ہم پیچھے کیوں رہ گئے
حقیقت کو شاید ہی اب کوئی تسلیم نہ کرتا ہوکہ ہمارا ملک ترقی کی دوڑ میں دنیا کے ملکوں سے کافی پیچھے رہ گیا ہے۔
آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی اولین شرط ہے کہ حقائق سے روگردانی نہ کی جائے۔ حقائق تلخ اور شیریں دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ ہم عموماً تلخ حقائق کو نظر انداز کرنے کا رویہ اپناتے ہیں، جو لوگ تکلیف دہ سچائیوں کو اجاگرکرتے ہیں انھیں مایوس ذہن اور سوچ کا مالک قرار دیا جاتا ہے۔
اب تو حالات اس نہج تک آگئے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کے ازالے کا مشورہ دینے والوں کی حب الوطنی تک پر شک کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس طرح کے لوگ ملک میں مایوسی پھیلا کر ملک دشمن قوتوں کے عزائم کی تکمیل کررہے ہیں۔
اس حقیقت کو شاید ہی اب کوئی تسلیم نہ کرتا ہوکہ ہمارا ملک ترقی کی دوڑ میں دنیا کے ملکوں سے کافی پیچھے رہ گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں میں ہم بہت آگے ہوا کرتے تھے۔ اب صورت حال بدل چکی ہے۔ خطے کے ملک کافی آگے نکل چکے ہیں اور ہم معاشی بحران اور تنزلی سے باہر نکلنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ کیا ہمیں ان اسباب ، عوامل اور حقائق پر غور نہیں کرنا چاہیے جن کے باعث ہم اس افسوس ناک صورت حال سے دوچار ہیں؟
اس حوالے سے مجھے آج ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم بہت یاد آرہے ہیں جن کے نظریوں اور مشوروں پر دنیا کے بہت سے ملکوں نے عمل کیااور بے مثال ترقی کی۔ ہماری روایت سی بن گئی ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز افراد اور ادارے غیر معمولی ذہن رکھنے والوں کی قدر نہیں کرتے جب کہ دنیا ان سے خوب فائدہ اٹھاتی ہے۔
ڈاکٹر محبوب الحق نے دنیا کی اعلیٰ ترین جامعات سے تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے ملکوں کی ترقی کو جانچنے کا ایک ایسا نیا پیمانہ وضع کیا جس پر آج پوری دنیا میں عمل کیا جاتا ہے۔ اس کلیے کو'' انسانی ترقی کا اشاریہ ، یعنی ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک ترقی کا پیمانہ محض یہ نہیں کہ کوئی ملک کتنا امیر ہے بلکہ دیکھا یہ جانا چاہیے کہ کسی بھی ملک میں تعلیم ، صحت ، اوسط عمر اور سماجی فلاح کی صورتحال کیا ہے۔
جب 1997 میں ان کے کلیے کا اطلاق کیا گیا تو معلوم ہوا کہ کینیڈا کے مقابلے میں امریکا بہت دولت مند ملک ہے لیکن کینیڈا انسانی ترقی کے اشاریوں کے حوالے سے امریکا سے زیادہ ترقی یافتہ اور امیر ملک ہے۔ کیونکہ وہاں کے لوگوں کو صحت ، تعلیم، روزگار، رہائش وغیرہ کی زیادہ سہولتیں حاصل ہیں اور ان کی اوسط عمر بھی عام امریکی سے زیادہ ہوتی ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کا پیمانہ اتنا موثر اور درست ثابت ہوا کہ اب اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال ''ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ'' شایع کی جاتی ہے جس سے اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ مختلف ممالک اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کو کتنی ترجیح دیتے ہیں اور اپنی قومی آمدنی کا کتنا حصہ عوام کی ترقی اور فلاح پر خرچ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محبوب الحق نے پاکستان میں '' پنج سالہ منصوبہ '' کا تصور متعارف کرایا جس کے بہترین نتائج سامنے آئے۔ تاہم، ہماری حکومتوں نے اس کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ کوریا نے اس پر عمل کرکے معاشی معجزہ رونما کردیا۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے پاکستان میں معاشی اصلاحات متعارف کرائیں جن پر پاکستان میں نیم دلی سے عمل کیا گیا لیکن 1991 میں ہندوستان میں من موہن سنگھ کی حکومت نے ان کو اپنا کر عمل درآمد کا آغازکیا جسے آیندہ آنے والی ہر حکومت نے جاری رکھا اور اس حکمت عملی کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔
ہندوستان دنیا کی 5 ویں بڑی معیشت بن چکا ہے، اس کی معیشت کی شرح نمو بھی بہت زیادہ بلند ہے۔ بنگلہ دیش نے بھی ان اصلاحات کو متعارف کرایا اور آج اس کی معیشت پاکستان سے آگے نکل چکی ہے۔ انسانی ترقی کے ساتھ معاشی اصلاحات کا شاندار امتزاج بنگلہ دیش میں دیکھا جاسکتا ہے۔ انسانی اور معاشی ترقی کے تمام اشاریوں میں بنگلہ دیش آج ہم سے کہیں آگے جاچکا ہے۔
ڈاکٹر محبوب الحق اس نظریے کے پرجوش حامی تھے کہ وسائل کو جنگ کا ایندھن بنانے کے بجائے انسانی ترقی پر خرچ کرنا چاہیے۔ انھوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان اور پاکستان کو باہمی کشیدگی ختم کردینی چاہیے اور اسلحے کی دوڑ میں اپنے قیمتی وسائل کو ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ ایک بڑے ماہر معاشیات ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر محبوب الحق یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ جنوبی ایشیا کے غریب ملک غربت ، پس ماندگی اور جہالت کی دلدل سے کس طرح باہر نکل سکتے ہیں۔ انھوں نے تقریباً تین دہائی پہلے کے اعداد و شمار کے ذریعے بعض تلخ حقائق کو اجاگر کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کل تمام پس ماندہ ممالک کو جنوبی کوریا بننے کا شوق ہو رہا ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جنوبی کوریا ہر سال اپنی آبادی کے ہر فرد کی بنیادی تعلیم پر تقریباً 130 ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ ملائیشیا تعلیم پر سالانہ 128 ڈالر فی کس خرچ کررہا ہے اور اگر اس کا موازنہ جنوبی ایشیا کے ممالک سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان اپنی آبادی کے ہر فرد کی بنیادی تعلیم پر سالانہ 9 ڈالر، پاکستان 3 ڈالر اور بنگلہ دیش 2 ڈالر فی کس کے حساب سے خرچ کررہے ہیں۔ اپنے دور کے معاشی عالمی منظر نامے کو سامنے رکھ کر ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان جنوبی ایشیا کے پس ماندہ ممالک کی صف اول میں شامل ہیں جب کہ ترقی پذیر دنیا کے دوسرے کئی ملک تیزی سے ترقی کے سفر پر گامزن ہیں۔
حتیٰ کہ سب صحارا کے پس ماندہ افریقی ممالک بھی بعض شعبوں میں جنوبی ایشیا سے آگے نکل گئے ہیں۔ ان افریقی ممالک میں خواندہ افراد کی تعداد 55 فی صد ہے جب کہ جنوبی ایشیا میں مجموعی شرح خواندگی 47 فی صد ہے۔ جنوبی ایشیا کے 80 کروڑ باشندے صحت و صفائی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ جنوبی ایشیا میں 38 کروڑ افراد ناخواندہ ہیں اور 30 کروڑ انسان نل کے بجائے جوہڑ کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سماجی محرومی اور انسانی مایوسی کی صورت حال ناقابل یقین حد تک ابتر ہے۔
ڈاکٹر محبوب الحق ایک سچے پاکستانی اور درد مند دل رکھنے والے انسان تھے۔ انھوں نے جنوبی ایشیا کے غریب عوام کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے اپنے قلم سے زبردست جہاد کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا اصرار تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو سیاسی عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تعلقات کو معمول پر لانا چاہیے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کو آگے بڑھ کر اس خطے کو مایوسی، غربت اور محرومی کی دلدل سے نکالنا چاہیے۔ اس ضمن میں سارک کی تنظیم ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ سارک ممالک کو ایک معاہدے کے ذریعے فیصلہ کرنا چاہیے کہ ان میں سے ہر ملک اپنے دفاعی بجٹ میں سالانہ 5 فی صد کمی کرکے یہ رقم اپنے ملک کی تعلیم اور صحت کے شعبے میں خرچ کرے گا۔
'' ٹائمز آف انڈیا '' میں شایع ہونے والے اپنے مضمون میں ڈاکٹر محبوب الحق نے لکھا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتیں سیاچن کی برف پوش چوٹیوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ایک دن میں ایک ملین ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ ان بے مقصد اخراجات کا فائدہ ؟ کیوں نہ دونوں ملک اپنی اپنی فوج برف پوش چوٹی سے چند میل نیچے بلالیں اور اس مسئلے کے حل کے لیے میز پر بیٹھ جائیں تب ہی کچھ رقم بچائی جاسکے گی۔
دونوں ملکوں کے موجودہ سیاسی نظام میں شاید ان تجاویز پر ٹھنڈے دل سے غور و فکر کی زیادہ گنجائش موجود نہیں کیونکہ ایسی تجاویز قبول کرنے کے لیے عقل اور تدبر جیسی خصوصیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یقینی طور پر دونوںملکوں کے انتظامی ڈھانچے میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جن کا مفاد موجودہ صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے میں مضمر ہے۔
ڈاکٹر محبوب الحق کے افکار اور معاشی تصورات سے ترقی پذیر ملکوں نے خوب فائدہ اٹھایا لیکن کتنا بڑا المیہ ہے کہ دنیا کے اس غیر معمولی معیشت دان کا تعلق جس ملک سے تھا وہ اس سے فیض حاصل نہیں کرسکا۔ یہ المیہ بھی ان تلخ حقائق میں شامل ہے ، جنھیں تسلیم کرنے سے ہم گریزاں ہیں۔