سارے بنی آدم پر فضیلت
سیدالمرسلینﷺ کی ذاتِ پاک وہ واحد ذات ہے جن کے آنے کی،مبعوث ہونے کی پیشگی اطلاع مسلسل دی جاتی رہی۔
حضرت آدم ؑ کو یہ شرف حاصل ہے کہ ساری انسانیت اُن کی اولاد ہے۔حضرت نوحؑ کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ روئے زمین پر آج ہر مرد و زن ان کی اولاد میں سے ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اُن کے بعد سارے انبیاء کا تعلق ان کے عزت و شرف والے گھرانے سے ہے۔حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے حضرت اسحٰقؑ کو یہ اعزازملا کہ انبیاء کا ایک طویل سلسلہ ان کی صُلب میں جاری ہوا جو چلتے چلتے سیدنا عیسیٰ ؑ پر آکر ختم ہوا جب کہ سیدنا اسمٰعیل ؑ کی ذریت میں ختمِ نبوت رکھ کر سارے بنی آدم پر فضیلت قائم کر دی گئی۔
ختم نبوت کا ایک تقاضا یہ تھا کہ آخری نبی کا پیغام مکمل اور جامع ہو اور خود آخری نبی کی ذاتِ پاک،خُلق اور خِلقت میں بہترین ہو۔حضرت اسحْٰقؑ کے بیٹے سیدنا یعقوبؑ اسرائیل کے لقب سے مشہور ہوئے۔ان کی اولاد بنی اسرائیل میں سے سیدنا موسیٰ ؑ اولوالعزم پیغمبر ہوئے۔ سیدنا موسیٰ کے بھائی حضرت ہارونؑ کو بھی نبوت کے منصب سے سرفراز کیا گیا۔سیدنا موسیٰ کی اولاد میں نبوت جاری رہی جب کہ حضرت ہارون ؑ کی اولاد میں توریت کی تولیت اور امامت عطا کی گئی۔
آپ اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ معبدِ سلیمانی میں ہیکل سے آگے سب سے متبرک جگہ پر تابوت سکینہ رکھا ہوا تھا۔معبد میں عبادت گزاروں کی آخری حد ہیکلِ سلیمانی تھا۔ہیکل سے آگے وہ جگہHoly of the holy جہاں تابوتِ سکینہ میں توریت اور سیدنا موسیٰ کا مشہور عصا رکھا ہوا تھا اس انتہائی متبرک مقام کو دیور کہا جاتا تھا۔دیور میں حضرت ہارونؑ کی اولاد میں سے معبدِ سلیمانی کے کاہنِ اعظم)امام( سال میں صرف ایک دن یومِ کپور پر مخصوص لباس زیبِ تن کر کے اکیلے داخل ہو سکتے تھے۔
پورے سال میں یہ واحد موقع ہوتا تھا جب صرف کاہنِ اعظم اﷲ کا اسمِ ذات اپنی زبان سے ادا کر سکتا تھا۔معبد کے امام کے علاوہ روئے زمین پر کوئی فرد اﷲ کا اسمِ ذات زبان پر نہیں لا سکتا تھا، یہ اعزاز ختم المرسلینﷺ کو عطا کیا گیا کہ اُن کی ذاتِ پاک کی بعثت کے ساتھ ہی یہ پابندی ہٹا دی گئی اور امتِ محمدیہ کا ہر فرد اﷲ کا اسمِ ذات اپنی زبان سے ادا کرتے ہوئے خالق و مالکِ کائنات کی حمد وثنا کر سکتا ہے۔رسول اﷲ کی فضیلت اور امتِ محمدیہ پر آپؐ کے طفیل ربِ کائنات کی عطا کو دیکھیے۔
رسول اﷲﷺ کی بعثت سے پہلے معبدوں اور عبادت گاہوں کے علاوہ کسی دوسرے مقام پر خدا کی عبادت نہیں ہو سکتی تھی۔عبادت کے لیے گھروں سے نکلنا پڑتا تھا اور معبدوں،عبادت گاہوں میں حاضر ہو کر ہی خدا کے سامنے سربسجود ہوا جاتا تھا۔رسول اﷲ کی بعثت کے ساتھ ہی یہ پابندی بھی اُٹھا دی گئی۔رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ ساری زمین میرے لیے جائے عبادت اور طہارت کا ذریعہ بنا دی گئی۔
اﷲ کی رسول اﷲ پر نوازشوں کو دیکھیے کہ آپؐ کی بعثت کے ساتھ ہی عبادت کے لیے کسی بھی فرد کو مخصوص جگہ جانے کی ضرورت نہیں رہی۔ اب کوئی بھی ایسی جگہ جو غلاظت اور غیر اﷲ کی پوجا سے پاک ہو وہاں ایک فرد اپنے اﷲ کے حضور حاضر ہو کر عبادت کر سکتا ہے۔
اﷲ تمام جہانوں کا پروردگار ہے وہ سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت میںاپنا تعارف رب العالمین کے طور پر کراتا ہے۔قرآنی اصطلاح میں عالمین سے مراد تخلیق کی ابتدا سے انتہا تک ہے۔اس میں تمام دنیائیں آتی ہیں۔وہ جو کچھ سامنے ہے اس کا بھی رب ہے اور جو کچھ آنکھوں سے اوجھل ہے اس کا بھی رب ہے۔
تخلیق کی ابتدا بھی اُسی نے کی ہے،وہی تخلیق کے پراسس کو جاری رکھے ہو ئے ہے اور اُسی نے ایک دن خاتمے کا حکم دے دینا ہے۔وہ ہر وقت اپنی حکمت،ارادے اورحکم سے جہاں اور جیسے چاہتا ہے Intervene کرتا ہے۔جس طرح اﷲ نے اپنے لیے عالمین کی صفت استعمال کی بالکل اسی طرح اس نے اپنے آخری نبی اور رسول کے لیے بھی رحمت لعالمین کا لقب استعمال کیا۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے حتمی کلام قرآنِ مجید کو ذکر للعالمین کہا۔
سیدنا محمدﷺ سے پہلے تمام انبیاء یا تو صرف اپنے قبیلے کی طرف مبعوث ہوتے تھے یا پھر زیادہ سے زیادہ اپنے زمانے کے لیے نبوت کے حامل ہوتے تھے لیکن خاتم النبیینﷺ تمام زمانوں اور مکانوں کے لیے مبعوث ہوئے۔آپؐ نے فرمایا کہ پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا،مجھے ساری انسانیت کی طرف بھیجا گیا۔آپ کی رسالت کی کوئی حد نہیں۔آپ اﷲ کے حتمی پیغام کے حامل،اﷲ کی آخری حجت ہیں۔آپ نے اﷲ کا پیغام اس خوبی سے پہنچایا کہ حجت تمام ہو گئی۔
مسلمان ہونے کے لیے یہ لازم ہے کہ اﷲ کے تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے۔اس معاملے میں کوئی تفریق روا رکھنا ایمان کے بنیادی تقاضے کے خلاف ہے۔سورۃ بقرہ کی آیت 285میں حکم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء کو یکساں نبی،صادق اور کمالِ نبوت کے اوصاف کا حامل مانا جائے۔اس کے ساتھ ہی سورۃ بقرہ کی آیت253میںیہ ارشادِ رباری تعالیٰ بھی ہے کہ یہ حضراتِ انبیاء ایسے ہیں کہ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت بخشی ہے۔
اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کے مراتبِ کمالیہ میں کچھ نہ کچھ تفاوت بھی ہے۔انبیائے کرام کمالاتِ نبوت و فضائلِ اخلاق سے ایک جیسے سرفراز تھے مگر وقت اور ماحول کی ضروریات کی بنا پر ان کمالات کا عملی ظہور سارے انبیاء میں ایک جیسا نہیں ہوا یعنی جس وقت کے حالات کے حوالے سے جس جس کمال کی ضرورت ہوئی وہ کمال پورے زور سے ظاہر ہوا اور دوسرے کمال کی اگر اُس وقت ضرورت نہیں تھی تو وہ کمال سامنے نہیں آیا۔
یہ دنیا فانی ہے اس لیے تاریخ کے ہر موڑ پر نئے نئے رہنما اور پیشوا کی ضرورت پیش آئی لیکن انسانیت اپنے عروج اور تکمیل کے لیے ایک ایسے جامع اور ہر حوالے سے مکمل ہستی کی محتاج رہی جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں میں اپنے اخلاقِ حُسنہ کی بنیاد پر رہتی دنیا تک ایک روشن مثال بن سکے۔چونکہ ایسی ہستی ہمیشہ نہیں رہ سکتی تھی اس لیے ضروری تھا کہ اس کی زبان سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ،اس کی حرکات سکنات کی ہر ہر ادا،اس کے وجودِ پاک کا ایک ایک خط و خال محفوظ رکھا جائے اور رہتی دنیا تک جس کسی کو جس مرحلے پر اور جہاں بھی ایک مکمل و خوبصورت مثال کی ضرورت پیش آئے اس مردِ کامل کا پاک اُسوہ اس کی رہنمائی کے لیے موجود ہو۔
ختم المرسلین محمد رسول اﷲﷺ سے پہلے انبیاء و رہنما کے کارنامہ زندگی کی تمام تصاویر جزوی ہیں اس لیے یہ سوال ابھرے کہ دنیا میں وہ کون سی شخصیت ہے جس میں ہر حوالے سے جامعیت نمایاں تھی تو پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ ایسی کون سی شخصیت ہے جس کی پوری زندگی،اس کی زندگی کا ہر پہلو اور ہر وصف اس طرح قلمبند ہوا کہ ایک پوری تصویر ابھر کر سامنے آ گئی اور پھر رپورٹنگ کا معیار بھی بہت اونچا اور اعلیٰ تھا تو اس سوال کے جواب میں صرف ایک نام سامنے آتا ہے اور وہ نامِ نامی خاتم النبیین محمد رسول اﷲ ﷺ کا ہے۔
سیدالمرسلینﷺ کی ذاتِ پاک وہ واحد ذات ہے جن کے آنے کی،مبعوث ہونے کی پیشگی اطلاع مسلسل دی جاتی رہی۔ہر نبی کے فرائض میں رہا کہ وہ اپنی نبوت کے اعلان کے ساتھ ساتھ محمدؐ کی آمد اورآپ کے اوپر ایمان لانے کا اقرار کرے۔اسلام اس وقت دنیا کا تیز ترین پھیلنے والا دین ہے۔ عنقریب تمام اہلِ جہاں آپ کی طرف لپکیں گے۔آپ کی بابرکت زندگی کے ہر پہلو پر تحقیق کریں گے اور میدانِ فکر کے شہسوار آپ کے پیچھے چلیں گے۔
اﷲ تک پہنچنے کا واحد راستہ آپؐ کی ہی ذات ہے۔خدانے یہ کہہ کر آپ کی ذاتِ پاک سے پھوٹنے والے نور کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا کہ ''میرا رسول جو دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے رک جائو۔''خدا خود جس کی تعریف و توصیف کر رہا ہو،میں کیا ،کوئی بھی اُسکی فضیلت رقم کرنے کا حق ادا نہیں کر سکتا۔