سعودی مالی اعانت اور روپے کی قدر

اعلان کے ساتھ ہی روپے نے ڈالر کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اپنی قدر ڈھائی روپے بڑھا لی۔



ISLAMABAD: ڈالر کی مسلسل سینہ زوری نے معیشت کو لرزہ براندام کر رکھا تھا۔ روپے کے قدم روز بہ روز کمزور ہوتے چلے جا رہے تھے۔

اغیار جوکہ ڈالر کو چند ہفتوں میں ہی 180 روپے فی ڈالر لانا چاہتے تھے، ان کا یہ خواب چکنا چور ہو کر رہ گیا، کیونکہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب جس کا پاکستان کے ساتھ دیرینہ برادرانہ اور مذہبی رشتہ ہے نے حسب روایت حکومت کے ساتھ زبردست مالی تعاون کرتے ہوئے 4 ارب20 کروڑ ڈالر کی مالی اعانت کا اعلان کیا۔

اس اعلان کے ساتھ ہی روپے نے ڈالر کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اپنی قدر ڈھائی روپے بڑھا لی ، اس طرح ایک ڈالر 172.78کا ہو گیا۔ دوسری طرف ڈالر کی مسلسل اڑان سے شے پا کر سونا فی تولا ایک لاکھ 32 ہزار روپے کا ہو چکا تھا۔ سونے کے بڑھتے نرخ سن کر ان لاکھوں غریب والدین کے چہروں پر مایوسی اور لبوں پہ خاموشی طاری ہوچکی تھی۔ جنھوں نے جلد ہی اپنی بیٹیوں کو ڈولی پہ بٹھانا تھا۔ سونے کی فی تولہ قیمت سعودی مالی اعانت کے باعث ڈالر ریٹ کے کم ہونے سے 8 ہزار روپے فی تولہ کم ہو کر رہ گئی۔

سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو 3 ارب ڈالر نقد اور ایک ارب 20کروڑ ڈالر کا تیل فراہم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستانی کرنسی پر اتنے بہتر مثبت اثرات مرتب ہوئے کہ مسلسل پرواز کرتے ہوئے ڈالر کو شدید جھٹکا پہنچا اور روپے کی قدر میں 2.49 روپے کا اضافہ ہوا۔

سعودی عرب کے اس اعلان نے کہ 3 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو منتقل کرنے کے علاوہ سالانہ 1.2 ارب ڈالر کا تیل موخر ادائیگیوں پر فراہم کرے گا یعنی ہر ماہ 10 کروڑ ڈالر کا ادھار تیل پاکستان کو فراہم کیا جائے گا معیشت کو ڈھارس پہنچائی۔

اب ہم اسی تناظر میں پاکستان کی پٹرولیم گروپ کے درآمدی بل کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان جوکہ سعودی عرب، یو اے ای، کویت وغیرہ سے سالانہ 13 یا 14 ارب ڈالرز کا کروڈ آئل اور دیگر پٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے۔ اس سہولت کے باعث اس کے بل پر ماہانہ بنیادوں پر بوجھ کم ہوگا۔

اس وقت دنیا میں تیل کی قیمتوں کے بڑھنے کے باعث اور دیگر اجناس و اشیا نیز غیر ضروری درآمدات بمعہ اشیائے تعیشات وغیرہ کی درآمدات کے باعث پاکستان کا درآمدی بل مہنگائی کے جن کی طرح بے قابو ہو چکا ہے۔ چند اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں تاکہ بات واضح ہو سکے۔

2019-20 کا کل درآمدی بل 44 ارب 55 کروڑ 29 لاکھ ڈالرز تھا جو اگلے مالی سال 2020-21 میں بڑھ کر 56 ارب 40 کروڑ 50 لاکھ 54 ہزار ڈالرز تک پہنچ گیا۔ اب صرف 3 ماہ کا امپورٹ بل تقریباً پونے انیس ارب ڈالر کا ہو چکا ہے۔

حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر تک ہیں جب کہ راقم کے خیال میں عالمی مارکیٹ میں پٹرول، اجناس، خوراک اور دیگر بہت سی اشیا کی قیمت بڑھنے کے باعث پاکستان کا سالانہ درآمدی بل 75 ارب ڈالر سے کم یا قدرے زیادہ ہو سکتا ہے،کیونکہ اس اندازے کو سب سے زیادہ سپورٹ پٹرولیم گروپ کی بڑھتی ہوئی مالیت کے اعداد و شمار فراہم کر رہے ہیں۔

پی بی ایس کی سہ ماہی رپورٹ جولائی تا ستمبر 2021 کے مطابق ان 3 ماہ کے دوران پاکستان کی پٹرولیم گروپ کی کل درآمدات کی مالیت 4 ارب 59 کروڑ29 لاکھ 50 ہزار ڈالرز کی رہیں۔ یہ صرف 3 ماہ کا بل ہے جب کہ پاکستان میں کروڈ آئل کی درآمدات اور دیگر پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکی کھپت بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اب بڑے شہر تو کیا پاکستان کی کوئی ایک مصروف شاہراہ ایسی نہیں ہے جہاں ٹریفک معمول سے بڑھ کر نہ ہوگیا ہو۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں شدید اضافے نے ملک بھر میں ٹرانسپورٹ کرایوں کو عوام کی پہنچ سے دور کردیا ہے۔ پہلے مال برداری کے لیے سستا ترین ذریعہ پاکستان ریلوے ہوا کرتا تھا۔ دانستہ یا نادانستہ اس سستے ذریعے کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے ، چونکہ کرائے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ لہٰذا پاکستان ریلوے کو مال برداری کے سسٹم کو سستا، فعال اور مزید تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔

جس میں مال گاڑیوں کو تیز تر بنانے کے ساتھ وقت پر منزل پر پہنچانے کا نظام درست کرنا ضروری ہے۔ پاکستان ریلوے جوکہ ملک کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی اسے فوری بحال کیا جائے، لیکن یہاں کچھ اور ہی خدشات نظر آ رہے ہیں کیونکہ رواں مالی سال میں ریلوے کا ایم ایل ون منصوبے پر کام شروع ہونا تھا۔ کراچی تا پشاور ریلوے منصوبے کو شروع کرنے میں مزید تاخیر ہونے کے باعث حکومت آیندہ مالی سال اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے، حکومت اس پر نظرثانی کرے، رواں مالی سال کے ابھی 4 ماہ ہی گزرے ہیں۔

لہٰذا متعلقین، حکام، ذمے داران کو اگلے تین یا چار ماہ میں اپنی تیاری مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اسی سال کے ششماہی کے بعد اس کا افتتاح کردیا جائے۔ آخر گزشتہ کئی عشروں سے ریلوے کو ترقی دینے کی بات کی جا رہی ہے، چین کے بھرپور تعاون کے ساتھ یہ منصوبہ شروع کیا جانا تھا۔

منصوبہ جوکہ پہلے ہی کافی دیر کے بعد اس پر عملدرآمد ہونا تھا 2014 میں سی پیک معاہدے کے فوری بعد پاکستان ریلوے کو زبردست ترقی دینے کی ضرورت تھی۔ سفر کا دورانیہ کم سے کم کرنے کی ضرورت تھی۔ مال گاڑیوں کی رفتار کو زیادہ تیز تر بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ لوگوں کو سامان کی ترسیل کا سستا اور قابل اعتبار ذریعہ فراہم کیا جاسکے۔ اس سے ملکی معاشی ترقی کو مزید تیز ہونے اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے کا موقع فراہم ہوگا۔

اب یہ ہو رہا ہے کہ کوئی تاجر لاہور، گوجرانوالہ سے سامان بذریعہ ٹرک کراچی منگوانا چاہتا ہے تو ٹرک کا کرایہ سن کر ہی تذبذب کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے ، اگر سامان منگوانا ہے تو زیادہ کرایہ کے باعث سامان کی لاگت بڑھ کر مہنگی ہوکر رہ جاتی ہے۔ لہٰذا بہت سے تاجروں کا کہنا ہے کہ اب اس طرح کاروبار کرنا مشکل ہوکر رہ گیا ہے۔

لہٰذا ملکی شرح ترقی میں اضافہ روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان ریلوے متبادل کے طور پر مستقبل قریب میں مال برداری کا سستا ذریعہ بنے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ چین کے تعاون سے پاکستان ریلوے کی ترقی کے جتنے منصوبے ہیں ان کو بروقت شروع کیا جائے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ٹرانسپورٹ کا نظام اگر اتنا مہنگا ہوتا چلا جائے گا تو ملکی معاشی ترقی پر اس کے منفی اثرات ہی مرتب ہوں گے۔

اس کے ساتھ گزشتہ کئی عشروں سے ریلوے کے پسنجر ٹرین سخت سست روی اوربری کارکردگی کا شکار ہیں۔ جسے بہتر بنانے کے لیے حکومت صرف باتیں بنانے پر اکتفا کر رہی ہے۔ عوام کو سستا ذرایع آمد و رفت مہیا کرنا یہ ایک فلاحی ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔

مسافر ٹرینوں کو تیز رفتار بنانے سے تاجروں کی ملکی پیمانے پر آمد و رفت میں اضافہ ہوگا، کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی۔ اس سے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے اور تیل کی فضول اور بے جا اسراف میں کمی آئے گی جس سے پٹرولیم گروپ کے بڑھتے ہوئے درآمدی بل میں کمی ہوگی جو مستقبل میں معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے میں مدد فراہم کرے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں