اصلی مہنگائی کے خلاف جعلی اقدامات

کوئی حکومت کو سمجھائے گا کہ اگر وہ اسی طرح بجلی مہنگی کرتے جائیں گے تو ٹارگٹڈ سبسڈی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔


مزمل سہروردی October 22, 2021
[email protected]

وزیر اعظم نے مہنگائی سے نبٹنے کے لیے ٹارگٹد سبسڈی دینے کے اعلانات کیے ہیں۔ ایک طرف ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے اعلانات ہیں دوسری طرف فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی دور روپے مزید مہنگی کرنے کی خبریں بھی شایع ہوئی ہیں۔

کوئی حکومت کو سمجھائے گا کہ اگر وہ اسی طرح بجلی مہنگی کرتے جائیں گے تو ٹارگٹڈ سبسڈی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ فائدے سے زیادہ نقصان ہی ہوگا۔ اس لیے میری حکومت سے گزارش ہے کہ عوام کو مزید بیوقوف بنانے کی کوشش نہ کریںکیونکہ عوام کی بس ہو گئی ہے۔

حکومت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جب وہ بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھاتی جائے گی تو ٹارگٹڈ سبسڈی کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ آج لوگوں کی آمدن کا بڑا حصہ یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ حکومت جس طرح آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس چکی ہے، اس سے نہیں لگتا کہ مائی باپ آئی ایم ایف اس حکومت کو کسی بھی قسم کی ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کی بھی اجازت دے گا۔ تا ہم اجازت مل بھی گئی تو یہ گناہ بے لذت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

اگر روزانہ ڈالر اوپر جائے گا تو کیا اس کے نتیجے میں مہنگائی نہیں ہوگی۔ کب حکومت کو احساس ہوگا کہ روپے کی قدر اس طرح گرنے کی حکمت عملی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ جب روزانہ روپے کی قدر میں کمی ہوگی تو روزانہ مہنگائی ہو گی۔اس صورتحال میں بھی ٹارگٹڈ سبسڈی کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، وہ ضا یع ہو جائے گی، اس کی ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکیں گے۔

اس کی ایک مثال آجکل پٹرول کی قیمت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومت پٹرول پر ماضی کی نسبت کم ٹیکس لے رہی ہے۔ لیکن پٹرول کی قیمت میں اس قدر اضافہ کر دیا گیاہے کہ لوگ کم ٹیکس کی وصولی کا کریڈٹ حکومت کو دینے کے لیے تیار نہیں۔ لوگ پٹرول کی قیمت دیکھتے ہیں اور حکومت پر غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔ کیا حکومت کو اندازہ ہے کہ اگر وہ پٹرول کی قیمت مزید بڑھائے گی تو اس سے مزید کتنی مہنگائی ہوگی۔ اگر ایک طرف پٹرول مہنگا ہوتا جائے تودوسری طرف حکومت کی سبسڈی ہو تو لوگ مطمئن نہیں ہوںگے۔

حکومت کی طرف سے ایک تجویز سامنے آئی ہے کہ موٹر سائیکل رکشہ اور پبلک ٹرانسپورٹ کو سستا پٹرول دیا جائے۔ مجھے یہ تجویز ناقابل عمل لگتی ہے۔ حکومت کیسے ہر ایک پٹرول پمپ پر حساب رکھے گی کہ پٹرول موٹر سائیکل میں ڈلوایا گیا ہے کہ گاڑی میں ڈلوایا گیا ہے۔ یہ کیسے حساب رکھا جائے گا کہ موٹر سائیکل کم آمدنی والے کا ہے یا زیادہ آمدنی والے کا ہے۔

پھر کیا موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوانے کی بھی کوئی حد مقرر کی جائے گی، روزانہ کتنا پٹرول کم قیمت پر ملے گا اور کتنا پٹرول پھر زیادہ قیمت پر لینا ہوگا۔ پٹرول پمپ والے کیسے ریکارڈ رکھیں گے کہ کون کتنا پٹرول لے گیا ہے اور کیوں وہ کم قیمت پٹرول گاڑیوں میں ڈال کر منافع نہیں کمائیں گے۔ اس سے بھی حکومت کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ بلکہ ملک میں چور بازاری اور کرپشن کا ایک اور راستہ کھل جائے گا۔ آپ اصلی مہنگائی کو مصنوعی طریقوں سے کنٹرول نہیں کر سکتے۔ اصلی مہنگائی کو اصلی اقدامات سے ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

حکومت کو کب احساس ہو گا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے نے بھی لوگوں کے گھریلو بجٹ پر بہت منفی اثرات ڈالے ہیں۔ پاکستان میں جوائنٹ فیملی سسٹم ہیں۔ ہر غریب گھر میں بزرگ ہوتے ہیں۔ ان کی ادویات کے بل میںسو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جو کم آمدنی والے کے لیے ہر روز مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ اسی لیے ہیلتھ کارڈ کے وہ نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔

مہنگی ادویات نے بھی غریب کی کمر توڑ دی ہے۔ ادویات نے غریب اور متوسط طبقہ کے بجٹ پر جو اثرات ڈالے ہیں اس کا شاید حکومت میں بیٹھے لوگوں کا احساس نہیں ہے۔اسی لیے ٹارگٹڈ سبسڈی جیسے مصنوعی اور ناقابل عمل منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔

وفاقی حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ مہنگائی کرنے والے تمام بڑے اسباب اس کے کنٹرول میں ہیں۔ اس کی جانب سے صوبائی حکومتوں پر یہ دباؤ کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کریں، غلط ہے۔ جب مہنگائی وفاقی حکومت کر رہی ہے تو اسے کنٹرول کرنے کے اقدامات بھی اسے ہی کرنا ہوںگے۔ بجلی،گیس، پٹرول،ادویات سمیت سب کچھ وفاقی حکومت مہنگی کرے اور صوبائی حکومتیں اسے سستا کیسے کریں۔ صوبائی حکومتوں کے پاس کونسی جادو کی چھڑی ہے کہ وفاقی حکومت کی مہنگی کی ہوئی چیزیں وہ اپنے اپنے صوبوں میں سستی کر لیں۔

اتنے کمیشن اور انکوائریوں کے باجود حکومت آج تک چینی تو سستی کرنہیں سکی ہے۔ جہانگیر ترین کو کلین چٹ مل گئی ہے وہ ای سی ایل سے بھی نکل گئے۔ ایف آئی اے نے عدالت میں بیان بھی دے دیا کہ ان کی انھیں کوئی ضرورت نہیں۔ آجکل لندن کی سیر بھی کر رہے ہیں۔ لیکن چینی سستی نہیں ہوئی۔ حکومت نے بہت کریڈٹ لینے کی کوشش کی کہ ہم نے چینی مافیا سے ٹکر لے لی ہے۔ لیکن آپ عام آدمی سے پوچھیں، وہ کہے گا سارے چینی مہنگی کرنے والے حکومت میں بیٹھے ہیں۔ چینی سستی کیسے ہوگی۔

پاکستان کا عام آدمی آج بھی مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہے۔ حکومت نے سرکاری چینی اسٹورز پر رکھی ہے جو نوے روپے کلو ہے اور اس کا معیار اتنا برا ہے کہ لوگ اس کو خرید کر بھی حکومت کو نیک نامی نہیں دے رہے۔ نوے روپے میں ناقص چینی بھی حکومت کے لیے بدنامی کا ہی باعث ہے۔ وفاقی حکومت جتنی پریس کانفرنس کر لے کہ آٹا سندھ کی وجہ سے مہنگا ہے، لوگ نہیں مانتے۔ لوگ آپ کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں، اس لیے وفاقی حکومت ذمے داری منتقل کرنے کی جس حکمت عملی پر کام کرنا چاہتی ہے، وہ بھی ناکام ہی ہوگی۔

زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ بھی مہنگی بجلی، ڈیزل اور مہنگی کھاد ہے۔ کسان نے کوئی پیسے نہیں کمائے۔ کسان بھی مہنگائی سے متاثر ہے۔ ڈی اے پی میں اضا فہ تو دیکھیں۔ ایسے میں زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ فطری عمل ہے۔ جب تک حکومت بجلی، ڈیزل، کھاد، یوریا، ڈی ای پی سستی نہیں کرے گی، زرعی اجناس کیسے سستی ہو سکتی ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ یہ روزانہ صوبائی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے سے نہ تو پہلے کوئی نتیجہ سامنے آیا ہے اور نہ ہی اب آئے گا۔ دودھ کیوں مہنگا ہو رہا ہے۔

جب جانوروں کا چارا مہنگا ہوگا تو دودھ بھی مہنگا ہوگا۔ پٹرول مہنگا ہو گا تو دودھ بھی مہنگا ہوگا۔ صوبائی حکومتیں اس میں کیا کریں۔ عمران خان کو اس مہنگائی کی ذمے داری خود لینا ہوگی۔ یہ مہنگائی ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوئی ہے اور وہی اس کے ذمے دار ہیں۔ اس لیے ٹارگٹڈ سبسڈی سے کچھ نہیں ہوگا۔ مہنگائی یکساں کی گئی اس کو یکساں ہی کم کر نا ہوگا یہی واحد حل ہے۔ باقی سب عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش ہے جس کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں