عالمی ادبی میلے اورکراچی لٹریچر فیسٹیول

ادیب اپنے قاری کے لیے ادب تخلیق کرتا ہے،مگر ایک طویل عرصے تک قلمکار اپنے قاری سے دور رہے


خرم سہیل February 03, 2014
[email protected]

KARACHI: ادیب اپنے قاری کے لیے ادب تخلیق کرتا ہے،مگر ایک طویل عرصے تک قلمکار اپنے قاری سے دور رہے،اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں،ایسے موقع کم کم دیکھنے کو ملے،جب قاری اورادیب کی ملاقات بالمشافہ ہوئی ہو،ورنہ یہ ایک دوسرے سے حروف اورتخیل کے تحت پیوستہ رہتے ہیں ۔یہ ایک اچھی اورڈرامائی صورتحال ہوتی ہے،مگراب موجودہ زمانے میں حالات کافی تبدیل ہوچکے، ادب کاشعبہ بھی نئے رجحانات کے ساتھ فروغ پا رہا ہے۔اس کی ایک مثال ادبی میلوں کا منعقد ہونا ہے،جنھیں انگریزی زبان کی اصطلاح میں ''فیسٹیول''کہا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں کئی ممالک ایسے ہیں، جہاں باقاعدگی سے ان ادبی میلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔براعظم ایشیا میں بھارت، پاکستان،چین، برما،انڈونیشیا، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، سنگاپوراورجاپان جیسے ممالک سرفہرست ہیں ۔ایشیا کا سب سے بڑا انگریزی ادب کا میلہ بھارت کے شہر جے پور میں سجایاجاتاہے،جہاں دنیا بھر سے لوگ ادبی میلے میں شرکت کرتے ہیں۔پاکستان کے شہر کراچی اوراسلام آباد میں آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے تحت ہونے والے ادبی میلوں نے بھی اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔

بھارت کے شہر جے پور میں ہونے والے ادبی میلے کے روح رواں مشہور ناول ''وائٹ مغل'' کے مصنف ولیم ڈارلمپل''ہیں جو برطانوی مورخ ہیں،ان کی ہندوستانی خطے کی ثقافت بالخصوص مغل دور پر کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔دوبرس پہلے انھوں نے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں بھی شرکت کی تھی ۔مجھے ان سے انٹرویوکرنے کا موقع ملا۔ انھوں نے بھارتی شہر جے پور میں ادبی میلے سجانے کی بنیاد2006ء میں رکھی اوریہ تاحال جاری ہے ۔ پاکستان سے بھی کئی نامور ادیب اس میں شرکت کرچکے ہیں ۔اسی میلے کی انتظامیہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھی اسی نوعیت کا ادبی میلہ منعقد کروانے کی کوشش کی تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ وہاں بہت امن ہے ۔ا س میلے سے نہ صرف مقامی ادیبوں نے لاتعلقی اختیار کی،بلکہ بھرپور احتجاج بھی کیا ۔

ہمارے ہاں کراچی میںادبی میلے کی ابتدا کا برس2010ء تھا۔چوتھے برس اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد پچاس ہزار تک جا پہنچی۔پاکستان اوردنیا بھر سے لکھنے والے انگریزی اوراردو ادیبوں نے اس ادبی میلے میں شرکت کی ۔اس میں نہ صرف انگریزی اوراردوزبان کے ادب کو جگہ دی گئی ،بلکہ مقامی زبانوں کے ادیبوں کو بھی شامل کیا گیا۔اس ادبی میلے کے روح رواں امینہ سید اورآصف فرخی ہیں،جن کی محنت رنگ لائی اوراب یہ ادبی میلہ دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتا ہے ۔رواں برس 6،7اور8فروری کو کراچی کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے جارہا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ کچھ برسوں سے اس کا انعقاد اسلام آباد میں بھی ہونے لگا ہے۔آٓکسفرڈ کے ان ادبی میلوں میں امریکا، برطانیہ،فرانس،اٹلی،جرمنی، بھارت اوراندرون پاکستان سے کثیر تعداد میں ادیب شرکت کرتے ہیں۔

2003ء میں ہانگ کانگ کی مرکزی لائبریری سے شروع ہونے والا ادبی میلہ انتہائی شہرت حاصل کرچکاہے اور اب اس کا انعقاد متعدد جگہوں پر کیا جاتا ہے ۔اسی نوعیت کا ایک ادبی میلہ چین کے شہر شنگھائی میں بھی منعقد ہوتا ہے ۔جس کی اپنی ایک منفرد اہمیت ہے ۔اس ادبی میلے کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں کن ادیبوں کو بلایاجائے،اس کے لیے سوشل میڈیا پر قارئین کی رائے لی جاتی ہے اور پھر طے کیاجاتا ہے کہ کن ادیبوں کو بطورمہمان مدعو کیاجائے ۔چین میں ہی بُک وارم لٹریچر فیسٹیول سجایا جاتا ہے، جس کی ابتدا چھوٹے پیمانے پر ہوئی اوراب یہ ادبی میلہ بھی ادب کے شائقین میں انتہائی معروف ہے ۔

اسی طرح برما کے شہر میانمار میں ہونے والے ادبی میلے کو بہت شہرت حاصل ہے ، یہ پہاڑیوں کے بیچ ایک بدھ مت کی عمارت میں منعقد کیاجاتا ہے۔سنگاپور مینجمنٹ یونیورسٹی میں ہونے والا ادبی میلہ ہر برس اپنی کسی تھیم کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے اورایشیائی ادیبوں سمیت دنیا بھر کے لکھنے والے اس میں شامل ہوتے ہیں ۔انڈونیشیا کے شہر بالی میں ہونے والے ادبی میلے کا بھی خاصا شہرہ ہے ۔ یہ رائٹرز اورریڈرز فیسٹیول کے نام سے منعقد کیا جاتا ہے۔اس کی ابتدا 2003ء میں ہوئی ، جس کی ایک بنیادی وجہ یہاں کے بم دھماکوں سے خراب ہونے والے ماحول کو تبدیل کرنا مقصود تھا۔

تھائی لینڈ کے شہر بینکاک میں ہونے والا ادبی میلہ اپنی نوعیت کا ملک بھر میں ہونے والا واحد میلہ ہے،جس میں قارئین اوردنیا بھر کے مصنفین جوش وخروش سے شرکت کرتے ہیں۔جاپان کے شہر ٹوکیو میں ہونے والا ادبی میلہ بھی لکھاریوں اورحاضرین میں بے حد مقبول ہے،اس میلے میں زیادہ تر جاپانی ادیب شامل ہوتے ہیں، لیکن دیگر ممالک سے بھی لکھاریوں اورحاضرین شرکت کے لیے جاپان آتے ہیں۔

دنیا کے دیگر خطوں میں بھی اسی نوعیت کے انگریزی ادبی میلے سجائے جاتے ہیں۔آسڑیلیا میں ہونے والا ''بے رون بے رائٹرز فیسٹیول'' خاصی اہمیت کاحامل ہے، شروع میں اس ادبی میلے میں صرف آسٹریلوی لکھاریوں کو شامل کیا گیا، بعد میں دیگر ممالک کے لکھنے والے بھی شرکت کرنے لگے ، جن میں ایک بڑی تعداد ایشیائی ادیبوں کی بھی تھی ۔یہ ان چند ادبی میلوں میں سے ایک ہے، جہاں ادبی سرگرمیوں کے ساتھ مختلف ادبی نوعیت کی تربیت کا انتظام بھی کیا جاتا ہے اور مختلف موضوعات کو زیربحث لایا جاتا ہے،اسی وجہ سے اس میں شرکت کے لیے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے ۔

جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والا ادبی میلہ ادبی قارئین میں بے حد مقبول ہے ۔اس میں بڑوں اوربچوں دونوں طرح کے ادب تخلیق کرنے والے ادیبوں کو مدعوکیا جاتا ہے ۔اس میلے کے تحت سالانہ بنیادوں پر کتب بھی شایع ہوتی ہیں ۔برطانیہ میں ورلڈ لٹریچر فیسٹیول کے نام سے ادبی میلہ سجایا جاتا ہے ، جہاں قاری اورمصنف ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہیں ۔اس ادبی میلے کی بھی اپنی کلیدی اہمیت ہے۔اس کے علاوہ بھی برطانیہ میں کئی ادبی میلے ہوتے ہیں،جن کی اپنی ایک اہمیت ہے، مثال کے طورپر آکسفرڈ لٹریری فیسٹیول کا باقاعدگی سے منعقد ہونا ہے۔ پوویز اورویلز میں ہائے فیسٹیول بھی بہت معروف ہے،جس کی ایک وجہ اس کامختلف مقامات پر منعقد ہونا ہے۔

یونان کی ''اوہیو یونیورسٹی''کے تحت ہر سال ادبی میلے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں ہر برس نئے ادیب بیرون ملک سے شرکت کرتے ہیں،جب کہ یونانی لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہوتی ہے۔امریکا میں کئی ادبی میلے ہوتے ہیں،جن میں لاس اینجلس،بوسٹن،ٹیکساس اور ورجینا میں ہونے والے ادبی میلے شہرت کے حامل ہیں ۔

ایشیا میں تقریبا چھوٹے بڑے ملاکر 30سے زاید ادبی میلے منعقد کیے جاتے ہیں ، جب کہ یورپ میں بھی ادبی میلوں کا تناسب تقریباً اتنا ہی ہے ۔جنوبی اور شمالی امریکا میں کل ملا کر دنیا میں سب سے زیادہ ادبی میلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ سب سے کم تعداد میں ادبی میلے کروانے والا خطے کے ممالک میں خلیجی ریاستیں اور اسکینڈی نیوین ریاستیں شامل ہیں۔

پاکستان میں کراچی لٹریچر فیسٹیول نے چار برسوں میں اپنی منفرد شناخت قائم کی اوراب پانچویں برس پھر یہ میلہ سجنے جا رہا ہے ۔حسب روایت اس ادبی میلے کو آکسفرڈ یونیورسٹی پریس منعقد کر رہا ہے،جب کہ اس میں مختلف ممالک کے سفارت خانے اورثقافتی مرکز بھی تعاون کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ تقریباً 10ممالک سے 12قلم کار اس میں شرکت کر رہے ہیں، اس فہرست میں برطانیہ،امریکا،کینیڈا،جرمنی،اٹلی، فرانس، برازیل، روس،بھارت اورافغانستان کے ممالک شامل ہیں ۔اس میلے میں کتابوں پر مصنفین اپنی آرا کا اظہار کریں گے۔اپنی کتابوں کے بارے میں بتائیں گے۔بہت سے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوگی۔کتابوں کی نمائش کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، اس کا بھی ایک اپنا لطف ہے ۔

پاکستان سے بھی شاعروں ،ادیبوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہو رہی ہے ۔کل 200قلم کار شرکت کررہے ہیں، جب کہ 28کتابوں کی تقریب رونمائی ہوگی ، ان میں ایک تقریب میں میری کتاب بھی شامل ہے، جو میں نے بی بی سی اردو سروس کے عالمی شہرت یافتہ براڈ کاسٹر اورصحافی رضاعلی عابدی کی زندگی پر لکھی ہے،اس سوانح حیات کو سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے شایع کیا ہے اور یہ عابدی صاحب کی زندگی پر پہلی اورجامع سوانح حیات ہے، جس کی تکمیل میں، میں نے ڈھائی برس لائبریریوں کی نذر کیے اورتدریسی علم دشمن رویوں کو بھی جھیلا۔

آپ قارئین چاہیں تو اس تقریب میں بھی شرکت کرسکتے ہیں ۔اس تین روزہ فیسٹیول کے دوسرے دن صبح 10بجے یہ تقریب منعقد ہوگی۔قارئین اگر اس ادبی میلے کے بارے میں جاننا چاہیں تو آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی ویب سائٹ سے پروگرام شیڈول حاصل کرسکتے ہیں ۔معلومات کے پیش نذر کچھ نام یہاں درج کر رہاہوں ، جن کا تعلق مختلف تحریری اصناف سے ہے، اس فہرست سے کراچی لٹریچر فیسٹیول کی افادیت کا آپ اندازہ کرسکیں گے ۔اس ادبی میلے میں شرکت کے لیے کسی دعوت نامے کی شرط نہیں ، داخلہ مفت ہے ۔

کراچی لٹریچر فیسٹیول میں اس برس شرکت کرنے والوں میں چند عالمی اورقومی شخصیات کے نام مندرجہ ذیل ہیں ۔عالمی دنیا سے ڈاکٹر راج موہن گاندھی شرکت کررہے ہیں ۔یہ مہاتماگاندھی کے پوتے ہیں اوران کی تازہ تصنیف''تاریخ پنجاب''ہے ، جس کی تقریب بھی اسی ادبی میلے میں ہوگی ۔ اندرون ملک سے شرکت کرنے والوں میں انتظارحسین ،مستنصر حسین تارڑ، کشورناہید ، امجد اسلام امجد، افضال احمد سید ،اجمل سراج ،عقیل عباس جعفری ،اکبر معصوم ،غازی صلاح الدین، مسعود اشعر،عطاالحق قاسمی ، محمد حنیف ،انور سن رائے کے علاوہ کئی سابق سفارت کار، صحافی اورفنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی اس ادبی میلے میں شامل ہیں۔

دنیا بھر میں ہونے والے یہ ادبی میلے ادب پڑھنے والے قارئین اورادب کو تخلیق کرنے والے مصنفین کو ایک دوسرے سے قریب کرتے ہیں ۔ یہ ایک بہت اچھی روایت ہے،جسے گزرتے وقت کے ساتھ عالمی دنیا میں فروغ ملاہے ۔اس طرح سے پاکستانی ادب سے عالمی دنیا میں بھی متعارف ہوگا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں