غزل
اک ذرا آنکھ اٹھائی ذرا سرگوشی کی
اور توقیر بڑھا دی مری خاموشی کی
خوشبوئیں لے کے خبر شہر میں پھیلی ہوئی ہیں
تتلیوں اور گلابوں کی ہم آغوشی کی
خاک شاعر کہ نہیں جس نے پیا جامِ شعور
خاک مصرع کہ وہ جس کے لیے مے نوشی کی
ان کو گرویدہ بنانے کا ملا حکم مجھے
جن کی تاریخ ہے احسان فراموشی کی
سونت کر پھرتا ہے تلوار نہتوں میں جو شخص
جلد ہی اس کو ضرورت ہے زرہ پوشی کی
اگر احساس نہیں تھا مری موجودگی کا
کیوں خبر عام ہوئی شہر میں روپوشی کی
اختیارات سنبھالے ہی نہیں ہیں جاذبؔ
اور افواہ ہے منصب سے سبکدوشی کی
(اکرم جاذب۔منڈی بہائوالدین)
۔۔۔
غزل
ترے جنوں کے کہیں حوصلے نہ گھٹ جائیں
اے دوست کیوں نہ ابھی راستے سے ہٹ جائیں
ترے خمار میں آئے ہیں ایسی نہج پہ ہم
جو تیرا خواب نہ دیکھیں تو آنکھیں پھٹ جائیں
ہم ایسے لوگ جنہیں خامشی نے مارا ہے
صدا لگاتے ہوئے خوف سے سمٹ جائیں
میں رفتگان کو رکھتا ہوں یاد اس لئے بھی
مجھے یہ ڈر ہے مرے رابطے نہ کٹ جائیں
ہمارے پاس خسارے ہیں اور کچھ بھی نہیں
انہیں بتا دو ابھی وقت ہے پلٹ جائیں
(طارق جاوید ۔کبیر والا)
۔۔۔
غزل
بے ساختہ لگ کر ترے سینے سے کسی دن
برتیں گے محبت کو قرینے سے کسی دن
اک شعلۂ نمناک کو اس دل میں ہوا دے
چمکے تری پوشاک پسینے سے کسی دن
یہ میری شرافت جو تجھے راس نہیں ہے
تُو مل مرے اندر کے کمینے سے کسی دن
اے دوست یہ اچھا ہے کہ اب کود ہی جاؤں
میں تیرے تغافل کے سفینے سے کسی دن
اندیشۂ ظلمت سے یہ دل کانپ گیا تھا
یوں شام اترنے لگی زینے سے کسی دن
یہ محتسبِ شہر کو معلوم ہے یاورؔ
ہم باز نہیں رہتے ہیں پینے سے کسی دن
(یاور عظیم۔رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
بھلے روزوشب دیکھتے ہیں تجھے
طلب یوں ہے کب دیکھتے ہیں تجھے
یہ دنیاوی عشق و محبت نہیں
یقیں مان رب دیکھتے ہیں تجھے
نظر پانچ دریائوں کو گر چھوئے
کہیں جاکے تب دیکھتے ہیں تجھے
عجم دیکھتے ہیں زمانے کا حسن
اور اس پہ عرب دیکھتے ہیں تجھے
میری زندگی کا تمہی ہو سبب
نہیں بے سبب دیکھتے ہیں تجھے
فقط میں ہی دیکھوں سو یہ روئے بند
ہے لازم کہ سب دیکھتے ہیں تجھے
ہو معراجِ بوسہ چاہ ِزقن
کہ حسرت سے لب دیکھتے ہیں تجھے
سحر ؔتیری پہلے اتاریں نظر
نظر بھر کے جب دیکھتے ہیں تجھے
(سحر شیرازی۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
ناؤ ڈوبی ہے جب سے پانی میں
کچھ بچا ہی نہیں کہانی میں
مجھ کو اک لہر اس کنارے تک
لے گئی اپنی بیکرانی میں
رکھ دیا اس نے پھر اٹھا کے مجھے
ایک شب طاق ِآسمانی میں
ہم نے پایا ہے اس نگہ کا راز
لوگ الجھے رہے معانی میں
تھوڑی تلخی بھی ساتھ رہتی ہے
اس محبت کی خوش گمانی میں
اک ستارہ بھی ساتھ ٹوٹ گیا
رات اک رنجِ ناگہانی میں
پیڑ جڑ سے جدا نہیں کرنا
مر نہ جاؤں میں لا مکانی میں
میری چپ سے وہ خوب واقف ہے
لاکھ شکوے ہیں بے زبانی میں
اپنے ہاتھوں سے اس کو کھو بیٹھی
فوزی ؔپاگل تو بد گمانی میں
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
مجھے یہ علم نہیں ہے کہ کیا کروں گا میں
مگر کروں گا تو سب سے جدا کروں گا میں
وہ جس کے نام پہ سب نعمتیں تمام ہوئیں
اسی کے نام سے ہر ابتدا کروں گا میں
کسی سرائے میں مجھ کو قیام کرنا نہیں
تمہارے دل کو فقط راستہ کروں گا میں
کروں گا میں ترا دیدار اک دریچے سے
پھر اس کے بعد خدا جانے کیا کروں گا میں
جو دن گزارے، گزارے مخالفت میں تری
تو جا چکا ہے تو حق میں دعا کروں گا میں
(مقیل بخاری۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
پھرتا ہے بے قرار عدو مجھ کو مار کے
میں مطمئن نہیں ہوا تھا جنگ ہار کے
فکرِ معاش کھا رہی ہے مجھ کو، اور تُو
یہ چاہتا ہے گیت لکھوں میں بھی پیار کے
مجھ سے کلام کر کہ مری سانسیں چل پڑیں
چپ چاپ کیوں کھڑا ہے سرہانے مزار کے
ہم لوگ تجربات کے قابل نہیں بنے
ہم بے سبب بنائے گئے کُن پکار کے
رختِ سفر اٹھائے، میں تنہا نکل پڑا
کب تک بھلا کوئی سُنے گا طنز یار کے
شاید ہمارے بخت میں یہ لکھ دیا سفیرؔ
روتے رہیں گے سامنے پرورد گار کے
(زید شیر سفیر۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
سفر کے بیج سواری اداس ہو جائے
کہ جب کبھی بھی وہ پیاری اداس ہو جائے
میں اس کلام کا مطلع ہوں جس کے آخر میں
اداس لکھ کے لکھاری اداس ہو جائے
مجھے گوارا ہے مرنا مگر گوارا نہیں
وہ خوش مزاج شکاری اداس ہو جائے
میں جس کے شہر میں آیا ہوں اس کے در سے کبھی
نہیں مجال بھکاری اداس ہو جائے
کہ اس کے طرز کو دنیا غلط سمجھتی ہے
بس ایک لمحہ کنواری اداس ہو جائے
( نوشاداکبر۔ لیہ)
۔۔۔
غزل
دلوں کے بھید کھلیں سچ سے آشنائی ہو
کہ جھوٹی قید سے مولا مری رہائی ہو
نہیں گر ان سے ملاقات میری قسمت میں
تو کم سے کم مجھے دہلیز تک رسائی ہو
بچھڑ کے مجھ سے یقیناً وہ خون تھوکے گا
خدایا بیچ میں حائل نہ اب جدائی ہو
وہ انتہائے محبت کو چھو نہیں سکتا
کہ خلوتوں میں جسے فکر ِپارسائی ہو
مرے عزیز میں خاموش اس لیے بھی رہا
میں چاہتا ہی نہیں تھا کہ جگ ہنسائی ہو
یہ رازِ دنیا بڑی دیر سے کھلا مجھ پر
وہ معتبر ہے یہاں جس میں خود نمائی ہو
(آفتاب مہدی جتوئی ۔ مظفر گڑھ)
۔۔۔
غزل
میں نے اب تک جتنی آنکھیں دیکھی ہیں
ان میں تیری پہلی آنکھیں دیکھی ہیں
اس کو کیا معلوم ہو میرے غصے کا
اس نے اب تک پیار کی آنکھیں دیکھی ہیں
میں انکاری تھا تو وہ ہنس کر بولی
جھوٹے تم نے اپنی آنکھیں دیکھی ہیں!
ساری چیزیں کالے رنگ کی لیتا ہوں
جس دن سے وہ کالی آنکھیں دیکھی ہیں
رات کے ایک بجے ہیں سب سوئے ہوں گے
لیکن جس نے تیری آنکھیں دیکھی ہیں!
جھیل سی آنکھوں والی تجھ کو کیا معلوم
میں نے اس سے اچھی آنکھیں دیکھی ہیں
ان آنکھوں کا پوچھنے والے یہ بتلا
کچے خواب سے جاگی آنکھیں دیکھی ہیں؟
(محسن ظفر ستی۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
اسی لیے تو جگہ جگہ سے کٹا ہوا ہے
وہ پیڑ ہے اور غلط جگہ پر لگا ہوا ہے
تم اس کی آنکھوں کو دیکھتے ہو سو یہ بتاؤ
وہ کتنا خالی ہے اور کتنا بھرا ہوا ہے
کسی کے ہاتھوں میں ہاتھ دیتے ہوئے یہ سوچا
یہ کس کا حصہ تھا اور کس کو عطا ہوا ہے
میں اس علاقے میں رہ نہ پاؤں گا سوچتا تھا
پر اب یہ پنڈی مر ی رگوں میں بسا ہوا ہے
(محمد طلال۔ باغ آزاد کشمیر)
۔۔۔
غزل
رخ سے تھوڑا ہٹا کے بالوں کو
چومنے دے نظر سے گالوں کو
دور کر دے یہ تشنگی دل کی
آج دے بھر کے لب کے پیالوں کو
چار سُو دل میں اب اداسی ہے
لے گیا کون ان اجالوں کو
آخری سانس تک ترا رشتہ
کیسے حاصل رہا خیالوں کو
آپ کے دل میں اٹھ رہے ہیں جو
حل کریں تو ذرا سوالوں کو
نورؔ سب سے نہ رکھ امیدِ وفا
دیکھ خود سے خراب حالوں کو
(حضرت نور تنہا۔ کراچی)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی