عناصر کیسے اور کہاں وجود پذیر ہوتے ہیں

ہم ان عناصر کے طفیل اس کائنات کا بہت چھوٹا سہی لیکن ایک جزو لاینفک Integral partہیں۔


عبد الحمید October 22, 2021
[email protected]

ہم اور ہماری دھرتی نظامِ شمسی کا ایک حصہ ہیں۔ اس دھرتی کے علاوہ وینس،مریخ،جیوپیٹر،نیپٹون اور پلوٹو وغیرہ سیارے (Planets)ہیں جب کہ سارے شمسی نظام میں صرف سورج ایک ستارہ ہے جس کے گرد سیارے گردش کرتے ہیں اور اسی سے زندگی کی رمق پاتے ہیں۔ زمین جن عناصر پر مشتمل ہے اور جن عناصر سے ہمارا حیوانی وجود بنا ہے، یہ ساری کائنات بھی انھی عناصر سے مل کر بنی ہے۔

اس طرح ہم پوری کائنات سے ایک مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کیونکہ ہم ان عناصر کے طفیل اس کائنات کا بہت چھوٹا سہی لیکن ایک جزو لاینفک Integral partہیں۔ بگ بینگ تھیوری کہتی ہے کہ ہماری کائنات ایک انتہائی زبردست دھماکے(Big Bang) کے ذریعے ایک اندازے کے مطابق 13.7 ارب سال پہلے وجود پذیر ہوئی۔

اس کائنات میں کئی سو ارب کہکشائیں اور ہر کہکشاں میں ارب ہا ستارے اور کھرب ہا سیارے ہیں۔یہ ستارے ہمیشہ سے آسمان میں موجود نہیں تھے اور نہ ہی ہمیشہ موجود رہیں گے۔کائنات کی زندگی ستاروں کی موت سے جڑی ہوئی ہے۔اگر ہم کائنات میں پائے جانے والے ستاروں کی موت وحیات سے آگاہی حاصل کر لیں تو ہمیں اپنی اور زمین پر پائی جانے والی ساری زندگی کی سمجھ آ سکتی ہے کیونکہ ہمارے وجود کاایک ایک ذرہ یعنی ایک ایک ایٹم یہاں زمین پر نہیں بلکہ کائنات کی وسعتوں میں کہیں اور ستاروں کےEpic life cycle کے آخری لمحات میں تیار ہوا ہے۔

ستارے پیدا بھی ہوتے ہیں اور موت سے بھی ہمکنار ہوتے رہتے ہیں۔ وہ جو ایک پاکستانی شاعر نے کہا ہے کہ روکا نہیں مصورِ فطرت نے مُو قلم شہہ پارہ بن رہا ہے ابھی،بن نہیں گیا۔تمام ستارے کسی نہ کسی نیبولا Nebulaمیںپیدا ہوتے ہیں۔ Nebulaکو ہم ستاروں کی جائے پیدائش اور نرسری کہہ سکتے ہیں۔ہر ستارہ اپنی پیدائش کے بعد ایک لمبے عرصے تک بڑے زور شور اور شان سے جلتا رہتا ہے اور روشنی دیتا ہے لیکن جب اس کا ایندھن ختم ہوتا ہے تو بھڑک کر ایک عظیم دھماکے کے ساتھ بکھر جاتا ہے۔زمین پر کوہ ہمالیہ پہاڑوں کا سب سے بڑا اور بلند سلسلہ ہے۔

یہ عظیم پہاڑوں کا سلسلہ چونے کے پتھر کی چٹانوں سے مل کر بنا ہے۔ چونے کے پتھرLime stone کا تجزیہ کریں تو یہ کورال جیسی مردہ سمندری مخلوق سے مل کر بنا ہے۔ کائناتی زندگی میں ایک وقت ایسا آیاکہ سمندر کے اندر خاص کر اس کی تہہ میں پائی جانے والی مخلوق بڑے پیمانے پر فنا سے دوچار ہو گئی۔ اس مردہ مخلوق پر بے پناہ دباؤ آیا اور یہ ایک دوسرے کے اندر دھنس کر،جُڑ کر چٹان کی شکل اختیار کر گئی۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوہِ ہمالیہ کی آسمان کو چھوتی چٹانیں کسی وقت زندہ مخلوق تھیں۔

اس سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زمین پر،پورے نظامِ شمسی اور کائنات میں ہر چیز بنیادی طور پر ایک جیسے مادے سے مل کر بنی ہے۔یہ مادہ زمین اور ساری کائنات میں پائے جانے والے کیمیکل عناصر Chemical Elements ہیں۔ان عناصر Elements کی کل تعداد 118ہے۔ان میں سے صرف92عناصر قدرتی حالت میں پائے جاتے ہیں۔

سبحان ربی الاعلیٰ کے اعداد بھی یہی ہیں۔کچھ کیمیا دانوں کا خیال ہے کہ عناصر کی تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔ بہرحال ہائیڈروجن،نائٹروجن،کاربن ،آکسیجن وغیرہ وہ عناصر،وہ بلڈنگ بلاکسBuilding Blocks ،وہ اجزائے ترکیبی ہیں جو مختلف طریقوں سے مل کر زمین پر اور کائنات کی وسعتوں میں ہر ستارے اور ہر سیارے کو زندگی مہیا کرتے ہیں۔چاند پر ہیلیم اور سلور کی بہتات ہے تو مریخ پر آئرن بہت ہے جو کلورین سے مل کر آئرن کلورائیڈ بناتا ہے جس کی وجہ سے مریخ کا رنگ سرخ دکھائی دیتا ہے۔ نیپٹون پر آرگینک مالیکیول میتھینMethene کی کثرت ہے۔

سورج کے بعد قریب ترین ستارہ Proxima Centauri زمین سے 4.2لائٹ ایئر دوری پر ہے۔ملکی وے کہکشاں سے پرے دوسری کہکشاں Andromida مزید 2.5 لائیٹ ایئر دوری پر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام اجرامِ فلکی ہمیں اپنے مخصوص رنگوں کے اخراج کے ذریعے مسلسل پیغام بھیج رہے ہیں کہ ہمیں تسخیر کرو،ہمارے ہاں فلاں فلاں عناصر کی بہتات ہے۔

ہر کیمیکل عنصر جلتے ہوئے مخصوص رنگ سے جلتا ہے جیسے تانبا جلنے پر نیلا رنگ،پوٹاشیم جلنے پر LILAC جب کہ سوڈیم جلتے ہوئے پیلے رنگ کا اخراج کرتی ہے۔انھی رنگوں کے اخراج قوسِ قزح کے طفیل ہمیں معلوم ہوا ہے کہ سورج پر 70فیصد ہائیڈروجن، 28 فیصد ہیلیم اور دو فیصد باقی عناصر موجود ہیں۔پول اسٹار یعنی قطبی ستارہ جو ہم سے 430لائیٹ ایئر دوری پر ہے، اس سے نکلنے والی روشنی کے رنگوں سے پتہ چلا ہے کہ اس میں سورج کے مقابلے میں کاربن تو کم ہے لیکن نائٹروجن زیادہ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کائنات کے یہ اجزائے ترکیبی، یہ بلڈنگ بلاکس جو کیمیکل عناصر کہلاتے ہیں کہاں سے آتے ہیں۔اس کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ سمجھنا پڑے گا کہ عظیم ترین دھماکے بگ بینگ کے فوراً بعد ابتدائی لمحات میں کیا ہوا۔آسٹروفزکس ماہرین کو یقین ہے کہ ابتدائی چند لمحات میں یہ کائنات بہت گرم اور انتہائی کثیف Hot n Denseتھی۔یہ اتنی گرم اور اتنی کثیف تھی کہ اب تک ہماری سائنس کے پاس اس کو بیان کرنے کا سلیقہ،زبان اور مکمل آگاہی نہیں ہے۔

ابتدا میں کل کائنات ایک یکساں بادل کی مانند تھی۔ ہم اس کو ایک Undifferenciated Cloudکا نام دے سکتے ہیں لیکن جیسے جیسے یہ کائنات ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی، یہ یکساں بادلCrystalکرسٹلز کی شکل میں جمنا شروع ہو گیا اور مختلف شکلیں ظاہر ہونا شروع ہو گئیں۔آپ اس کو کسی بہت بڑے انتہائی گرم چشمے جو ایک گیزر کی شکل میں اُبل رہا ہو، اس کے کنارے کھڑے ہو کر تجربے میں لا سکتے ہیں۔ انتہائی گرم پانی جب بھاپ کی شکل میں بلند ہوگا تو اس کی کوئی مخصوص شکل نہیں ہو گی۔یہ بھاپ بادل کے روپ میں ہر طرف بکھر کر عجیب نظارہ دے گی۔آپ اس بھاپ کے نزدیک شیشہ لے جائیں تو یہی بھاپ شیشے کو گیلا کر دے گی اور ٹھنڈا ہونے پر شیشے کی سطح پر کرسٹلز نمودار ہونا شروع ہو جائیں گے۔

ان کرسٹلز کی مخصوص شکل و صورت ہو گی۔بگ بینگ کے بعد یہی کچھ ہوا۔ابتدائی لمحات میں ٹھنڈا ہونے پر Undifferenciated CloudکیPerfect Symmetryٹوٹ گئی۔یہی وہ لمحہ تھا جب اس بادل کے Sub Atomic Particleنے کمیت Mass حاصل کرنی شروع کی۔یہ کائنات کی زندگی میں پہلا موقع تھا کہ کوئی چیز Substanceوجود میں آنا شروع ہوئی۔ اس سبسٹانس میں Quarksنے جنم لیا۔جیسے جیسے کائنات ٹھنڈی ہوتی گئی یہ Quarks بڑی اور پیچیدہ شکل اختیار کر کے پروٹان Protonاور نیوٹران Neotron بن گئے۔یہی پروٹان اور نیوٹران ایٹم کے قلب یعنی نیوکلیس کے اجزائے ترکیبی ہیں اور ابتدائی لمحات سے لے کر اب تک ہمارے ساتھ ہیں۔ ہر عنصر کے قلب یعنی نیوکلیسNucleusمیںجتنے پروٹان ہوں گے وہی اس عنصر کا اٹامک نمبر ہو گا۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں