وقت کی باگا یک دَورِ زیاں کی داستاں
ایک طویل وقفے کے بعد رُوح کو بالیدہ کر دینے والا فکشن نظروں سے گزرا ہے
ایک طویل وقفے کے بعد رُوح کو بالیدہ کر دینے والا فکشن نظروں سے گزرا ہے ۔ تقریباً 400صفحات پر پھیلا یہ ناول میں نے چار دنوں میں ختم کر ڈالا۔ ایک جنونی کی طرح اِسے پڑھا ہے اور اب تک قلب و ذہن ایک جنوں کی سی کیفیت میں مبتلا ہے۔
ایک پُر اسرار سا فکری اورتحریری ہالہ ہے جس کی لپیٹ اور گرفت ابھی تک محسوس کی جا رہی ہے۔ برادرم فرخ سہیل گویندی کا شکر گزار ہُوں جنھوں نے یہ ناول محبت اور اپنائیت سے مجھے ارسال کیا۔ اس ناول اور ناول نگار دونوں کے ناموں سے راقم بالکل نا آشنا تھا۔ گویندی صاحب نے بس اتنا ہی بتایا تھا کہ مصنف کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ کتاب کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا، فلیپ کے دونوں پرت بھی دیکھے مگر کہیں بھی ناولسٹ کے بارے میں ایک بھی تعارفی سطر نظر نہیں آئی۔
مَیں نے گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست، جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں، کو فون کرکے زیر نظر ناولسٹ کے نام بارے استفسار کیا لیکن وہ بھی کہہ رہے تھے کہ اس نام کے کسی شخص کو کم از کم مَیں تو قطعی نہیں جانتا۔کتاب کے پُشتے پر مصنف کی کلر فل تصویر چھپی ہُوئی ہے۔ اس میں ناولسٹ کلین شیو کیے، نظر کا چشمہ لگائے، چادر اوڑھے نظر آ رہے ہیں۔ اُن کی کنپٹیوں اور قلموں پر بھاری سفید بالوں کی جھالر بھی دکھائی دیتی ہے لیکن اُن کا تعارف نہیں ۔
یوں ناولسٹ کے بارے میں تجسس اور سسپنس بڑھ سا گیا۔ زیر نظر ناول کا عنوان ہے: ''وقت کی باگ'' اور مصنف کا نام ہے : خالد فتح محمد۔ کتاب میں جوں جوں آگے بڑھا، توں توں عیاں ہوتا گیا کہ مصنف تو اسلام آباد میں مقیم معروف ماہرِ اقبالیات پروفیسر فتح محمد صاحب کے نظریات سے قطعی مختلف سمت میں سوچنے والے ہیں۔ اُن کا تعارف جتنا موہوم اور اسرار میں لپٹا ہُوا تھا، ناول کی بُنت اور کہانی اس سے بھی کہیں زیادہ مہیب اور متجسس ہے۔
''وقت کی باگ'' کے مرکزی کردار کا نام کہیں بھی نہیں لکھا گیا اور نہ ہی اُس کا تعارف کروایا گیا ہے لیکن اس کردار کے بارے میں جو نشانیاں سامنے لائی گئی ہیں ، اور اُس سے منسوب جو الفاظ اور مکالمات صفحہ قرطاس پر جگہ بہ جگہ بکھیرے گئے ہیں، انھیں پڑھ کر وہ سیاسی چہرہ پورا برہنہ ہو کر ہمارے سامنے آ جاتا ہے جو کئی برس پاکستان کے اقتدار پر سایہ بن کر چھایا رہا۔
پاکستان کے جس دَورِ جبر سے لفظوں کی تصویر بنائی گئی ہے، یہ تصویر لفظوں کی زبان میں پکارنے لگتی ہے کہ مجھے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کس دَورِ زیاں کا لباس پہنایا گیا ہے۔یہ ناول ہماری سیاست اور تاریخ کے اُن بدقسمت ایام پر محیط ہے جب وطنِ عزیز میں صحافت اور سیاست کی زباں بندی کر دی گئی تھی اور جب سرِ بازار سیاسی کارکنوں کی ننگی پیٹھوں پر ظلم و ستم کی بجلیاں گرائی گئیں۔ خالد فتح محمد نے فاتحانہ اسلوب میں ایک دقیق موضوع کا انتخاب کیا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ وہ اس جانگسل اور جانگداز پراسیس میں سے کامیابی کے ساتھ یوں گزر گئے ہیں کہ قاری اُن کے نظریات و افکار کی ندی میں اُن کے ساتھ ، بیخود ہو کر، بہتا چلا جاتا ہے ۔
جس دَورِ زیاں اور ضرر رساں کو ناولسٹ نے ''وقت کی باگ'' میں موضوعِ سخن بنایا ہے، اس دَور کے خلاف اُن کی کمٹمنٹ بھرپور اسلوب میں محسوس ہوتی ہے۔ انھوں نے مرکزی کردار کو اپنی نفرت و ناپسندیدگی کی سان پر تو نہیں چڑھایا لیکن قاری کے دل میں مسلسل ایک طوفاں بپا کیے رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ناولسٹ نے اپنے اسلوب سے ثابت کیا ہے کہ احتیاط کے ساتھ، نام لیے بغیر ، اور کسی کی گرفت میں آئے بغیر بھی، اپنا پیغام اور نظریہ قارئین تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
یہ مہم سر کرنی کوئی آسان نہیں ہے لیکن خالد فتح محمد نے مشاقی اور مہارت کے ساتھ آزمائش کے اس بپھرے اور ٹھاٹھیں مارتے دریا کو آسانی کے ساتھ عبور کر لیا ہے۔''وقت کی باگ'' کا ایک ایک پیراگراف پڑھتے ہُوئے، قدم قدم پر، یہ احساس حواس پر ایک مہیب خیال کی طرح چھایا رہتا ہے کہ ہم کروڑوں پاکستانیوں نے کس صبر اور حوصلے کے ساتھ جبر اور ذلت کے اُن برسوں کو اپنے اعصاب پر برداشت کیا۔
خالد فتح محمد نے اپنے مرکزی کردار کو صرف ''باس'' کا نام دیا ہے ۔ اور''باس'' سے جُڑے تمام کرداروں کو جس ماحول میں سانس لیتے دکھایا اور پڑھایا گیا ہے ، وہ ماحول سخت ڈسپلن کا ہے۔ یہ ماحول سازش، شک، منافقت اور اپنے اپنے مفاد کی آبیاری کرتا دکھائی دیتا ہے ۔عیب جوئی، گھٹن اور خوف ناول کے ہر کردار کے اعصاب پر سیاہ بادل کی طرح چھائے نظر آتے ہیں۔ آج افغانستان کے ہیبت ناک مسائل اور مصائب کے کارن پاکستان جس طرح کے عالمی شکوک اور نجی بے یقینی کی فضاؤں میں گھِرا ہے ، اس احساس کو بھی ''وقت کی باگ'' میں زیر بحث لایا گیا ہے۔
اور بین السطور بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کا ذمے دار دراصل کون ہے؟امریکا بحیثیت مجموعی اور بعض امریکی ادارے بالعموم ہمارے ہاں کیسے پنجے گاڑنے میں کامیاب رہے، زیرنظر ناول کے کرداروں( ممتاز، ابراہیم اور سراج) کی شکل میں یہ قلعی بھی کھولنے کی بے حد کوشش کی گئی ہے۔ ناول میں جن اکثریتی کرداروں کا انتخاب کیا گیا ہے، اور اس میں جس فضا، سماج اور ماحول کی تصویر کشی کی گئی ہے اور مکالمے کے لیے جو اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں، وہ خصوصی حیثیت کی حامل ہیں۔ یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ لکھنے والے کا اپنا تعلق بھی ایک خاص پس منظراور ٹریننگ کا عکاس ہے۔
ناولسٹ چونکہ خود بھی پنجابی ہیں، اس لیے فطری طور پر ناول میں کئی جگہ پنجابی کے الفاظ اور مکالمے بھی در آئے ہیں۔ مجھے تو ان الفاظ اور ڈائیلاگز سے خاصا اُنس محسوس ہُوا ہے۔ ''وقت کی باگ'' کے آخری تین صفحات تو پورے ناول کی رُوح ہیں۔ یہاں پہنچ کر قاری کے دل کی دھڑکن تیز تر ہو جاتی ہے ۔''وقت کی باگ'' پڑھتے ہُوئے کبھی مجھے خیال آیا کہ شاید شوکت صدیقی کا ''جانگلوس'' پڑھ رہا ہُوں اور کبھی عبداللہ حسین کے ''اداس نسلیں'' کا عکس دکھائی دینے لگتا اور کبھی یہ فخر زمان کا ''بندی وان'' محسوس ہوتا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ''وقت کی باگ'' ان تینوں دلفریب ناولوں سے سوا ہے۔ اس کی رُوح اور احساس تازہ بہ تازہ اور اس کا پیغام تو خنجر کی طرح کٹیلا ہے۔
اس کے کرداروں کی ہمہ ہمی ایسی پیچیدہ ہے کہ قاری کو یادداشت کی کھڑکیاں کھول کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ ''وقت کی باگ'' نہایت شاندار، پُر شکوہ اور دلکش فکشن کی کتاب ہے۔ یہ دراصل ترقی پسندی اور خالصتاً جمہوریت نوازخیالات کا مرقع ہے ۔ اسے لاہور کے جمہوری پبلی کیشنز نے شایع کیا ہے۔ اس کے پبلشر فرخ سہیل گویندی نے نہایت ہوشیاری سے ترقی پسندیت کا نظریہ پڑھنے والوں کے گھروں تک پہنچانے کی سعی کی ہے ۔
گویندی صاحب زیڈ اے بھٹو، بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے عشق سے تائب ہو کر اب کتابوں کی اشاعت سے اپنے نظریات و افکار کی ترویج کرنے کی بالواسطہ کوشش کررہے ہیں۔ خالد فتح محمد کا یہ تازہ ترین ناول ''وقت کی باگ'' اس مہم جوئی کی تازہ ترین مثال ہے۔اُردو لٹریچر کے شائقین کے لیے یہ کتاب ایک بیش بہا تحفہ ہے ۔