا کردیا جب کہ ٹراٹسکی جوکہ اس وقت روسی خفیہ پولیس ''چیکا'' کا سربراہ ہے، انارکسٹوں کو رہا نہیں کیا اور 1926 میں اسٹالن نے سائبیریا میں قائم لیوٹالسٹائی کی قائم کردہ کمیون کو تباہ کیا۔ سوشلسٹ ریاست میں بھی چند لوگ زیادہ لوگوں پر حکمرانی کرتے ہیں ، اگر سوشل ازم آزاد نہ ہوا اور کمیونسٹ سماج کی جانب پیش قدمی نہ کی تو پھر 1985 تا 1990 تک جس طرح سوشلسٹ ریاستوں کا انہدام ہوا ویسا ہی آیندہ بھی ہوگا۔
اب یہ ریاست امریکا کی ہو یا برطانیہ کی چند لوگوں کی جمہوریت کے نام پر حکمرانی ہوتی ہے۔ چند سال قبل برطانیہ کی لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر جیمری کوربون نے بیان دیا تھا کہ اگر میں وزیر اعظم بنا تو نیٹو کا ایٹمک ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لوں گا اور جنگ نہیں ہونے دوں گا، جس پر برطانیہ کے چیف آف آرمی اسٹاف نے دوسرے دن بیان دیا کہ ایسا ہوا تو ہم بغاوت کردیں گے۔
یہ ہے مہذب سماج کی ریاستی جمہوریت جب کہ اسٹیٹ لیس سوسائٹی یا کمیونزم میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں سب مل کر پیداوار کرتے ہیں اور مل کر بانٹ لیتے ہیں۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں ریاستی اداروں، پارٹیوں اور ملکوں کے درمیان جو تضادات یا جھڑپیں ہوتی ہیں ان سے اچنبھا یا حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ریاست کی یہ برائی نہیں بلکہ ریاست کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ ریاست کو وجود میں آئے ہوئے صرف 6/7 ہزار سال ہوئے ہیں جب کہ لاکھوں سال سے دنیا کا سماج اسٹیٹ لیس سوسائٹی یا بے ریاستی خطوں پر مشتمل تھا۔ ان کے آپس کے لین دین بھی ہوتے تھے۔ آج دنیا میں کروڑوں لوگ جو جنگلوں میں رہتے ہیں وہ کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی ویزا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں۔
نیشنل جیوگرافی کی ایک تحقیقی ٹیم نے جنگلوں میں بسنے والے ننگ دھڑنگ 100 لوگوں کے خون کا ٹیسٹ کیا گیا کسی کے خون میں کوئی مہلک بیماری نہیں ملی جب کہ امریکا، برطانیہ اور چین سمیت سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ ممالک میں کورونا کی وبا عام ہے، کروڑوں لوگ متاثر ہوئے اور لاکھوں مر گئے۔ لیکن جنگلوں میں بسنے والوں میں سے ایک بھی نہ مرا۔ فطری معاشرہ ہی انسانیت کی نجات کا واحد حل ہے۔
1906 میں لیوٹالسٹائے نے کہا تھا کہ سائنسی اور تکنیکی ترقی کو روکے بغیر انسانوں کو برابری پر نہیں لایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اب روسی عوام میں اتنا شعور آچکا ہے کہ وہ بلا ریاست زندگی گزار سکتے ہیں۔ اگر پاکستان کے حکمران عوام کی بھلائی چاہتے ہیں تو سب سے پہلے جاگیرداری ختم کرکے زمین بے زمین کسانوں میں بانٹ دیں، آئی ایم ایف کے قرضوں کو ضبط کریں ۔