نچلی سطح پراختیارات کی منتقلی کے بغیر فیڈریشن مضبوط نہیں ہو سکتی ایکسپریس فورم

افسرشاہی سے خطرہ،موثربلدیاتی نظام کیلیے قومی اتفاق رائے ناگزیر،مارچ یااپریل میں الیکشن ہونگے،ندیم قریشی،سعدیہ سہیل


18ویں ترمیم کے بعدصوبوں کو اختیارات منتقل ہوئے مگر نچلی سطح تک نہیں پہنچے، پروفیسر ارشد مرزا ،محمد تحسین، امجد مگسی۔ فوٹو: ایکسپریس

ہماری سیاسی جماعتیں نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے گھبراتی ہیں،انھیں سمجھنا چاہیے کہ مضبوط مقامی حکومتوں کے بغیر فیڈریشن مضبوط نہیں ہوسکتی لہٰذا مضبوط اور موثر بلدیاتی نظام قائم کرنے کیلیے صحیح معنوں میں نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی یقینی بنانا ہوگی اور مقامی حکومتوں کو افسر شاہی سے آزاد کرنا ہوگا۔

سول سوسائٹی بلدیاتی نظام کی آگاہی اور ایڈوکیسی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے قومی سطح پر اتفاق رائے قائم کیا جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس کا حصہ بنایا جائے،ان خیالات کا اظہار حکومت، سیاسی تجزیہ نگاروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ''مقامی حکومتوں کے نظام میں سول سوسائٹی کا کردار'' کے موضوع پرمنعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔

پارلیمانی سیکریٹری برائے انفارمیشن و کلچر پنجاب ندیم قریشی نے کہا کہ یہ درست ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کو افسر شاہی سے خطرہ ہے مگر ہماری سیاسی اشرافیہ بھی طاقت کی نچلی سطح تک منتقلی سے گھبراتی ہے لہٰذا بلدیاتی نظام میں بڑی رکاوٹ حکومتی سوچ ہوتی ہے جو نچلی سطح پر اختیارات نہیں دینا چاہتی۔

چیئرپرسن اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ایکسائز و ٹیکسیشن پنجاب سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ صفائی ستھرائی و دیگر بنیادی کام مقامی حکومتوں کے کام تھے مگر اس کے لیے باہر کی کمپنیوں کو پیسے دیے گئے اور جب معاہدہ ختم ہوا تو کوڑا اٹھانا چیلنج بن گیا۔ ہماری سیاسی جماعتیں نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے گھبراتی ہیں کیونکہ ہمارے سیاستدان طاقت حاصل کرنے کیلئے ہی اقتدار میں آتے ہیں۔

نمائندہ سول سوسائٹی محمد تحسین نے کہا کہ مقامی حکومتوںکا نظام ہماری زندگیوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ماضی میں بلدیاتی نظام سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ کونسلرز خود لوگوں کے شناختی کارڈز کا اندراج کرواتے تھے، نکاح، طلاق و اس طرح کے دیگر معاملات علاقے میں ہی ہوجاتے تھے۔

سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر امجد مگسی نے کہا کہ بلدیاتی نظام کی موجودہ حالت کی ذمہ دار ہماری سیاسی جماعتیں ہیں،2002ء کے بلدیاتی نظام کے بعد سے دیکھا جائے تو اب تک 3 بڑی سیاسی جماعتیں برسر اقتدار آچکی ہیں مگر انہوں نے بلدیاتی نظام کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔

نمائندہ سول سوسائٹی پروفیسر ارشد مرزا نے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا کہ کیا ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کے مسائل ان کی دہلیزپر حل ہوں؟ لوگوں کے نمائندے ان کی قسمت کا فیصلہ کریں؟ مقامی حکومتیں سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر بااختیار ہوں؟ لوگوں کی تربیت ہو اور مقامی سطح سے نئی قیادت پیدا ہو؟ مقامی سطح پر بلدیاتی نظام کو مضبوط کریں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں