دنیا کی عظیم انقلابی لوئس مشعل
اس انقلاب میں جو تین نعرے دیے گئے تھے وہ تھے آزادی، مساوات اور برابری۔
29 مئی 1830 میں ایک محنت کش گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ بچپن میں والدین کے انتقال کے بعد ان کے دادا اور دادی نے پرورش کی۔ اس کے بعد جب دادا اور دادی کا انتقال ہو گیا تو ٹیچر ٹریننگ کا کورس کرکے گاؤں میں کام شروع کیا۔
1865 میں مشعل نے پیرس میں اسکول قائم کیا جو بعد میں جدیدیت اور ترقی پسند کا حامی اسکول کے طور پر جانا جانے لگا۔ بعد میں انھوں نے فرانسیسی معروف رومانس نگار ''وکٹور ہوگو'' سے روابط شروع کردیا اور نظمیں چھاپنے کا کام شروع کیا۔ ریڈیکل سیاست کی طرف متوجہ ہوئیں پھر اگسٹ بلانکی، جولیس ویلس اور تھیوفائل فیئر سے 1869 میں رابطہ کیا۔
انھوں نے ایک فیمنسٹ گروپ سے بھی رشتہ جوڑا۔ 1870 میں پیرس کمیون سے منسلک ہوگئیں۔ 6 فٹ کی لمبائی کی وجہ سے ویلیچ مونٹیماٹری کمیٹی کی صدر بن گئیں۔ پیرس کمیون کی انقلابی حکومت میں اہم عہدے پر فائز ہوئیں۔ 61 ویں بٹالین کو لڑائی کے لیے مشعل نے منظم کیا اور ایک ایمبولینس کا نظام بھی قائم کیا۔ مشعل صرف پیرس کمیون کی چیئرپرسن ہی نہیں رہیں بلکہ ہتھیار بند لڑائی کو بھی منظم کیا۔
انھوں نے یہ اعلان کیا کہ ہماری موت بھی آزاد پیرس میں ہوگی، وہ نیشنل گارڈ میں شامل ہوئیں اور مرد کامریڈوں سے مخاطب ہوئیں۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔ دسمبر 1871 میں انھیں اٹھا لیا گیا۔ آرمی کی تشکیل دینے اور حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں سرسری سماعت کی عدالت نے مقدمہ چلایا گیا اور مشعل کو جلاوطن کردیا گیا۔ تقریباً 20 ہزار پیرس کمیون کے حامیوں کو پھانسی دے دی گئی۔ مشعل کے ساتھ کوئی 10 ہزار حمایتیوں کو بھی جلاوطن کیا گیا۔
20 ماہ مشعل کو قید میں رکھنے کے بعد 8 اگست 1873 میں سمندری جہاز کے ذریعے نیوکیلاڈونیہ جہاں انھیں 4 ماہ رکھا گیا، وہاں انھوں نے ہیری روچے فورٹ کے ساتھ زندگی گزاری۔ پھر وہ انارکزم سے وابستہ ہوگئیں۔ نیوکیلاڈونیہ میں 7 سال رہیں اور مقامی کناک عوام میں گھل مل گئیں۔ کناک لوگوں کی ثقافت نے متعدد الجیریا کے جلا وطن انقلابیوں سے ملاقاتیں کیں۔
1880 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ مطالبہ منوایا کہ جنھوں نے پیرس کمیون میں حصہ لیا اور جنھیں جلاوطن کیا گیا، انھیں واپس آنے دیا جائے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے دیا جائے۔ مشعل نے 21 نومبر 1880 میں پیرس میں عوام سے خطاب کیا ، پھر 1881 میں انارکسٹ کانگریس لندن میں شرکت کی۔ جہاں انھیں بہت بڑے ہجوم نے استقبال کیا اور مشعل نے عوام سے خطاب کیا۔ چارلس ملاٹو اور وکٹر ہیری روچے فورٹ نے ایمنسٹی کے ذریعے ان الجزائر کے نیوکیلاڈونیہ سے جلاوطنوں کے لیے یہی مطالبات منوائے۔
بے روزگار مزدوروں کو روزگار دلوانے کے لیے 1883 میں پیرس میں بہت بڑا مظاہرہ کیا جس میں 550 افراد نے شرکت کی، وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے انارکزم کے سیاہ جھنڈے کو متعارف کروایا پھر لوٹ مار کرنے کے الزام میں مشعل کو 6 سال قید تنہائی کی سزا سنائی گئی اور جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ انسانوں کی زندگی محفوظ کرنے کے لیے انھیں گرفتار کیا گیا۔ مشعل نے بے روزگاروں کو روزگار اور روٹی دینے کا مطالبہ کیا۔ 1886 میں مشعل کو رہائی ملی۔ اسی سال کروپوتکن اور دیگر انارکسٹوں کو بھی رہائی ملی۔
1890 میں پھر ایک بار وہ گرفتار کرلی گئیں، اس الزام میں کہ وہ پاگل ہیں اور پھر لندن میں پانچ سال گزارے۔ انھوں نے یورپی کامریڈوں کی جلا وطنوں کی واپسی کے لیے مہم چلائی۔ مشعل نے فیزوری اسکوائر پر مہاجرین کے بچوں کو 1890 میں لبرل تعلیم دینا شروع کیا۔ ان بچوں کو میخائل باکونن کے اصولی تعلیم دینا شروع کر دیا۔ 1892 میں اسکول بند کردیا گیا۔ مشعل نے اپنی نظمیں اور تحریریں فرنچ سے انگریزی اور اسپینش زبان میں ترجمہ کروایا۔
1895 میں انٹرنیشنل انارکسٹ کانگریس لندن میں منعقد ہوا، اس میں مشعل اور ایماگولڈ مان نے بھی شرکت کی۔ مشعل 1895 میں پیرس واپس آگئیں۔ 1898 میں انھوں نے اعلان کیا کہ افلاس سے انارکزم نہیں بڑھے گا بلکہ طبقاتی نابرابری سے۔ 1905 میں فرانسیسی الجزائر نوآبادی سے آزادی کی تحریک میں شرکت کی۔ مشعل 1905 میں ہی بونمیہ کے مارسلائی میں 10 جنوری کو انتقال کرگئیں۔ ان کے جنازے میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔
دنیا میں عظیم انقلابی جدوجہد کرنے والی انارکسٹ خاتون کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے دنیا میں مزدوروں کا پہلا انقلاب برپا کرنے والے مزدوروں کی رہنمائی اور ساری زندگی محنت کشوں کے لیے وقف کردیا تھا۔ ان کا بنیادی نعرہ تھا کہ بے روزگاروں کو روزگار دلوانا، بے گھروں کو گھر دلوانا اور بے علاجوں کو علاج دلوانا ہے اور یہ کام پیرس کمیون نے کر دکھایا۔ اس سے قبل 1789 میں جو انقلاب فرانس لوئس دہم کے خلاف برپا ہوا تھا وہ قطعی طور پر مزدوروں یا عوام کا انقلاب نہیں تھا۔
ہر چند کہ اس انقلاب میں انارکسٹ پیش پیش تھے ، مگر یہ انقلاب بورژوازی کا انقلاب تھا۔ اس انقلاب میں جو تین نعرے دیے گئے تھے وہ تھے آزادی، مساوات اور برابری۔ جب کہ تینوں نعرے لغو اور عوام کو گمراہ کرنے کے نعرے تھے۔ الیگزانڈر میخائل باکونن ''انقلاب فرانس'' کتاب میں لکھتے ہیں کہ یہ آزادی 10 فیصد بورژوازی کی آزادی تھی۔ یعنی کہ محنت کش عوام کو اپنا اظہار خیال یا مطالبات کے لیے ہڑتال کی آزادی اظہار خیال کی آزادی جہاں رہنا چاہیں وہاں رہنے کی آزادی نہیں تھی۔
بورژوازی کی رہائش الگ اور مزدوروں کی رہائشی علاقہ الگ الگ تھا ، مساوات قطعی نہیں تھی۔ مساوات ہوتی تو ہر شخص کو جینے کے لیے دولت، مال و متاع، مساوی ملتے یہ صرف 10 فیصد حکمران طبقات کا مساوات تھا۔ جہاں تک برابری کی بات ہے اس کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔ امیروں کے بچے الگ عالی شان اسکول میں تعلیم حاصل کرتے تھے جب کہ عام لوگ گھٹیا اور غیر معیاری اسکول میں پڑھنے پر مجبور تھے۔ امیر لوگ فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانا کھا سکتے تھے مگر پیداواری قوتیں، شہری اور محنت کش عوام کے گھونٹ لینے والے نیولے کی حد تک محدود ہوتے تھے۔
باکونن کہتا ہے کہ اسے جو آزادی، برابری اور مساوات کا سماج کہتا ہے وہ بورژوازی کا دلال ہے اور عوام دشمن ہے۔ جب کہ پیرس کمیون محنت کش عوام کا انقلاب تھا اور اس انقلاب کے بعد سرمایہ داروں، چرچوں کے عملے، نوکر شاہی سب کو ایک ہی ہوٹل میں کھانا کھانا پڑتا تھا۔ دھوبی گھاٹ ایک ہی مقام پر تھے۔ جو ہر گلی کوچے میں قائم کیے گئے تھے۔ اس پیرس کمیون کی رہنمائی لوئس مشعل نے کرکے کمیون ارکان اور لوئس مشعل ہمیشہ کے لیے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گئیں۔ محنت کش کبھی بھی ان کو بھلا نہیں سکتے۔