مستحکم بلدیاتی نظام کے لئے قومی اتفاق رائے قائم کرنا ہوگا

مقامی حکومتوں کے حوالے سے آگاہی میں سول سوسائٹی کا کردار قابل تعریف ہے


پنجاب میں مثالی بلدیاتی ایکٹ لارہے ہیں جس کے تحت آئندہ برس مارچ یا اپریل میں انتخابات ہوں گے: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

بلدیاتی نظام جمہوریت کی نرسری اورفیڈریشن کی مضبوطی کا ضامن ہوتا ہے۔ بلدیاتی نظام کے حوالے سے قانون سازی ، بلدیاتی نمائندوں کی تربیت اورعوام کو آگاہی دینے میں سول سوسائٹی کا کردار اہم ہوتا ہے۔

اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ''مقامی حکومتوں کا نظام اور سول سوسائٹی کا کردار'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت ، سیاسی تجزیہ نگاروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

محمدندیم قریشی
(پارلیمانی سیکرٹری برائے انفارمیشن و کلچر پنجاب )

یہ درست ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کو افسر شاہی سے خطرہ ہے مگر ہماری سیاسی اشرافیہ بھی طاقت کی نچلی سطح تک منتقلی سے گھبراتی ہے لہٰذا بلدیاتی نظام میں بڑی رکاوٹ حکومتی سوچ ہوتی ہے جو نچلی سطح پر اختیارات نہیں دینا چاہتی۔ وزیراعظم عمران خان کی سوچ مختلف ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ مضبوط مقامی حکومتوں کے بغیر فیڈریشن مضبوط نہیں ہوسکتی، وہ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی پر یقین رکھتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں مضبوط اور موثر بلدیاتی نظام قائم کرکے مثال قائم کی جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں نے ہمیں دوبارہ منتخب کیا۔

جنرل ضیاء الحق سے زیادہ شہباز شریف کی سابق حکومت نے بلدیاتی اداروں کو نقصان پہنچایا، ان کے دور میں مقامی حکومتوں کے پاس پیدائش اور موت کے سرٹیفکیٹ کے علاوہ کوئی اختیار نہیں تھا بلکہ اتھارٹیوں کے ذریعے نظام چلایا جارہا تھا۔ سابق حکومت نے عدالتی حکم پر بلدیاتی انتخابات کروائے، تین مرتبہ کاغذات نامزدگی جمع ہوئے مگر الیکشن نہیں ہوئے اور جب ہوئے تو ایم این ایز اور ایم پی ایز کے خاندانوں کو اضلاع کی سربراہی سونپ دی گئی جنہوں نے ہمارے لیے مسائل پیدا کیے۔

ہم وزیراعظم کے ویژن کے مطابق ایسے بلدیاتی نظام کیلئے کوشاں ہیں جو صحیح معنوں میں مضبوط اور موثر ہو اور اس میں بیوروکریسی کا کردار نہ ہو۔ 2019ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں پہلی مرتبہ ان تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی گئی جو براہ راست عوام سے منسلک ہیں۔ بلدیاتی حکومت کو مالی اور انتظامی اختیارات کی منتقلی یقینی بنائی جارہی ہے، بلدیاتی حکومت کی مدت 4 برس ہوگی، ابتدائی 2 برس میں صوبہ اپنے ریونیو کا 26 فیصد مقامی حکومت کو دینے کا پابند ہوگا اور ہر 4 سال بعد الیکشن ہوں گے۔

نیبر ہڈ اور ویلیج کونسل کے انتخابات غیر جماعتی ہونگے جبکہ اوپر کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہونگے۔ یورپی ماڈل کو فالو کرتے ہوئے مقامی حکومتوں کی کابینہ بھی ہوگی، اس کے علاوہ مصالحتی کونسل اور شہری کونسل بھی ہوگی جس کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے عدالت جانے اور کورونا وباء کے چیلنج کی وجہ سے بلدیاتی نظام لانے میں تاخیر ہوئی، ہم نیا نظام لا رہے تھے اور اب عدالتی حکومت کے بعد سے پرانا نظام بحال کر دیا گیا ہے، موجودہ بلدیاتی حکومت کی مدت دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔

لہٰذا آئندہ مارچ یا اپریل میں نئے ایکٹ کے تحت بلدیاتی انتخابات ہونگے اور مضبوط نظام قائم کیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے، پنجاب میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت پوری ہونے کے بعد حلقہ بندیوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ نئے بلدیاتی ایکٹ میں ہرممکن کوشش کی گئی ہے کہ ایسے تمام مسائل کا خاتمہ کیا جائے جس سے یہ نظام کمزور اور لوگوں کا اعتماد کم ہوتا ہے، اس میں خواتین کو موثر نمائندگی دی گئی ہے جبکہ معذور افراد کی نمائندگی کیلئے بھی پوری کوشش کروں گا۔ سول سوسائٹی بلدیاتی نظام کی آگاہی اور ایڈوکیسی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

سعدیہ سہیل رانا
(چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے ایکسائز و ٹیکسیشن پنجاب )
صفائی ستھرائی و دیگر بنیادی کام مقامی حکومتوں کے تھے مگر اس کے لیے باہر کی کمپنیوں کو پیسے دیے گئے اور جب معاہدہ ختم ہوا تو کوڑا اٹھانا چیلنج بن گیا، اگر مقامی حکومتیں مضبوط اور بااختیار ہوں تو اس طرح کے مسائل باآسانی حل ہوجاتے ہیں۔ بلدیاتی نظام سیاست کی نرسری ہے، اس میں نئی قیادت پیدا ہوتی ہے۔

لہٰذا ہماری سیاسی جماعتیں نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے گھبراتی ہیں کیونکہ ہمارے سیاستدان طاقت حاصل کرنے کیلئے ہی اقتدار میں آتے ہیں۔تحریک انصاف واحد سیاسی جماعت ہے جو اختیارات کی منتقلی پر یقین رکھتی ہے، خیبرپختونخوا میں ہم نے بہترین اور موثر بلدیاتی نظام قائم کیا جس کی وجہ سے دوسری بار بھی حکومت ملی۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی نظام کو کمزور کیا، اس کے تسلسل کو جاری رکھنے کیلئے آئینی ترمیم کرنی چاہیے اور ایک بلدیاتی حکومت ختم ہونے کے بعد اگلی حکومت قائم کرنے کیلئے مدت کا تعین کرنا چاہیے۔

2013 ء کے لوکل باڈیز نظام میں 'باڈی' تو تھی مگر اس میں جان نہیں تھی، کمشنرز کے ذریعے انتظام چلایا جا رہا تھا۔ یورپ، یوکے میں مقامی حکومتوں کا مضبوط نظام ہے، وہاں تعلیم ، صحت و دیگر سہولیات مقامی حکومتوں کے ذمے ہیں، وزیر اور چوکیدار دونوں کے بچے ہی اپنے کمیونٹی سکول میں پڑھتے ہیں، اگر ہمارے ہاں بھی ایسا مضبوط نظام قائم ہوجائے تو بیشتر مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔ اس وقت ہمارے تمام مسائل کا واحد حل مقامی حکومتیں ہیں، انہیں موثر اور مضبوط بنانا ہوگا۔

ان میں خواتین کی نمائندگی کو 2 فیصد سے بڑھانا ہوگا، میرے نزدیک کسان کی نشست پر بھی خواتین کو آنا چاہیے کیونکہ ملک کی 80 فیصد خواتین لائیو سٹاک اور زرعی شعبے سے منسلک ہیں۔ بیوروکریسی کو اس کے کردار تک محدود رکھا جائے، بل بیوروکریسی بناتی ہے جو اپنے مفادات کو تحفظ دیتی ہے، ہمیں اپنی جماعتوں سے بالاتر ہوکر مضبوط اور موثر بلدیاتی نظام کے لیے کام کرنا ہوگا۔نئی قیادت پیدا کرنے کیلئے بلدیاتی نظام کا ہونا بہت ضروری ہے، نئی قیادت عوام میں سے ہونی چاہیے جو عوامی مسائل کو حل کر سکے۔

محمد تحسین
(نمائندہ سول سوسائٹی )
مقامی حکومتوں کا نظام ہماری زندگیوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس نظام میں لوگوں کے منتخب نمائندے ان کے گھر کی دہلیز پر مسائل حل کرتے ہیں، ماضی میں بلدیاتی نظام سے بہت فائدہ ہوا ہے، کونسلرز خود لوگوں کے شناختی کارڈز کا اندراج کرواتے تھے، نکاح، طلاق و اس طرح کے دیگر معاملات علاقے میں ہی حل ہوجاتے تھے، دہلیز پر ہی لوگوں کو انصاف مل جاتا تھا مگر آج ہر معاملے کیلئے لوگوں کو عدالت جانا پڑتا ہے۔ آرٹیکل 149(a) کے تحت مقامی حکومتوں کو یہ اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ فوری انصاف کیلئے کام کریں۔

اگر مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرکے انہیں مالی و انتظامی اختیارات دیے جائیں تو انصاف پر مبنی معاشرے کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔2002ء میں ایک اچھا بلدیاتی نظام قائم کیا گیا، اس میں خواتین نے بہت اہم کردار ادا کیا، خواتین نے اپنی جماعتوں سے بالاتر ہوکر اپنے حقوق کی بات کی، بلدیاتی نظام میں خواتین، اقلیتیں، خواجہ سرا سمیت معاشرے کے تمام طبقات کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ سردرد کی فوری دوا کونسلرز کے پاس ہے ، ایم این اے یا ایم پی ایز کے پاس نہیں، تعلیم، صاف پانی، روزگار اور سر پہ چھت لوگوں کے بنیادی حق اور ضرورت ہیں، انہیں پورا کرنے کیلئے مقامی حکومتوں کا نظام موثر ہوتا ہے۔بلدیاتی حکومتوں کے نظام کو افسر شاہی سے جتنا دور رکھیں گے اتنا بہتر ہوگا۔

ڈاکٹر امجد مگسی
(سیاسی تجزیہ نگار )
بلدیاتی نظام کی موجودہ حالت کی ذمہ دار ہماری سیاسی جماعتیں ہیں،2002ء کے بعد سے دیکھا جائے تو اب تک 3 بڑی سیاسی جماعتیں برسر اقتدار آچکی ہیں مگر انہوں نے بلدیاتی نظام کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جس کی وجہ سے عام آدمی تعلیم، صحت، صفائی و دیگر بنیادی حقوق سے محروم ہوگیا اور اس کے مسائل میں اضافہ ہوا۔

کورونا کی صورتحال کے دوران اور اب ویکسی نیشن کے دوران یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر کونسلرز ہوتے تو زیادہ اچھے انداز میں معاملات کو سنبھالتے۔ لوگوں کی قسمت کا فیصلہ افسر شاہی کے ہاتھ میں دے دیا گیا جس سے مسائل پیدا ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ 3 سال گزرنے کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت یہ نظام قائم نہیں کرسکی۔ 2002ء کا بلدیاتی نظام اچھا تھا، چاہیے تو یہ تھا کہ اس نظام کو مزید موثر بناتے مگر ہر حکومتی جماعت چاہتی ہے کہ نظام میں کوئی جدت لاکر اسے اپنے ساتھ برانڈ کرے، حکومتوں کو سمجھنا چاہیے کہ بلدیاتی نظام سیاست کیلئے نہیں بلکہ یہ ڈیلوری کا نظام ہے۔

لہٰذا اس معاملے پر سیاسی جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہم نے مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط کیا اور نہ ہی پارلیمانی نظام، لہذا ہم ادھر کے رہے نہ ُادھر کے۔ مضبوط بلدیاتی نظام وزیراعظم عمران خان کا ویژن تھا مگر تاحال اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی بلکہ گزشتہ ساڑھے تین برسوں سے سیاستدانوں کو افسر شاہی کے پاس جانا پڑا۔ 2019ء کے بلدیاتی ایکٹ میں ضلع کونسل کا نظام ختم کر دیا گیا جو سیٹ بیک ہے، اب اس کی بحالی کیلئے ترمیم لائی گئی ہے جو خوش آئند ہے۔

یونین کونسل کی جگہ ویلیج کونسل اور پنچائت کونسل قائم کی جارہی ہے، یونین کونسل کے خاتمے سے خلاء پیدا ہوگا۔ 2002 ء کے بعد سب سے اہم مسئلہ بلدیاتی حکومت کے نمائندوں کی کپیسٹی بلڈنگ کا تھا، اب اگر یونین کونسل کی جگہ دوسری کونلسز بنائی جاتی ہیں تو 30 ہزار سے زائد افراد کی کپیسٹی بلڈنگ بڑا چیلنج ہوگا۔ بلدیاتی نظام کو مضبوط، آسان اور موثر بنایا جائے اوراختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں۔ موجودہ مسائل کا حل مضبوط بلدیاتی نظام میں ہے، اگر یہ قائم نہ کیا گیا تو حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے۔

پروفیسر ارشد مرزا
(نمائندہ سول سوسائٹی )
ہمیں سب سے پہلے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔ کیا ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کے مسائل ان کی دہلیزپر حل ہوں؟ لوگوں کے نمائندے ان کی قسمت کا فیصلہ کریں؟ مقامی حکومتیں سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر بااختیار ہوں؟ لوگوں کی تربیت ہو اور مقامی سطح سے نئی قیادت پیدا ہو؟ قومی اور صوبائی سطح پر بلدیاتی ادارے نہیں ہوتے لہذا انہیں اسمبلیوں کی طرح چلائیں اور مقامی سطح پر بلدیاتی نظام کو مضبوط کریں۔

پاکستان تجربہ گاہ ہے اور یہاں 65ء سے لے کر آج تک ہر مرتبہ نیا بلدیاتی نظام ہی لانے کی کوشش کی گئی، کوئی بھی حکومت ماضی کے تجربات سے نہیں سیکھتی یہی وجہ ہے آج تک بلدیاتی نظام مستحکم نہیں ہوسکا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے بلدیاتی حکومتوں کے حوالے سے قومی سطح پر اتفاق رائے نہیں ہے، 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو تو اختیارات منتقل ہوگئے مگر وہ نچلی سطح تک نہیں پہنچے، سوال یہ ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کا نظام کب قائم ہوگا اور ادارے کب تشکیل پائیں گے؟ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے قومی سطح پر اتفاق رائے کیا جائے۔

تمام سٹیک ہولڈرز کو اس کا حصہ بنایا جائے، اس نظام کو تحفظ دینے اور تسلسل یقینی بنانے کیلئے آئینی ترمیم کی جائے اور جہاں قانونی تحفظ کی ضرورت ہے وہاں اس لحاظ سے کام کرکے مضبوط اور موثر بلدیاتی نظام کی راہ ہموار کیا جائے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 1 کروڑ سے زائد خواتین بحیثیت ووٹر رجسٹر نہیں ہیں، 40 فیصد خواتین ووٹ کاسٹ نہیں کرتی اور جو ووٹ دیتی ہیں ان میں بھی سے زیادہ تر اپنی مرضی سے نہیں بلکہ خاوند یا خاندان کی مرضی سے دیتی ہیں، خواتین کو اس حوالے سے تربیت دینی چاہیے۔ UNDP کے مطابق ہماری 64 فیصد آبادی یوتھ پر مشتمل ہے۔

اس کے پاس کوئی سمت نہیں ، اگر ہم نے اپنی نئی نسل کی تربیت نہ کی تو بڑے مسائل پیدا ہو جائیں گے لہٰذا انہیں بلدیاتی نظام کا حصہ بنا کر سمت دی جائے تاکہ وہ ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ مزدور، کسان، خواجہ سرا سمیت معاشرے کے دیگر طبقات کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، بلدیاتی حکومتوں میں سب کو موثر نمائندگی دیکر ان کے مسائل حل کیے جائیں اور انہیں فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔ سیاستدانوں اور مقامی حکومتوں کے اختیارات بیوروکریسی کے پاس چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں، مضبوط بلدیاتی نظام ہی موجودہ مسائل کا واحد حل ہے، سول سوسائٹی لوگوں کو آگاہی دینے اور ان کی تربیت کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں