خوشحالی سے تنگدستی کا سفر
کاش وزیر اعظم ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے سے پہلے تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے، کسی پڑھے لکھے عالم سے رہنمائی لیتے۔
دن بھر کی مصروفیت ختم ہونے پر ایک شخص رات کے وقت اپنی گاڑی لاک کرکے گھر چلا گیا، جب صبح اٹھا اور کسی کام سے باہر جانے کے لیے گاڑی نکالنے لگا تو اس کے ہوش اڑ گئے کیونکہ گاڑی غائب تھی۔ انھیں گاڑی چوری ہونے کا شدید صدمہ تھا، دن بھر ادھر ادھر تلاش کرنے کے بعد تھک ہار کے گھر بیٹھ گیا۔
شام کو جب باہر نکلا تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ اس کی گاڑی اسی جگہ موجود تھی جہاں گزشتہ رات اس نے پارک کی تھی۔گاڑی صاف ستھری اور چم چما رہی تھی جس سے پتا چل رہا تھا کہ کسی نے ناصرف اس کی سروس کرائی ہے بلکہ اچھی طرح پالش بھی ہوئی ہے۔
جب اس شخص نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا تو اندر ایک خط اور کچھ تحائف پڑے تھے۔ خط کھولا جس میں لکھا تھا۔'' میں تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں کہ مجھے مجبوری میں آپ کی گاڑی چرانے کا یہ قدم اٹھانا پڑا، دراصل میری بیوی کی ڈیلیوری کے باعث حالت تشویش ناک تھی، جسے فوری طور پر اسپتال منتقل نہ کیا جاتا تو شاید اس کی جان کو خطرہ ہوتا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے اسے اسپتال پہنچاؤں، بس اسی وجہ سے میں نے چوری جیسا گھناؤنا قدم اٹھایا مگر میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں اور امید کرتا ہوں آپ مجھے میری اس حرکت پر معاف کر دیں گے۔
میری طرف سے آپ اور آپ کی فیملی کے لیے کچھ تحائف ہیں اور ساتھ ہی آج رات کے شو کی ٹکٹیں ہیں قبول کیجیے۔ یہ سب اس مدد کے بدلے میں جو آپ کی گاڑی کے ذریعے سے ہوئی''۔ گاڑی کا مالک یہ سب پڑھ کر مسکرایا، بغیر محنت گاڑی بھی دھلی دھلائی ملی اور مفت میں رات کے شو کی ٹکٹیں بھی۔ رات کو جب فیملی فلم دیکھ کر واپس آئی تو ان کے گھر ڈکیتی کی واردات ہو چکی تھی، پورا گھر سامان سے خالی کیا جا چکا تھا اور وہیں پر ایک خط پڑا ملا، جس پر لکھا تھا،'' امید ہے فلم پسند آئی ہوگی۔'' اس وقت ہم پاکستانیوں کے ساتھ بھی یہی فلم چل رہی ہے جس کا نام ہے ''تبدیلی'' اور اس کا ''مزہ''۔
سوا تین سال پاکستان کے عوام کے لیے سوا تین صدیاں بن چکی ہیں، یہ ہائبرڈ نظام لانے والے بھی آج پریشان ہیں، تین سال سے جو مبصرین گلا پھاڑ پھاڑ کر ایک پیج، ایک پیج کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے، صرف ایک اہم تقرری کے معاملے پر وہ پیج پھٹتا ہوا دیکھ چکے ہیں، یہ الگ موضوع ہے، آج ہم ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں کی گورننس اور مہنگائی پر ہی بات کریں گے۔
ہائبرڈ سرکار کے کارناموں کا جب ذکر ہوگا تو مورخ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دے کر ہم سے لاکھوں نوکریاں چھینی گئیں، پورے کے پورے شعبے تباہ و برباد کر دیے گئے، پچاس لاکھ گھروں کا لالی پاپ دیکر لوگوں کے سروں سے چھت کا سایہ چھینا گیا، کرایوں پر رہنے والے مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر فٹ پاتھ پر آگئے ہیں۔اس ملک میں 10ارب درخت لگانے کے دعوے کیے گئے، پھر بلین ٹری سونامی کا ڈراما رچایا گیا، اگر کبھی اس اسکینڈل اور گھپلے کا صحیح آڈٹ ہوا تو یہ پاکستانی تاریخ میں کرپشن کے ریکارڈ توڑ دے گا۔
کورونا کے وبا کے دوران لوگوں نے تین سو روپے والا آکسیجن سلنڈر پندرہ ہزار میں خریدا، مگر سرکار بیدار نہ ہوسکی۔ سمندر سے تیل و گیس کے وسیع ذخائر ملنے کے دعوے کیے اور سارا تیل عوام کی ہڈیوں سے نکال لیا۔ وزیر اعظم ہاؤس کی گاڑیاں غیر ضروری قرار دے کر فروخت کی گئیں، پھر مہنگی ترین ترین گاڑیاں منگوائی جاتی رہیں، وزیر اعظم توشہ خانے والے معاملے میں عدلیہ کو بھی تلاشی دینے سے کتراتے ہیں، وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان ہوا، جس میں آج صرف وزیر اعظم اور ان کے چند چہیتے وزراء ہی پڑھ رہے ہیں مگر پتہ نہیں کیا پڑھ رہے ہیں کیونکہ جب میڈیا پر بات کرتے ہیں تو چند کے سوا باقی سارے مکمل ان پڑھ لگتے ہیں۔
آج آٹا، دالیں، سبزیاں، گھی سمیت ہر شے عوام کی پہنچ سے باہرہوچکی ہے اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ ہم زیادہ دور کی بات نہیں کرتے، نواز شریف کے دور میں ڈالر 103روپے تھا جو آج 173سے بھی تجاوز کر چکا ہے، سونا جو 49500 روپے تولہ تھاآج ایک لاکھ تیرہ ہزار سے اوپر ہے۔ گھی اور کوکنگ آئل 160سے 200روپے کلو گرام تھا جو آج ساڑھے تین سو روپے سے چار سو روپے کلو گرام ہے۔ چینی پچاس روپے کلو تھی جو آج 120روپے فی کلو گرام مل رہی ہے۔ آٹا فی کلو 35روپے تھا اور آج 70روپے سے تجاوز ہے۔
ساٹھ روپے فی لٹر ملنے والا پٹرول آج 137روپے فی لٹر مل رہا ہے۔ کون سا شعبہ ہے جو حکومت کی تباہ کن پالیسیوں سے محفوظ ہے۔ کون وہ شخص ہے جس نے ان تین برسوں میں خوشحالی سے تنگدستی کا سفر نہ کیا ہو۔ آج عوام کے پاس بددعا دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں، اب تو باقاعدہ مساجد میں تبدیلی سرکار سے جان چھڑانے کے لیے نوافل اور دعاؤں کے اہتمام کے لیے اپیلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور تبدیلی سرکار نے دعا اور بد دعا پر بھی ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے تھانوں میں تشدد کرنا شروع کردیا ہے۔
موجودہ حکومت کا تین سالہ دور اقتدار پاکستان اور عوام کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے، حکومت کے ہاتھ عوام کی جیب اور پاؤں گردن پر ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور بیڈ گورننس نے اس ملک میں مافیا کلچر کو ناقابل یقین حد تک طاقتور بنا دیا ہے، کسی کو کسی کا خوف نہیں۔ جس کا جب اور جتنا جی چاہتا ہے لوٹتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جس شے کا نوٹس لیتے ہیں وہ یا تو پہلے سے زیادہ مہنگی ہوجاتی ہے یا مارکیٹ سے ہی غائب ہوجاتی ہے۔
اب جب بھی وزیر اعظم کسی شے کا نوٹس لینے کا اعلان کرتے ہیں عوام خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ ان کی ٹیم میں بڑے بڑے کاریگر ٹائپ وزیر، مشیر اور ترجمان بیٹھے ہوئے ہیں، جو اپنے پاؤں پر پانی تک نہیں پڑنے دیتے، جب جب ان سے مہنگائی کا سبب پوچھا جاتا ہے وہ خطے اور دنیا کے دیگر ممالک سے اشیاء کی قیمتوں کے موازنے کا چارٹ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں مگر جن ممالک کا ذکر وہ کرتے ہیں وہاں کی فی کس آمدنی کا ان کو پتہ ہے نہ دلچسپی۔ مشیران بے تدبیر سے درخواست ہے کہ پہلے عوام کی خوشحالی کو ان ممالک کے لیول پر لے جائیں تو پھر مہنگائی کا گلہ لوگ نہیں کریںگے مگر جو بندہ 10روپے کی روٹی نہیں خرید سکتا، اس کی قیمت 15روپے کر کے آپ اس کو تسلی دیتے ہیںکہ روٹی دوسرے ممالک میں اس سے بھی مہنگی ہے۔
یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔وزیروں، مشیروں کی فوج ظفر موج جس کا کام محض زبان کو حرکت میں رکھنا ہے۔ پتہ نہیں کس نام نہاد عالم اور دانشور نے ریاست مدینہ کا یہ خاکہ اور خدوخال عمران خان کو سمجھایا اور بتایا تھا؟
کاش وزیر اعظم ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے سے پہلے تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے، کسی پڑھے لکھے عالم سے رہنمائی لیتے۔ تب انھیں معلوم ہوتا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کن اصولوں پر ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی تھی۔ وزیر اعظم صاحب آج کل مراد رسول امیرالمومنین سیدناحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثالیں دے رہے ہیں مگر ان کو پتہ نہیں کہ جب خلافت کا بوجھ کندھوں پر آیا، تو راتوں کو اٹھ کر رعایا کی خبر گیری کرتے، اْن کی خدمت کرتے اور اْنہیں پتا بھی نہ چلتا کہ جو شخص رحمت کا فرشتہ بن کر رات کی تاریکیوں میں اْن کے دْکھوں کا مداوا کر رہا ہے۔
وہ کوئی اور نہیں، خود امیرالمومنین، عْمرؓبن خطاب ہیں۔آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ '' اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا یا بکری کا بچہ بھی بھوکا مر گیا، تو روزِ قیامت، عْمرؓ سے جواب طلب ہو گا۔'' اپنے دورِ خلافت میں عدل و انصاف کا ایسا نظام قائم کیا کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے لگے۔ ان کے دور میں غربت کا ایسا خاتمہ ہوا کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ہوتا تھا۔ کاش ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں بھی اﷲکا خوف پیدا ہوجائے وہ عوام کی زندگیاں اجیرن بنانے کے بجائے ان کی زندگیوں میں آسانیاں لائیں، اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر ریاست مدینہ کا نام لینے سے باز آجائیں ورنہ اس دنیا میں بھی اور بروز آخرت بھی پکڑ بہت سخت ہوگی۔