کیمیکل جو موت کا پیغام بن رہے ہیں

روزمرہ استعمال کی ان گنت اشیا میں پائے جانے والے صحت دشمن کیمیائی مادوں کا معلومات افروز احوال


سید عاصم محمود October 31, 2021
روزمرہ استعمال کی ان گنت اشیا میں پائے جانے والے صحت دشمن کیمیائی مادوں کا معلومات افروز احوال۔ فوٹو: فائل

این وائی یو لینگون ہیلتھ(NYU Langone Health)امریکی شہر نیویارک میں واقع جدید طبی تحقیق کا مشہور ادارہ ہے۔

ادارے میں پروفیسر لیونارڈ ٹرسنڈین امراض اطفال، ماحولیاتی اور انسانی صحت کے ماہر ہیں۔پچھلے دنوں ان کی زیرنگرانی ہوئی ایک تحقیق نے امریکا میں خاصی ہلچل مچا دی۔

اس رپورٹ نے انکشاف کیا کہ تھلیٹس ( phthalates)نامی مصنوعی کیمیکل ہر سال ایک لاکھ سے زائد امریکیوں کی جانیں لے لیتے ہیں۔جبکہ لاکھوں بچوں اور بڑوں کو بیمار کر ڈالتے ہیں۔اس چشم کشا طبی تحقیق کے بعد امریکا اور یورپ میں عوام اپنی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تھلیٹس کے استعمال پہ پابندی عائد کر دی جائے۔

انسان ساختہ کیمیائی مادے
پچھلے پچاس ساٹھ برس کے دوران دنیا بھر میں رنگ برنگ بیماریاں وجود میں آ چکیں۔ماہرین طب کی رو سے ان کے پیدا ہونے کی مختلف وجوہ ہیں۔مثال کے طور پہ ضرورت سے زیادہ کھانا، حرکت میں بہت کمی آ جانا، غذائیت بخش کھانے نہ کھانا اور نیند پوری نہ لینا۔اب طبی تحقیق سے انکشاف ہو رہا ہے کہ انسان ساختہ کیمیکل کا بھی امراض جنم دینے میں اہم کردار ہے۔پچھلے پچاس سال سے انسان کی روزمرہ زندگی میں کئی اقسام کے مصنوعی کیمیکل داخل ہو چکے۔یہ عام اشیا سے لے کر غذا میں شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت امراض قلب دنیا میں سب سے زیادہ انسانوں کی جان لیتے ہیں۔اس کے بعد فالج، امراض تنفس، پیدایشی بیماریوں اور دیگر امراض مثلاً کینسر، ذیابیطس ،موٹاپے وغیرہ کا نمبر آتا ہے۔اب جدید طبی سائنس انکشاف کر رہی ہے کہ یہ سبھی بیماریاں جنم دینے میں مصنوعی کیمیکل بھی کچھ نہ کچھ کردار ادا کرتے ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ خاص طور پہ جب انسانی جسم میں مصنوعی کیمیکل بڑی تعداد میں جمع ہو جائیں تو وہ ہمارے سبھی نظاموں میں گڑبڑ پیدا کر دیتے ہیں۔گویا جب انسان کے بدن میں مسلسل یہ مصنوعی کیمیکل داخل

ہوتے رہیں تو وہ آخر کار کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔جیسے انسان مسلسل سگریٹ پیتا رہے تو اس کے پھیپھڑے گل سڑ جاتے ہیں۔اسی طرح کیمیکل انسانی جسم میں جمع ہوتے رہیں تو انسان کا کوئی نہ

کوئی قدرتی نظام خراب ہو جاتا ہے۔یہی خرابی پھر نیا مرض پیدا کر ڈالتی ہے۔

بنیاد خام تیل
انسان ساختہ مصنوعی کیمیکلوں میں ایک اہم گروہ ''تھیلٹس'' کہلاتا ہے۔یہ کیمیکل تھالک تیزاب(phthalic acid)سے بنتے ہیں۔تھالک تیزاب بذات خود نفتھاتھلین( naphthalene) یا آرتھوزیلین( ortho-xylene) نامیاتی مرکبات سے بنایا جاتا ہے۔اور خود یہ دونوں مرکب خام تیل (آئل) سے بنتے ہیں۔گویا تھلیٹس کیمیکلز کی بنیاد خام تیل ہے۔ چونکہ خام تیل انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے، اسی لیے اس سے بنی اشیا بھی انسانی صحت پر مضر اثرات ضرور مرتب کرتی ہیں۔

عالمی سطح پہ صنعتوں میں تھلیٹس کا بطور پلاسٹائزر( plasticizers) استعمال عام ہے۔مطلب یہ کہ یہ کیمیکل پلاسٹکس سے بنائی گئی اشیا میں شامل کیے جاتے ہیں۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اشیا لچک دار،صاف شفاف اور مضبوط ہو سکیں۔تھلیٹس پی وی سی ( polyvinyl chloride )کو نرم کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ پی وی سی پلمبنگ،الیکٹریکل انسولیشن،چمڑے کی مصنوعات تیار کرنے ،فلورنگ اور کئی دیگر چیزیں بنانے میں مستعمل ہے۔

دنیا بھر میں انسان روزانہ ایسی کئی اشیا استعمال کرتے ہیں جن کی تیاری میں تھلیٹس برتی جاتی ہیں۔اسی لیے انھیں ''ہر جگہ ملنے والے کیمیکل'' (Everywhere chemicals) کا خطاب مل چکا۔مگر ان کیمیائی مادوں کی خرابی یہ ہے کہ آہستہ آہستہ اپنے ذرات خارج کرتے رہتے ہیں۔یہی ذرات اگر انسانی جسم میں مجتمع ہو جائیں تو مختلف طبی خلل اور امراض پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔

پاکستان کی نسبت امریکا میں قوانین پہ سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔وہاں تمام کارخانے اور صنعتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں۔پاکستان میں قوانین پہ عموماً عمل نہیں ہوتا۔اور کسی بھی طرح پیسا کمانے کو انسانی بھلائی پہ ترجیح دی جاتی ہے۔اس باعث پاکستان میں مختلف اشیا کی تیاری میں تھیلٹس عام استعمال ہوتے ہیں۔چناں چہ یہ مصنوعی کیمیکل ہر سال لاکھوں ہم وطنوں کی جانیں لے رہے ہیں۔مرنے والوں اور ان کے لواحقین کو عام طور پر پتا ہی نہیں چل پاتا کہ تھلیٹس مقتول کی موت کے ذمے دار ہیں۔

صنعتی شعبے میں مستعمل
تھلیٹس کے گروہ میں پچیس چھبیس کیمیکل شامل ہیں۔بعض بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔دیگر کا استعمال کم ہے۔ہر کیمکل شدت و تیزی میں مختلف ہے۔چونکہ ان کیمیکلوں کی تعداد کافی زیادہ ہے، اس لیے تقریباً ہر صنعتی شعبے میں مستعمل ہیں۔مثلاً دوائیں تیار کرتے ہوئے ان کے اوپر جو کوٹنگ کی جاتی ہے، اس میں تھلیٹس استعمال ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں کروڑوں لوگ غذائیت بخش ادویہ کھاتے ہیں۔ان میں تھیلٹس گاڑھا پن کنٹرول کرنے کی خاطر شامل کیے جاتے ہیں۔جیل(Gel)کی تیاری میں انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔

گوند،کیڑے مار ادویہ،عمارتیں بنانے کا میٹریل،میک اپ اشیا(یعنی نیل پالش، موائسچر، ہئیر اسپرے، پرفیوم وغیرہ)، صابن اور کپڑے دھونے کا پائوڈر، پیکنگ میں استعمال ہونے والا میٹریل،بچوں کے کھلونے،دیواروں پہ ہونے والا پینٹ، سیاہی (انک)، ڈبہ بند غذائیں،ملبوسات، ٹائلیں، غذائیں لپیٹنے والی فلم... ان تمام مصنوعات کی تیاری میں تھیلٹس مصنوعی کیمیکل مستعمل ہیں۔یہ الیکٹرونکس اشیا اور میڈیکل آلات میں بھی ملتے ہیں۔

ایک رپورٹ کی رو سے ہر سال دنیا میں75لاکھ ٹن تھیلٹس تیار کیے جاتے ہیں۔ پلاسٹک سے بنی اشیا میں 10سے 60فیصد حصہ انہی کیمیکلز کا ہوتا ہے۔بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ان پلاسٹک اشیا سے تھلیٹس کے ذرات رفتہ رفتہ الگ ہو کر ماحول یعنی مٹی،ہوا اور پانی میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔

یہ کیمیکل پھر ناک،کان اور منہ کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔مثلاً سانس لینے سے یا غذا میں شامل ہو کر۔بچے اکثر اشیا چھو کر منہ میں انگلیاں ڈالتے ہیں۔اس لیے ان کے بدن میں بکثرت تھیلٹس جمع ہو سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے،یہ کیمیکل سب سے زیادہ بچوں کے لیے خطرناک ہیں۔ویسے بھی ان کا نظام مامون(immune system)سب سے کمزور ہوتا ہے اور وہ سبھی مصنوعی کیمیکلوں کے مضر اثرات کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔اس باعث وہ جلد بیمار ہو جاتے ہیں۔

پروفیسر لیونارڈ ٹرسنڈین نے اپنی تازہ ترین تحقیق سے یہ تشویش ناک نتیجہ نکالا ہے کہ جس انسان کے جسم میں تھیلٹس کی مقدار زیادہ ہو جائے، وہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو کر جلد مر سکتا ہے۔آج ہم پاکستانی معاشرے میں بھی دیکھ رہے کہ ادھیڑ عمر تو ایک طرف، نوجوان بھی اچھے بھلے صحت مند ہوتے ہیں کہ اچانک بیمار پڑ کے چل بستے ہیں۔ ان کی موت سبھی کو ہکّا بکّا کر دیتی ہے۔ایسی اچانک اموات جنم دینے میں تھیلٹس کا کردار ہو سکتا ہے۔

پچھلے دس برس کے دوران دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور طبی مراکز سے منسلک ماہرین نے تحقیق کی ہے کہ تھیلٹس انسانی جسم کے کن کن نظاموں اور اعضا پہ مضر اثرات ڈالتے ہیں۔ان تحقیقات کے نتائج درج ذیل

ہیں۔

چربی کا کردار
جدید تحقیق سے افشا ہو چکا کہ انسان کے جسم میں چربی یا چکنائی(fat)اور کولیسٹرول کا جمع ہونا انتہائی نقصان دہ ہے۔اسی خرابی سے دل کی بیماریاں،ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسے موذی امراض جنم لیتے ہیں۔

ماہرین نے تجربات و تحقیق سے جانا ہے کہ تھیلٹس میں شامل کئی کیمیکل انسانی بدن میں چربی اور کولیسٹرول جذب کرنے کا نظام خراب کر دیتے ہیں۔اس خرابی کے بعد ہمارا جسم زائد چربی اور کولیسٹرول سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتا۔زیادہ چربی پھر انسان کو موت کے منہ میں لے جانے والی بیماریوں میں گرفتار کرا دیتی ہے۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب انسانی جسم میں تھیلٹس کی مقدار زیادہ ہو جائے تو وہ ہمارے جسم میں چربی ذخیرہ کرانے والے نظام پہ قبضہ کر لیتے ہیں۔ وہ پھر اسے ہدایت دیتے ہیں کہ جسم میں چربی جمع کرتے

رہو... انسان چاہے جتنی مرضی حرکت کرے یا ورزش کرتا رہے۔یہی وجہ ہے، بہت سے مردوزن دن میں مسلسل حرکت کرتے رہتے ہیں پھر بھی موٹے دکھائی دیتے ہیں۔ایسے مردوزن میں دراصل چربی ذخیرہ کرنے والا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ اور دور جدید میں اس خرابی کے ذمے دار تھیلٹس ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے، شریانوں اور وریدوں میں جب چربی جم جائے تو یہ خون کا بہائو متاثر کرتی ہے۔اسی خرابی سے پھر دل اور شریانوں کی طبی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔جب دل میں خون پہنچانے والی شریانوں میں چربی جمع

ہو جائے اور کبھی خون کے بہائو میں رکاوٹ آئے تبھی ہارٹ اٹیک انسان کو آ دبوچتا ہے۔بعض اوقات یہ کیفیت جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔

ذیابیطس
انسان جب کھانا کھائے تو معدے کے تیزاب غذا کو شکر(شوگر)میں بدل دیتے ہیں۔یہ شکر پھر خون میں شامل ہونے لگتی ہے۔تب ہمارا جسم ایک ہارمون، انسولین خارج کرتا ہے۔اس ہارمون کے حکم پہ جسمانی خلیے شکر استعمال کرنے لگتے ہیں تاکہ توانائی پیدا کر سکیں۔

ذیابیطس مرض میں ہمارا بدن مطلوبہ انسولین نہیں بنا پاتا یا پھر انسولین اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کر پاتی۔ چناں چہ شکر خون میں بدستور موجود رہتی ہے۔اگر یہ کیفیت مسلسل رہے تو انسان کئی بیماریوں کا نشانہ بن جاتا ہے جیسے امراض قلب،گردے کی بیماریاں اور بینائی کا متاثر ہونا۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ انسانی جسم میں تھلیٹس کی کثرت ہو تو وہ پتے سے انسولین کا اخراج متاثر کرنے لگتے ہیں۔تب مصنوعی کیمیکلز کی بدولت پتہ کم انسولین خارج کرتا ہے۔ انسولین کی مقدار کم ہونے سے خون میں شکر موجود رہتی ہے اور انسان ذیابیطس اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔چونکہ بڑی عمر کے مردوزن کے بدن میں تھلیٹس زیادہ ہوتے ہیں لہذا وہی ذیابیطس کا زیادہ شکار بھی بنتے ہیں۔

ہائی بلڈ پریشر
دل کی نالیوں اور شریانوں میں چربی جمع ہونے سے ہی ہائی بلڈ پریشر یا ہائپرٹینشن کے طبی خلل بھی انسان کو چمٹ جاتے ہیں۔اس کیفیت میں دل کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔جبکہ دل معمول کے مطابق خون پمپ کرتا رہتا ہے۔چونکہ خون کو سکڑی نالیوں سے گذرنے کا راستہ کم ملتا ہے لہذا نالیوں کی دیواروں پہ دبائو بڑھ جاتا ہے۔یہ کیفیت پھر انسان میں درد وسوزش کی کیفیات پیدا کرتی اور ہائی بلڈ پریشر کہلاتی ہے۔

جب ہائی بلڈ پریشر مسلسل رہے تو انسان نہ صرف دل کی بیماریوں میں مبتلا ہوتا بلکہ اس پہ فالج بھی گر سکتا ہے۔اس کیفیت میں مبتلا مردوزن سانس لینے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ان کے سر میں درد رہنے لگتا ہے۔اکثر نکسیر پھوٹ جاتی ہے۔چونکہ انسانی جسم میں چربی اور شکر کی مقدار بڑھانے میں تھیلٹس کا کردار عیاں ہو چکا لہذا ہائی بلڈ پریشر بھی یہی کیمکل پیدا کر سکتے ہیں۔

نظام مامون
کورونا وائرس پھیپھڑے خراب کر کے سانس کا مرض پیدا کرتا ہے۔امراض تنفس دنیا میں انسان کو قبر میں اتارنے والی چوتھی بڑی بیماریاں ہیں۔یہ امراض بنیادی طور پر کمزور مامون نظام کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔

ہمارے بدن میں مختلف اقسام کے انسان دوست خلیے اور سالمات ہمیں خطرناک جراثیم،وائرسوں اور دیگر مضر صحت خرد نامیات سے بچاتے ہیں۔ان خلیوں و سالمات کا نیٹ ورک مامون نظام کہلاتا ہے۔تحقیق سے پتا چلا ہے کہ انسانی جسم میں اگر تھیلٹس اور دیگر کیمیکل کی کثرت ہو جائے تو وہ مامون نظام سے منسلک خلیے اور سالمے مار ڈالتے ہیں۔چناں چہ مامون نظام کمزور ہو کر جراثیم اور وائرسوں کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔

گویا پچھلے پچاس برس سے کیمکلوں کے ماحول میں زندگی گذارنے کی وجہ سے انسان کا مامون نظام مسلسل کمزور ہو رہا ہے۔یہی وجہ ہے، جب کورونا وائرس امریکا سے لے کر چین تک انسانوں میں پھیل گیا تو اسے کہیں مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔اس نے ہر جگہ خوفناک تباہی مچا دی۔گویا تھیلٹس اور دوسرے کیمیکلز نے وائرس کو کھل کھیلنے کا موقع عطا کر دیا۔

افرازی نظام
ہمارے جسم میں مختلف غدود اور اعضا ہارمون خارج کرتے ہیں۔یہ پورا نظام ''افراز سسٹم''(Endocrine system)کہلاتا ہے۔غدہ درقیہ(thyroid) اور غدہ برگردہ(adrenals)اس کے اہم رکن ہیں۔ان کے علاوہ ہماری ہڈیاں، گردے،دل ،جگر اور اعضائے تولید بھی متفرق ہارمون خارج کرتے ہیں۔پیدائش سے لے کر موت تک یہ ہارمون انسان کی نشوونما کرتے اور ہمیں صحت مند رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

افرازی نظام میں کوئی گڑبڑ ہو جائے تو انسان کی صحت متاثر ہوتی ہے۔کئی جدید طبی تحقیقات سے منکشف ہو چکا کہ تھیلٹس اس نظام کو خاص طور پہ نشانہ بناتے ہیں۔وہ خصوصاً تولیدی اعضا سے ہارمونوں کا اخراج کم یا زیادہ کر دیتے ہیں جو جسم میں متفرق اہم فعل انجام دیتے ہیں۔اس باعث نشوونما پاتے لڑکے لڑکیوں کی بڑھوتری پہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔وہ درست طریقے سے بالغ نہیں ہو پاتے اور ان میں کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی ہے۔حتی کہ بعض بچوں میں تولیدی اعضا صحیح طریقے سے نہیں بن پاتے۔جبکہ تولیدی ہارمونوں کا توازن بگڑنے کی وجہ سے بالغ مرد وخواتین میں جنسی رویّہ بدل جاتا ہے۔ان میں خواہش بہت کم رہ جاتی ہے۔

مختلف تجربات اور تحقیق سے یہ بھی افشا ہوا کہ تھیلٹس کی وجہ سے دنیا بھر کے مردوں میں بانجھ پن بڑھ رہا ہے۔یہ کیمیکل ان میں تولیدی مادے کی افزائش کم کر دیتے ہیں۔نیز اس کی کوالٹی بھی خراب کر ڈالتے ہیں۔اسی باعث تھیلٹس سے زیادہ متاثر مرد بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔مردانہ و نسوانی تولیدی اعضا پہ تھیلٹس اور دیگر انسان ساختہ کیمیائی مادوں کے پورے اثرات جاننے کی خاطر دنیا بھر میں تحقیقات جاری ہیں۔

بعض تجربات سے افشا ہوا ہے کہ یہ کیمیکل خواتین کے تولیدی نظام پر بھی منفی اثر پیدا کرتے ہیں۔مثال کے طور پہ پچھلے چند عشروں سے دنیا بھی میں لڑکیاں جلد جوان ہونے لگی ہیں۔جدید تحقیق سے افشا ہوا ہے

کہ گرم غذا کی فراوانی اور آزادانہ ماحول عام ہونے کے علاوہ تھیلٹس جیسے انسان ساختہ کیمیائی مادے کے بہت زیادہ استعمال ہونے سے بھی اس تبدیلی نے جنم لیا۔گویا یہ کیمیکل مرد وعورتوں میں تولیدی ہی نہیں بلوغت پانے کا نظام بھی خراب کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے، اب ماضی کی نسبت جلد بچے بچیاں نوجوان ہو جاتے ہیں۔یاد رہے، بچپن اور لڑکپن میں لڑکے لڑکیوں میں تولیدی ہارمونوں کی افزائش بہت کم ہوتی ہے۔مگر تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ دور جدید کی قباحتوں کے باعث ان میں ہارمونوں کی افزائش بڑھ رہی ہے۔ ابھی تک اس تبدیلی کے منفی عواقب پوری طرح سامنے نہیں آئے۔

تولیدی بیماریاں
یہ واضح رہے کہ انسان میں افرازی نظام اور اس سے منسلک تولیدی سسٹم بہت حساس نوعیت کے ہیں۔یہی وجہ ہے، مصنوعی کیمیائی مادوں کی وجہ سے ان میں تھوڑی سی بھی تبدیلی آ جائے تو صحت وتندرستی کا قدرتی نظام بگڑ جاتا ہے۔ اسی خرابی کی وجہ سے دنیا بھر میں بستے مردوں اور خواتین کے افرازی و تولیدی نظام میں ایسی خرابیاں جنم لے رہی ہیں جو پہلے زمانے میں عنقا تھیں۔انھیں پیدا کرنے میں مصنوعی کیمیکلز کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

پولی سسٹک اووری سائنڈروم(Polycystic Ovary Syndrome) لڑکیوں میں جنم لینے والے ایک طبی خلل ہے۔یہ خلل چمٹ جانے سے لڑکی میں تولیدی ہارمونوں کا فطری نظام گڑبڑا جاتا ہے اور وہ مرادانہ ہارمون، اینڈروجن زیادہ بنانے لگتا ہے۔اس خرابی کے باعث لڑکی کے چہرے پہ بال نکل آتے ہیں۔ماہورای باقاعدہ نہیں رہتی۔اور شادی کے بعد وہ حاملہ نہیں ہو پاتی۔تحقیق سے پتا چلا ہے کہ تھیلٹس کی وجہ سے لڑکیوں میں یہ سنگین طبی خلل جنم لینے کی شرح بڑھ رہی ہے۔انسان کے ماحول میں پائے جانے والے دیگر مصنوعی کیمیائی مادے بھی یہ خلل پیدا کرنے کے ذمے دار ہیں۔

اینڈومیٹریوسیس(Endometriosis)خواتین سے مخصوص ایک اور بیماری ہے۔اس میں رحم کے استر کو جنم دینے والی بافتیں بیض دانی اور فیلوپی ٹیوبوں پر بھی نمودار ہونے لگتی ہیں ۔یہ ایک غیر قدرتی عمل ہے۔اس مرض میں ماہواری تکلیف سے آتی ہے اور عورت بانجھ بھی ہو سکتی ہے۔تحقیق سے منکشف ہوا ہے کہ جب سے روزمرہ زندگی میں تھلیٹس کا استعمال بڑھا ہے، پہلے کے مقابلے میں خواتین کی اکثریت اس بیماری میں مبتلا ہونے لگی ہے۔

زمانہ حمل میں تبدیلیاں
امریکا اور یورپ میں ماہرین طب نے اس امر پہ تحقیق کی ہے کہ دوران حمل تھیلٹس پرورش پاتے بچوں کی نشوونما پر کس قسم کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ان تحقیقات سے بھی تشویش ناک نتائج سامنے آئے۔معلوم ہوا کہ جن خواتین کے بدن میں تھیلٹس اور دیگر مصنوعی کیمیائی مادوں کی مقدار زیادہ ہو، ان کے بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں۔نیز ان میں حمل کا دوارنیہ بھی بڑھ جاتا ہے جو ایک غیر فطری بات ہے۔

مختلف تجربات سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ تھیلٹس اور دیگر کیمیکل لڑکوں کے جسم میں زیادہ جمع ہو جائیں تو ان میں جلد بلوغت لے آتے ہیں۔جبکہ یہ کیفیت زمانہ حمل میں نر بچے میں کرپٹورچڑڈزم (Cryptorchidism)طبی خلل پیدا کر دیتی ہے۔اس خلل میں مبتلا لڑکے بچے پیدا نہیں کر پاتے۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ساٹھ ستر سال پہلے دنیا کے لڑکوں میں یہ طبی خلل جنم لینے کی شرح 1سے 3فیصد تھی۔آج 7سے 10فیصد لڑکے اس کا نشانہ بننے لگے ہیں جو ایک فکرانگیز تبدیلی ہے۔

ہائپوسپاڈیاس(Hypospadias) مردوں سے مخصوص ایک طبی خلل ہے۔اس طبی کیفیت میں مثانے سے پیشاب لانے والی ٹیوب کا راستہ بدل جاتا ہے اور قدرتی حالت میں نہیں رہتا۔یہ غیر فطری کیفیت حمل کے دوران ہی جنم لیتی ہے۔دنیا بھر میں پیدا ہونے والے ہر 250بچوں میں سے ایک بچے کو یہ حالت متاثر کرتی ہے۔یہ خرابی سرجری سے درست کرنا پڑتی ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ ہمارے ماحول میں انسان ساختہ کیمیائی مادوں کے بڑھتے دخل کی وجہ سے اب زیادہ بچے اس طبی خلل میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔خاص طور پہ جن مائوں کے بدن میں تھلیٹس کی مقدار زیادہ ہو، ان میں دوران حمل بچے کو کوئی نہ کوئی پیدائشی بیماری چمٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

زمانہ حمل کے دوران بچے کی دماغی نشوونما پر بھی تھیلٹس اثرانداز ہوتے ہیں۔چناں چہ ان کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں میں دماغی خلل پیدا ہوسکتے ہیں۔مثال کے طور پہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جن بچوں کے ماں باپ کے جسموں میں تھیلٹس کی مقدار زیادہ ہو، ان کے بچے جارحانہ اور غصیلا مزاج رکھتے ہیں۔وہ جوان ہو کر ڈپریشن کے مریض بن جاتے ہیں۔عموماً معاشرہ دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں۔

ایک تحقیق سے افشا ہوا کہ ماں میں اگر تھیلٹس کی مقدار زیادہ ہو تو اس کی بیٹیاں جارحانہ مزاج کی حامل ہوتی ہیں۔تاہم اس کے بیٹوں میں یہ کیفیت نہیں پائی گئی۔یہ انکشاف بھی ہوا کہ جن والدین کے بدن میں تھیلٹس زیادہ ہوں، ان کے بچوں کا آئی کیو لیول کم ہوتا ہے۔گویا وہ کم ذہین ہوتے ہیں۔نیز وہ کسی بات پہ توجہ مرکوز نہیں کر پاتے۔ان کا موڈ آسانی سے خراب ہو جاتا ہے۔وہ اجنبیوں سے بات چیت کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔

ماہرین طب اب تحقیق کر رہے ہیں کہ تھیلٹس بالغ مردوزن پہ کس قسم کے نفسیاتی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ابتدائی نتائج نے منکشف کیا ہے کہ جن بالغوں میں تھلیٹس کی زیادتی ہو، وہ عموماً چھوٹے چھوٹے مسائل سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ان میں صبر وبراشت کامادہ کم ہوتا ہے۔وہ عام طور پہ مثبت نہیں منفی رویّہ دکھاتے ہیں۔

درقیہ کے امراض
درقیہ ہمارے جسم کا ایک اور اہم غدہ ہے۔یہ تین ہارمون خارج کرتا ہے جو ہمارے جسم میں مختلف افعال انجام دیتے ہیں۔ان کی تفصیل یہ ہے:
نظام استحالہ (metabolic system) میں یہ ہارمون حرارے (کیلوریز) جلانے میں جسم کی مدد کرتے ہیں۔اسی لیے پورے بدن کی بافتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہمیں بھوک لگنا، کھانے کا ہضم ہونا، اور آنتوں کو صحت مند رکھنا...ان تمام افعال میں یہ ہارمون حصہ لیتے ہیں۔ان کی مدد ہی سے آنتیں کھانا بہ آسانی ہضم کرتی ہیں۔نیز خلیے کھانے سے پیدا ہوئی شکر جذب کرتے ہیں۔درقیہ کے ہارمون چربی تحلیل کرنے میں جسمانی نظام کی مدد کرتے ہیں۔اور کولیسٹرول کی سطح کم کرنے میں بھی کام آتے ہیں۔

یہ ہارمون دل کے عضلات مضبوط بناتے ہیں۔اس باعث ہمارے دل کی دھڑکن میں بہتری آتی ہے۔سانس لینے میں بھی انسان کے مددگار بنتے ہیں۔ان کی مدد سے آکسیجن انسانی جسم میں آسانی سے جذب ہوتی ہے۔اس طرح خون کی روانی میں رکاوٹ نہیں آتی اور جسم کا درجہ حرارت معمول پہ رہتا ہے۔

غدہ درقیہ کے ہارمون انسان کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پلتے بڑھتے بچے بچیوں کے قد میں میں اضافہ کرتے ہیں۔انسانی دماغ کے خلیوں کو تندرست وتوانا بناتے ہیں۔جدید تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ زمانہ حمل اور زندگی کے ابتدائی چند برسوں تک بچے کی دماغی نشوونما میں درقیہ کے ہارمون سرگرمی سے حصّہ لیتے ہیں۔

یہ ہارمون انسان میں تولید کی صلاحیت برقرار رکھتے ہیں۔نیند لانے میں معاون بنتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ جس انسانی جسم میں درقیہ کے ہارمون زیادہ تعداد میں بننے لگیں تو انسان میں کثرت سے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔تاہم وہ اس حالت میں توجہ مرکوز کرنے کی کچھ صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔خواتین میں خواہش اور ماہواری کے اعمال پہ یہ ہارمون کافی اثرانداز ہوتے ہیں۔

پچھلے دس سال کے دوران تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ اگر انسانی جسم میں تھلیٹس کی زیادتی ہو تو درقیہ سے ہارمونوں کے اخراج کا قدرتی نظام متاثر ہو جاتا ہے۔کبھی ہارمون ضرورت سے زیادہ بننے لگتے ہیں۔کبھی ان کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے۔یہ قدرتی نظام بگڑنے سے انسان مختلف عوارض کا نشانہ بن جاتا ہے۔ مثلاً اس کا موڈ خراب رہنے لگتا ہے۔ڈپریشن بھی حملہ آور ہوتا ہے۔ہاتھ پیر میں درد رہتا ہے۔انسان اگر درقیہ کے مسائل کی وجہ سے ایسی علامات کا شکار ہو تو اس خرابی کی وجہ تھیلٹس ہو سکتے ہیں۔

تھیلٹس سے بچاؤکے طریقے
خوش قسمتی سے انسان جب تھیلٹس والی اشیا استعمال کرنا چھوڑ دے تو یہ کیمیکل رفتہ رفتہ جسم سے نکل جاتے ہیں۔چناں چہ ان کیمیائی مادوں سے بچنے کے گر درج ذیل ہیں۔
٭...پلاسٹک والے ڈبوں کے بجائے گلاس،سرامک،اسٹین لیس اسٹیل یا لکڑی کے ڈبوں میں غذائیں محفوظ کریں۔یہ ممکن نہ ہو تو غذا پہلے ٹھنڈی کر لیں۔پھر پلاسٹک ڈبوں میں محفوظ کیجیے۔
٭...پلاسٹک برتن پہ رکھ کر کوئی غذا مائکروویو اوون میں گرم نہ کریں۔اس طرح پلاسٹک میں شامل تھیلٹس پگھل کر غذا میں شامل ہو جاتے ہیں۔
٭...غیر خوشبو دار صابن، لوشن اور کپڑے دھونے والے ڈیٹرجنٹ استعمال کریں۔
٭...ڈبہ بند غذائوں کے بجائے تازہ سبزیاں و پھل کھائیے۔
٭...وقتاً فوقتاً ہاتھ دھوئیے تاکہ کیمیکل دھل جائیں۔
٭...ایسے ائر ریفریشنر نہ خریدیں جن پہ لیبل 3، 6اور 7 لکھا ہو۔ان میں تھلیٹس ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔