پتے ہوائیں دینے لگے
اقتدار برقرار رکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا، وہ تھا زبردستی کرنا۔
کم از کم مجھے کوئی ابہام نہیں کہ خان صاحب اس وقت سول سپرمیسی کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں لیکن جو بھی ہوا ایک دم سے لاوا پھٹا۔ جو ایک صفحے پے تھے اب بھی اسی صفحے پے ہیں مگر صفحہ پھٹ کے ریزہ ریزہ ہوگیا ہے۔
یہ سب اب بھی سول سپرمیسی سے خائف ہیں مگر ان میں سے ایک شخص پہلے ہی الگ ہوکے کھڑا ہوگیا ہے، یہ وہ سیڑھی تھی جس کو چڑھ کے خان صاحب اور ان کا ہمنوا پار ہونا چاہتے تھے۔ اگلے انتخابات اگر شفاف ہونے جارہے ہیں اور لگ رہا ہے کہ ہونے جا رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیااس بار بھی خان صاحب کو الیکٹیبلز ملیں گے جن کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پرکھڑا کر سکیں ؟
اگر ان اقتداری سیاست کرنیوالے الیکٹیبلز کے سامنے عیاں ہوجائے کہ خان صاحب کی ''لائن کٹ گئی'' ہے تو پھر خان صاحب کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں۔ ہمارے ارباب غلام رحیم اور ایسے بہت سے پھر سے پریشان و پشیمان ہوں گے، اب تو زرداری صاحب کم تنخواہ میں بھی کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کیا کریں، یہ پارٹی اب صرف سندھ تک ہی محدود ہے ۔
اقتدار برقرار رکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ تھا، وہ تھا زبردستی کرنا۔ آزاد میڈیا کی آواز کو دبوچنے کے لیے نئے قوانین متعارف کرائے ۔ نیب کو استعمال کیا ۔ ایف آئی اے سے لے کر ہر ادارے کو خراب کرنے کی کوشش کی، پولیس کے تبادلوں پے تبادلے کیے گئے۔ اور سب سے بڑی بات معیشت بٹھا دی۔ اتنے قرضے لیے ان تین سالوں میں کہ ماضی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ یہ معیشت اب اٹھنے کی نہیں تا وقت کہ ملک کے سیاسی ڈھانچے میں ریفارمز ہوں۔
اس صورتحال میں کوئی طاقتور گروپ ان کے ساتھ کھڑا ہو تو کیسے کھڑا ہو۔ادھر لوگوں کا غم و غصہ بڑھ رہا ہے کہ ایسی پارٹی کو اقتدار میں کیوں لایا گیا؟
بات یہ ہے کہ پاکستان کی اقتداری سیاست میں جو تبدیلی دس سال میں آتی تھی، وہ خان صاحب تین چار سال کے اندر لے آئے۔ اس میں افغانستان میں حالات بدلنے کا بھی عمل دخل ہوسکتا ہے۔ بڑے عجیب سے بیانات تھے خان صاحب کے مثال کے طور پر ''طالبان پشتون قوم پرست ہیں'' جس پے خود پاکستان کے اندر دائیں بازو کے پشتون بھی برہم ہوئے اور منظور داوڑ جیسے قوم پرست بھی۔ بڑے بڑے عام اعلان ہوئے کہ پاکستانی طالبان کو عام معافی کی بات ہوئی، دی جائے گی۔
افغانستان میں طالبان کی آمد کاکچھ حد سے زیادہ جشن منایا گیااور پاکستان کے مخالفین کو موقع فراہم کیا کہ وہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا کریں۔ آج یہ ملک جس دوراہے پے کھڑا ہے، اس میں اسی افغانستان پالیسی کا عمل دخل ہے۔ کل تک امریکا ہمارے ساتھ تھا، آج نہیں ہے ۔ خان صاحب جنرل ضیاء الحق کی طرح اسی بیانیے کو آگے لے کر اپنے پانچ سال اور نکالنا چاہتے ہیں۔
روس کے آخری بادشاہ زار کے زمانوں میں محل راسپوٹن کے ہاتھ لگ گیا۔ وہ ملکہ کے ذریعے محل کی سیاست پر اثر انداز ہوتا تھا۔ وہ ضعیف الاعتقاد بادشاہ پر ان کی بیوی کے ذریعے اثر انداز ہوتے تھا۔ یہاں تک کہ پہلی جنگ عظیم کے اندر عسکری حکمت عملیاں بھی بناتا تھا، وہ زار نکولسن بادشاہ کے وزیر اعظم اور ریاستی دومہ (پارلیمنٹ) پر بھی اثر رسوخ قائم کرگیا۔ ہمارے ہاں بھی تعویذ، دھاگوں، فال نکالنا وغیرہ کی خبریں منظر عام آرہی ہیں۔ ہماری بے نظیر بھٹو بھی پیروں فقیروں کے پاس اقتدار بچانے کے لیے دعائیں، تعویذ وغیرہ لینے جاتی تھی۔ مگر آج حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں جس کی ماضی میں کوئی بھی مثال نہیں ملتی۔
ہمیں اپنے تجزیے میں ان مادی حقیقتوں کو دیکھنا ہوگا جو بلا آخر، اس سفر کو اختتام کی طرف لیتی ہوئی آرہی ہیں۔ یعنی یہ ٹولا جمہوریت پہ جب شب خوں مارا جاتا ہے، وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ لوگ بلکہ چپک جاتے ہیں۔ رنگ روڈ سے لے کہ ایسے کئی اسکینڈل ہیں جو ان کے دور میں ہی کھل گئے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد اور بھی کھل جائیں گے۔ یہ جو ہم نے اشرافیہ بنائی ہے، جو ہر آمرانہ دور میں ادھر ہی جا کر پہنچتی ہے یہ عناصر در اصل ہمارے ملک کو اندر سے کھوکھلا کرتے ہیں۔ ان کا کام صرف اقتدار میں رہنا ہوتا ہے۔ اب خان صاحب کی پارٹی سے یہ لوگ اڑنا شروع ہوجائیں گے۔ ایسے کئی درباری بھی ہیں، جن کا بھی روزگار لگا ہوا تھا مگر ہم حقیقت سننے کے لیے تیار نہ تھے۔
خان صاحب اب کے جس دلدل میں پھنسے ہیں، یہ وہ دلدل نہیں جو 12 اکتوبر کو میاں نواز شریف کو یا 5 جولائی کو بھٹو کو نصیب میں آئی تھی، یہ وہ صورت بھی نہیں جب ایوب نے خود اپنے نظام کی بیساکھ بند کی اور جنرل یحییٰ کو آمریت نافذ کرنے دی۔ یہ نہ جونیجو والا نہ جمالی والا معاملہ ہے ، مجھے یہ کچھ اور ہی لگتاہے۔ میری نظر میں اس وقت ملک کو خارجی اور اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے اور حالات اور خراب کرنے میں خود حکومت کی نا اہلی کا بھی عمل دخل ہے۔
دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ نواز شریف سے لڑا جاسکتا ہے مگر پنجاب کے لوگوں سے نہیں، اوپر سے پٹرول کی قیمت بین الاقوامی منڈی میں بڑھنے جارہی ہیں کہ گیس کی دنیا بھر میں شدید قلت آنے والی ہے۔ یہاں پے یقیناً گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ ہوگی۔ لوگ بلبلا اٹھنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور حکومت کو کارکردگی بہتر کرنے سے کوئی واسطہ نہیں۔
افغانستان کی صورتحال، یورپ اور امریکا سے ہمارے خراب ہوئے تعلقات تقاضا کرتے ہیں کہ عوام کے حقیقی نمایندہ لوگوں کے اقتدار حوالے کیا جائے۔ یہ جو ہمارے شرفا ہیں جن کو ووٹ پکی پکائی روٹی کی طرح جدی پشتی ملتے ہیں، ہماری جمہوریت کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
خان صاحب کی حکومت جن بیساکھیوں پہ کھڑی تھی ان کے ہٹنے کے بعد کیا وہ کھڑی رہ سکتی ہے ؟ آیندہ آنے والے دن اس حوالے سے بہت اہم ہوں گے۔