کاغذ کی کشتیاں

وقت نے جیسے سب کچھ بدل کر رکھ دیا اب ہم ایک الگ ہی دنیا میں آگئے۔


Aftab Ahmed Khanzada October 31, 2021
[email protected]

جس طرح ہم بچپن میں بارش کے پانی میں کاغذ کے کشتیاں بنا بنا کر چھوڑتے تھے، سمندر کے کنارے ریت کے گھروندے بناتے تھے ، لڈو اور کنچے کھیلتے تھے ، پتنگیں اڑاتے تھے ، کبوتر پالتے تھے اسی طرح ہم سب خواب دیکھتے تھے۔

ایک خیالی دنیا میں رہتے تھے اور ان خوابوں اور خیالی دنیا کو آنکھوں میں بسائے بسائے پھرتے تھے وہ خواب اور خیالی دنیا ہمیں اپنی دیگر چیزوں کی طرح عزیز اور پیاری تھی۔

ہم ان کا اتنا ہی خیال رکھتے تھے جتنا کہ اپنی دوسری چیزوں کا رکھتے تھے پھر جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے ، ہمارے وہ خواب ایک ایک کرکے نجانے کہاں جا کر چھپنے لگے، پھر ہم ان خوابوں کے بغیر زندہ رہنے لگے اور جو کچھ زندگی ہمیں مہیا کرتی گئی ، ہم اس پر مطمئن ہوتے چلے گئے لیکن ہمارے اندر کا خلا بڑھتا ہی چلا گیا کیونکہ یہ وہ دنیا نہیں تھی جس کے خواب ہم دیکھتے رہتے تھے۔

وقت نے جیسے سب کچھ بدل کر رکھ دیا اب ہم ایک الگ ہی دنیا میں آگئے اور یہ دنیا تھی مسائل کی ، آزمائشوں کی ، تکالیف کی۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب اپنے اپنے خواب نہیں بھولے ہیں ، ہم اگر اب بھی ذرا اپنے ذہن کو ٹٹولیں تو یہ کسی بھی کونے کھدرے سے نمودار ہوجائیں گے۔

یقین جانیے آپ کے یہ خواب اب بھی پورے ہوسکتے ہیں۔ آپ ایک بچے کی طرح دوبارہ خیالی دنیا میں چلے جائیے اور سوچیے کہ آپ ان دنوں کیا چاہتے تھے ، اپنے تخیل کو آپ نے پرواز سے روکنا نہیں ہے۔

کارل سینڈ برگ نے کہا تھا '' سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے '' یہ ترقی جو آج آپ کو نظر آرہی ہے ، کیا ہمارے آبائو اجداد کا خواب نہیں تھی ؟کیا وہ فضا میں خلا میں پرواز نہیں کرنا چاہتے تھے؟ کیا وہ قدرت کے سربستہ راز نہیں جاننا چاہتے تھے ؟کیا وہ چاند پر جاکر اس پر بیٹھی بڑھیا کو نہیں دیکھنا چاہتے تھے؟ آج وہ سب خواب حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔

یہ خواب ہی ہوتے ہیں جو انسان کو بہت کچھ کرنے پر مجبورکرتے ہیں کیونکہ پہلے پہل انسان خواب دیکھتا ہے پھر اس کا پیچھا کرتا ہے اور ایک دن اسے پکڑ ہی لیتا ہے اس لیے کہ خواب اس کو بے چین کیے رکھتے ہیں اس کو تڑپاتے رہتے ہیں۔ یاد رکھیں خواب ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ پورے ہوں اور جو پورے نہ ہوں وہ خواب ہوتے ہی نہیں ہیں۔

اس لیے آئیں ! اپنے بچپن کے خوابوں کا دوبارہ پیچھا کرنا شروع کردیتے ہیں اور اس وقت تک پیچھا کرتے ہیں جب تک وہ پورے نہ ہوجائیں۔ یہ بات تو آپ اچھی طرح جانتے ہی ہیں کہ کسی بھی کام کے لیے کبھی دیر نہیں ہوتی ہے آپ اس وقت اپنی زندگی میں جہاں کہیں بھی ہیں وہیں سے اپنے خوابوں کا پیچھا شروع کردیں۔

یاد رکھیں کامیابی کی ہر داستان ناکامی سے ہی شروع ہوتی آئی ہے۔ دنیا کا ہر کامیاب آدمی شروع میں ناکامی سے ہی دو چار ہوا ہے ، لیکن اس نے ناکامی کے بعد بھی اپنے خوابوں کا پیچھا کرنا نہیں چھوڑا وہ اس وقت تک ان کا پیچھا کرتا رہا جب تک وہ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوگیا۔

یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس نے کامیابی کے بعد بھی خواب دیکھنے کا سلسلہ ترک نہیں کیا وہ خواب دیکھتا رہا ان کا پیچھا کرتا رہا اور کامیاب ہوتا رہا پھر خواب دیکھتا پھر کامیاب ہوتا جو لوگ آپ کے خوابوں کا مذاق اڑاتے ہیں وہ لوگ اصل میں آپ کو ایک کامیاب انسان کے طور پر دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں یا اس بات کو اس طرح کہہ لیجیے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں ناکام ہوجاتے ہیں وہ لازمی طور پر دوسروں کو بھی ناکام دیکھنا چاہتے ہیں اور کامیاب لوگ دوسروں کو بھی کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔

ایک اور طرح کے لوگ بھی اس دنیا میں بستے ہیں جو دوسرے لوگوں کو ہمیشہ غلط مشورہ یا نصیحت کرتے رہتے ہیں۔ امریکا کے ایک اسکول میں مالی معاملات کے امورکے استاد نے ایک چھوٹے سے بینک کے سربراہ کو مقرر مہمان کی حیثیت سے بلایا اس نے اپنے خطاب میں کہا '' نوجوان طالب علموں ! میں آپ کو ایک ایسی نصیحت اور مشورہ دینا چاہتا ہوں مجھے امید ہے کہ جسے آپ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں ضرور اپنائیں گے ، وہ یہ ہے '' ہمیشہ کنارے کے نزدیک رہیے'' اس بینکارکے کہنے کا مفہوم یہ تھا کہ '' خطرات مول نہ لیجیے کوئی بھی نیا کام شروع کرنے کی کوشش مت کریں ممکن ہے آپ ناکام ہو جائیں اور کسی محفوظ مقام پر زندگی بسرکیجئے۔''

ہمیشہ کنارے کے نزدیک رہیے '' کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس قسم کی بدترین نصیحت یا مشورہ اپنے نوجوان طالب علموں کو کوئی دے سکتا ہے ؟ جو لوگ خطرات مول لیتے ہیں ، خواب دیکھتے ہیں مہمات میں حصہ لیتے ہیں زیادہ سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں ، زیادہ سے زیادہ دولت کماتے ہیں اور دوسرے لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ بہتری اور فلاح کے کام کرتے ہیں۔

ڈاکٹروان برائون نے چاند پر جانے کا خواب دیکھا اور پھر بالآخر اسی خواب کی بدولت انسان چاند پر اترنے میں کامیاب ہوا۔ لنکن ،کارٹر اور رونالڈ ریگن تینوں امریکا کے داخلی اور اندرونی علاقوں میں پیدا ہوئے انھوں نے اپنی زندگیوں میں خطرات مول لیے اور بالآخر امریکا کے صدر منتخب ہوگئے۔

آج کے دور میں 80 فیصد کے قریب کروڑ پتی غریب یا متوسط گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے ، اگرکولمبس نے کنارے پر ہی رہنے کا فیصلہ کیا ہوتا اور خطرات مول نہ لیے ہوتے تو ممکن ہے کہ مزید ایک صدی تک امریکا دریافت ہی نہ ہوتا۔

اس لیے آئیں کنارے کے نزدیک رہنا چھوڑ دیں خواب دیکھیں ان کا پیچھا کریں خطرات مول لیں اور دنیا کا کامیاب ترین انسان بن جائیں ، اگر نہیں تو پھر اپنی ناکامی ، بربادی ، تباہی ہی میں اپنی بچی کچھی زندگی بھی گذار دیں۔ یاد رکھیں کوئی بھی آپ کو اس میں سے نکالنے کے لیے نہیں آئے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں