شعور لازم ہے
بہت کم لوگ اپنے ارد گرد کے ماحول ، شہر اور ملک کی بہتری اور تعمیر و ترقی کا سوچتے ہیں۔
علم ایک گراں بہا نعمت ہے، جس کی بدولت انسان اچھائی اور برائی میں فرق کرتا ہے، آگہی اور معرفت و عرفان کی بلندیوں تک جا پہنچتا ہے۔ جب علم کی تعلیم عام ہوتی ہے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے توایک اچھا اور مثالی معاشرہ تعمیر ہوتا ہے۔
آج ماضی کے مقابلے میں معاشرے میں تعلیم زیادہ ہے، لیکن اخلاقیات کا فقدان اور معاشرتی برائیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تعلیم کا مقصد شعور و تربیت، تہذیب اور تمیز نہیں رہا۔ ہمارا مقصد صرف ڈگری کا حصول رہ گیا ہے۔ ہمیں ڈگری کے بجائے آدمی سے انسان بنانیوالی تعلیم و تربیت، شعور و آگاہی کو فروغ دینا ہو گا۔
بے شک تعلیم ضروری ہے، مگر ہمیں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی حاصل کرنا ہوگی۔ شعور بھی حاصل کرنا ہوگا۔ شعور کے بغیر کوئی بھی انسان بہترین انسان نہیں بن سکتا ، اگر ہم بہترین انسان نہیں بن پائیں تو ہماری تعلیم اور ڈگریاں کسی کام کی نہیں ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ اگر شعور کو اجاگر نہ کیا جائے تو وہ تعلیم یافتہ معاشرہ بھی کبھی کامیابی کی منزلوں کو چھو نہیں سکتا۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم کو تو اہمیت دی جاتی ہے، دینی بھی چاہیے، لیکن تربیت ، تعمیر شخصیت و کردار کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ شعور اور احساس اجاگر نہیں کیا جاتا۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اگر ہمارا کردار اچھا نہ ہو اور بہ حیثیت شہری ہمیں اجتماعی زندگی گزارنے کے بنیادی اصول ہی معلوم نہ ہوں تو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہم بد تہذیب ہی کہلائیں گے۔ جس قوم میں معاشرتی آداب موجود ہوتے ہیں، وہی قوم مہذب خیال کی جاتی ہے۔
کسی بھی معاشرے کے افراد کو ذمے دار اور اچھا شہری بننے میں تربیت اور شعور ہی مددگار ثابت ہو تے ہیں۔ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد، والدین، اساتذہ، طلبا تنظیموں، ڈاکٹرز، میڈیا، مذہبی طبقے اور سیاسی جماعتوں پر بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کو تربیت و شعور فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ معاشرے کے ہر فرد کو اچھا انسان بنانے کی کوشش کریں ، تاکہ ہم ایک آئیڈیل اور بہترین معاشرہ ترتیب دے سکیں۔اسی صورت میں ہی صحت مند، مثالی اور خوبصورت معاشرے کا خواب شرمندئہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
ہم لوگ اچھائی اور برائی کا علم رکھتے تو ہیں، لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ ہم لوگ دوسروں کو اچھی باتیں بتاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ صفائی نصف ایمان ہے، حرام کھانا گناہ کبیرہ ہے، رشوت لینا حرام ہے، فضول خرچی سے پر ہیز کرنا چاہیے، کسی کو تکلیف دینا حرام ہے، پانی اور بجلی کا بے دریغ استعمال نہیں کرنا چاہیے، اجتماعی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے، انسانی فلاح و بہبود کے کام کرنے چاہییں، اپنے ارد گرد اور شہر کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے، ہمیں محب وطن ہونا چاہیے۔
کڑوا سچ مگر یہ ہے کہ یہ باتیں صرف باتوں کی حد تک ہی کرتے ہیں، ان باتوں کا عملی مظاہرہ کم ہی نظر آتا ہے۔ اگر ہم بحیثیت مجموعی ایک باشعور اور تربیت یافتہ قوم ہوں تو ہم صرف باتیں نہ کریں، بلکہ ان اچھی باتوں پر عمل بھی کرکے دکھائیں۔ شعور اور تربیت نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ ہم لوگ اپنے روز مرہ کی زندگی میں ایسے بہت سے غلط کام کرتے ہیں، جن کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ہم میں سے کتنے ہی لوگ کچرا کوڑے دان سے باہر پھینکتے ہیں۔
مطالعہ گاہ میں طلبا وطالبات بات چیت میں مشغول ہوتے ہیں، انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کے شور سے دوسروں کے مطالعے میں خلل آرہا ہے۔ کسی سے کوئی چیز استعمال کرنے کے لیے لینے کے بعد اسے لاپرواہی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ اسے توڑ کر واپس کرتے ہیں یا واپس ہی نہیں کرتے۔ کسی کی کوئی چیز بغیر اجازت استعمال کرتے ہوئے یہ بالکل نہیں سوچتے کہ یہ چیز اس کے لیے کتنی اہم ہوسکتی ہے۔ کسی کے کمرے میں بغیر اجازت داخل ہوجاتے ہیں۔
کسی کے معاملات میں بلاوجہ مداخلت کرتے ہوئے بالکل نہیں سوچتے کہ اس سے اس کو کتنی تکلیف ہو رہی ہوگی۔ کسی سے پیسے ادھار لیتے ہیں، لیکن مقررہ وقت پر واپس نہیں کرتے۔ بار بار کھانستے اور چھینکتے اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے ہیں، نہ رومال ڈالتے ہیں اور ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا یہ عمل دوسروں کے لیے اذیت کا باعث بن رہا ہے۔
گھروں میں، عوامی مقامات پر یا کسی مذہبی یا سماجی مجلس میں رات کو بھی بلند آواز کے ساتھ لائوڈ اسپیکرکا استعمال جاری رہتا ہے، لیکن یہ نہیں سوچا جاتا کہ قریب ہی کوئی بیمار شخص ہو سکتا یا کسی کا آرام متاثر ہوسکتا ہے۔ اپنے پروگراموں کے لیے راستے بند کرتے ہوئے بالکل نہیں سوچتے کہ یہ دوسروں کے لیے کتنا تکلیف کا باعث عمل ہے۔ عوامی جگہوں کا بالکل بھی خیال نہیں کرتے۔
ہم شہر کے فٹ پاتھ ، سڑکوں ، نالوں ، واٹر چینلز، پائپ لائنز، پارکس ،باغات ، مطالعہ گاہوں،اسٹریٹ لائٹس، ٹوائلٹس، گاربیج ڈرمز ، بجلی کے نظام ، پیڑ ،پودوںاور دیگر اشیاء و املاک کو حکومتی املاک سمجھ کر بالکل لاپرواہی سے استعمال کرتے ہیں۔ باشعور معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا۔کسی جگہ گاڑی کھڑی نہ کرنے کا بورڈ لگا ہوتا ہے، لیکن پھر بھی ہم وہاں گاڑی کھڑی کردیتے ہیں۔
پارکنگ میں بے ترتیب گاڑی کھڑی کرتے ہوئے یہ بالکل نہیں سوچتے کہ اس عمل سے کسی دوسرے کو تکلیف ہوگی۔ کوڑا نہ پھینکنے کا بورڈ لگا ہوتا ہے، پھر بھی وہاں کوڑا پھینکتے ہیں۔ تھوکنے پر پابندی کا بورڈ نصب ہوتا ہے، پھر بھی وہاں تھوکتے ہیں۔ گاڑی میں چڑھتے وقت ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہیں۔ ہر جانب اْبلتے ہوئے گٹر اور بکھرا ہوا کچرا ، بے ہنگم ٹریفک، تجاوزات کی بھرمار، پانی کا زیاں ، بلا سوچے سمجھے درختوں کی کٹائی اور دیگر بہت کچھ ہم سے اپنے رویوں پر غورکرنے اور انھیں تبدیل کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔
ٹریفک کے قوانین، نظم وضبط کی پابندی، رہن سہن اور ایک دوسرے کی معاونت کرنے، پانی ضایع نہ کرنے ،راہ چلتے ہوئے دیگر افرادکا خیال رکھنے، کھانا ضایع نہ کرنے، قطار میں لگنے، لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا اورایسے چھوٹے بڑے دیگر امور پر عمل کرنا تو دور کی بات ، ان پر گفتگو بھی نہیں کی جاتی۔ ہم بہ حیثیت سماج اپنے ہر مسئلے کا ذمے دار ریاست اور اس کے اداروں کو ٹھہراتے ہیں۔
سچ مگر یہ ہے کہ ہم اپنی ذمے داریوں سے مکمل طور پہ دست بردار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم ایک باشعور اور مہذب قوم بننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ہمیں اخلاقیات کی کوئی فکر ہے، نہ معاشرت کے اصولوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم زندگی اور اس کی خوب صورتی سے نا آشنا ہیں۔ ہمارے انفرادی رویے ٹھیک ہیں اور نہ ہی اجتماعی رویے درست سمت میں ہیں۔ ہم لوگ اپنی ذات ، اپنے بچوں، کنبے اور گھر کے علاوہ کسی کا سوچتے ہی نہیں ہیں۔
بہت کم لوگ اپنے ارد گرد کے ماحول ، شہر اور ملک کی بہتری اور تعمیر و ترقی کا سوچتے ہیں۔ ہم لوگ خود غرضی ، نفسا نفسی اور مادیت پرستی کی دلدل میں بری طرح دھنس چکے ہیں اور اجتماعی مفادکا تصور ہی بھول چکے ہیں۔ کسی بھی قوم کی ترقی اور اس کی بقا کا دار و مدار اسی بات پر ہوتا ہے کہ اس کے افراد اپنے معاشرتی فرائض کی ادائیگی کس حد تک کرتے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی ہم اپنے معاشرتی فرائض ادا نہیں کر رہے۔