نظام تعلیم کی بدحالی کے ہم سب ذمے دار ہیں پروفیسر ڈاکٹر غلام علی ملاح

ہماری درس گاہوں اور اساتذہ کی کارکردگی انتہائی غیرتسلی بخش رہی، پروفیسر ڈاکٹر غلام علی ملاح


Parvez Khan February 06, 2014
معروف استاد اور محقق، پروفیسر ڈاکٹر غلام علی ملاح کی رُوداد ۔ فوٹو : فائل

حالات کتنے ہی کٹھن ہوں، ماحول پر اداسی چھائی ہو، آپ اُنھیں ہمیشہ تر وتازہ پائیں گے۔ چہرے پر مسکراہٹ ہوگی۔ اِسی نسخے سے غموں کا علاج کرتے ہیں!

شاہ عبداللطیف یونیورسٹی، خیرپور کے ڈیپارٹمنٹ آف کمپیوٹر سائنسز سے وہ منسلک ہیں۔ ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کا عہدہ بھی سنبھال رکھا ہے۔ شامیں فروغ علم کے لیے سرگرم ایک سماجی تنظیم کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔ الغرض مصروف آدمی ہیں، اور بہ قول اُن کے، یہی مصروفیات اُن کے اطمینان کا راز ہے۔

پروفیسر غلام علی ملاح نے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے میدان میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ بیرون ملک ملازمت کا حصول سہل تھا، کئی امکانات تھے، مگر جذبۂ حب الوطنی نے پاکستان سے باندھے رکھا۔ اندرون سندھ جو اساتذہ آئی ٹی کے فروغ کی کوششوں میں جُٹے ہیں، اُن میں پروفیسر صاحب کا نام نمایاں ہے۔

اُنھوں نے یکم مارچ 1971 کو خیرپور کے نواحی علاقے، گوٹھ بوزداروڈا میں عبدالمجید ملاح کے گھر آنکھ کھولی۔ آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ ایک بھائی، سکندر علی ملاح پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر رہے ہیں۔ ایک بھائی بزنس مین ہیں۔ سب سے چھوٹے، ناصر مہدی ابھی زیر تعلیم ہیں۔ ایک بھائی کا انتقال ہوچکا ہے۔ ابتدائی تعلیم گھر کے نزدیک واقع گورنمنٹ ہائی اسکول، بوزداروڈا سے حاصل کی۔ 1986 میں امتیازی نمبروں کے ساتھ میٹرک کیا۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے سپریر سائنس کالج، خیرپور کا رخ کیا۔ انجینئرنگ کا شعبہ توجہ کا مرکز تھا۔ 1988 میں نمایاں نمبروں کے ساتھ انٹر کیا۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ سے 1995 میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ پی ایچ ڈی کے لیے خیرپور یونیورسٹی میں رجسٹریشن کروالی۔ ایچ ایس سی کی اسکالر شپ مل گئی۔ تحقیق کا زمانہ فاسٹ، کراچی میں گزرا۔ تحقیقی سفر ہی بیرون ملک لے گیا۔ اٹلی، یونان، مالٹا، برطانیہ، جاپان، چین، ایران اور تھائی لینڈ سمیت 11 ممالک میں رہے۔ وہاں کی مستحکم آئی ٹی انڈسٹری کو قریب سے دیکھنے کا اُنھیں موقع ملا۔ پی ایچ ڈی سے متعلق کہتے ہیں، اُنھوں نے کاروباری دنیا کے لیے ایک ایسا سوفٹ ویئر تیار کیا، جو کمپنیوں کے کمپوٹر سسٹم سے ہم آہنگ ہو کر اندرونی خطرات پر نظر رکھ سکے۔ اسے ''اے سی ای نیٹ'' کا نام دیا۔ بیرونی ملک آئی ٹی ماہرین نے اِس کاوش کو قابل قدر ٹھہرایا۔



ماضی بازیافت کرتے ہوئے اپنے اساتذہ کا خصوصی طور پر تذکرہ کرتے ہیں۔ بہ قول اُن کے، پرائمری اسکول میں استاد خان محمد بوزدار، یونیورسٹی میں پروفیسر لال چند اور پی ایچ ڈی تحقیق کے دوران ڈاکٹر زبیر شیخ کی سرپرستی میسر آئی، جنھوں نے اُن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ والدین کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ بہ قول اُن کے،''میں نے میٹرک کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ باندھ لیا تھا۔ والدین نے قدم قدم پر راہ نمائی کی، جس کی بدولت میں نے یہ مقام حاصل کیا۔''

طلبا سیاست میں حصہ ضرور لیا، مگر اِس سے مطابقت پیدا نہیں کرسکے۔ کالج اور یونیورسٹی میں طلبا یونین کے وہ عہدے دار رہے، البتہ اِس مشق کا دورانیہ مختصر تھا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اُسے خیرباد کہہ دیا۔ طلبا تنظیموں پر بات کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر غلام علی ملاح کہتے ہیں،''میں کالجز اور جامعات میں طلبا یونینز کے قیام کا حامی ہوں۔ اگر طلبا تنظیمیں فعال ہوں گی، تو کسی سیاسی یا قوم پرست جماعت کو مداخلت کا موقع نہیں ملے گا۔ ساتھ ہی باصلاحیت طلبا وطالبات اپنے ساتھیوں کی راہ نمائی کرسکیں گے۔''

پیشہ ورانہ سفر کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ 1996 میں وہ بہ حیثیت لیکچرر ڈیپارٹمنٹ آف کمپیوٹر سائنسز، شاہ لطیف یونیورسٹی کا حصہ بن گئے۔ تن خواہ اُس وقت 4200 روپے تھی، جسے وصول کرنا ایک خوش گوار تجربہ ہوتا۔ تین سال بعد ترقی ہوئی۔ گریڈ 17 میں مستقل لیکچرار ہوگئے۔ تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ 2003 میں اسسٹنٹ پروفیسر کی پوسٹ حاصل کی۔ 2011 میں پروفیسر ہوگئے۔ ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کا چارج بھی اُنھیں سونپ دیا گیا۔

تحقیقی سفر اُنھیں بیرون ملک لے گیا تھا۔ وہاں کے مشاہدات و تجربات کی بابت پوچھا، تو کہنے لگے،''اس تجربے نے مجھ پر واضح کر دیا کہ جو ممالک یا ادارے دور جدید میں علم آئی ٹی کا استعمال نہیں کریں، وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ میری شروع سے کوشش رہی کہ اِس میدان میں اپنے ملک کے لیے کچھ کروں۔ تدریس کے پیشے نے یہ موقع فراہم کیا۔''

سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی وہ مصروف ہیں۔ فروغ علم اور نوجوانوں میں آئی ٹی سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے شام کے اوقات میں ایک تنظیم کے ساتھ مصروف رہتے ہیں۔ کیریر پلاننگ کے میدان میں طلبا و طالبات کی راہ نمائی کرتے ہیں۔

تعلیم کا گرتا معیار اُنھیں افسردہ رکھتا ہے۔ کہتے ہیں،''نظام تعلیم کی بدحالی کے ہم سب ذمے دار ہیں۔ کسی ایک پر ذمے داری نہیں ڈالی جاسکتی۔ والدین، اساتذہ، طلبا؛ تینوں وہ کردار ادا نہیں کرسکے، جو اُنھیں کرنا چاہیے تھا۔ حکومت کو اگر ملکی حالات اور معیشت میں بہتری لانی ہے، تو فوری طور پر ایجوکیشن ایمرجینسی نافذ کرے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اہم ترین شعبوں پر توجہ نہیں دی جاتی۔ نظام تعلیم اِسی کا شکار بنا۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا، اگر ہم سچے دل سے کام کریں، تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔''

وہ امن وامان کی مخدوش صورت حال اور غیر مستحکم معیشت کو تعلیم کی کمی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ ''امن نہ ہونے کے باعث غیرملکی سرمایہ کار یہاں آنے سے کتراتے ہیں۔ جن بچوں کو اسکول جانا چاہیے، آج وہ گلی، محلوں، سڑکوں پر گھومتے، آوارہ گردی کرتے نظر آتے ہیں۔ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا اخلاقی معیار گر رہا ہے۔ یہ بچے آگہی اور شعور سے محروم رہتے ہیں، اور جرم کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم اِس جانب توجہ نہیں دے رہے۔''

اساتذہ کا کردار زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،''ہماری سرکاری درس گاہوں اور اساتذہ کی کارکردگی انتہائی غیر تسلی بخش رہی۔ نجی درس گاہوں میں، ماسوائے چند اداروں کے سب ہی بس کاغذی کارروائی پوری کر رہے ہیں، اور سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔''

وہ ایک ''تھنک ٹینک'' کے قیام کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ''ملکی ترقی اور خوش حالی کے لیے ضروری ہے کہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین پر مشتمل ''تھنک ٹینک'' کا قیام عمل میں لایا جائے، جو ایک جامع اور واضح پالیسی ترتیب دے، اور آنے والی تمام حکومتیں اِس پر عمل کریں۔''

غیرملکی درس گاہوں کے معیار کے قائل ہیں، مگر اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بھی کم نہیں سمجھتے۔ ''اُنھیں صرف راہ نمائی کی ضرورت ہے۔ اگر سسٹم ہو، انفرااسٹرکچر ہو، تو یہ نوجوان بہ آسانی ترقی یافتہ ممالک کے نوجوانوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔''



یوں تو سیاست سے دل چسپ نہیں، البتہ اچھے راہ نماؤں کو سراہتے ہیں۔ ''ملکی ترقی کے لیے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے جرات مندانہ فیصلے مجھے بہت پسند ہیں۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ اچھی قیادت کا فقدان ہے۔ گذشتہ چند دہائی سے ملک کو ایڈہاک ازم پر چلایا گیا۔ ہر نئی حکومت پچھلی حکومتوں کے منصوبے ختم کر کے نئے منصوبوں کا آغاز کر دیتی ہے، جس سے خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ کوئی سیاست داں ملک کی ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادارے تیزی سے کم زور ہورہے ہیں۔'' کرپشن کو وہ جانچ پڑتال کے ناقص نظام کا نتیجہ تصور کرتے ہیں۔ ''جب تک اداروں کو مضبوط نہیں کیا جائے گا، کرپشن ختم نہیں ہوگی، ملک و قوم کی حالت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ تمام سیاست دانوں کو اب ملک کے خاطر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔''

وہ نظریے کو زندگی کی کلید مانتے ہیں۔ نظریے کے وسیلے اُن کے مطابق وژن پیدا ہوتا ہے۔ ''اِس وقت ایسی کوئی سیاسی جماعت نظر نہیں آتی، جس کے پاس ملکی ترقی اور خوش حالی کے لیے ٹھوس وژن ہو۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس اپنا ذاتی کوئی نظریہ نہیں۔ محسوس ہوتا ہے، اِن جماعتوں کو کوئی باہر بیٹھ کر چلا رہا ہے۔ ملک کو ایک اچھی لیڈر شپ کی ضرورت ہے، جس دن مخلص لیڈر شپ آگئی، ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہوجائے گا۔''

ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ایس سی) کے وہ قائل ہیں۔ ''جب سے یہ ادارہ بنا ہے، خیرپور سمیت ملکی درس گاہوں کا معیار خاصا بہتر ہوا ہے۔ اس ادارے کی پالیسیوں سے نظام تعلیم میں بہتری آئی۔'' البتہ ایچ ایس سی سے چند شکایات بھی ہیں، خصوصاً اس کے افسران کا رویہ اُنھیں پریشان رکھتا ہے۔ ''بعض افسران کا رویہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ سندھ کے نوجوانوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہم نے کئی مرتبہ مطالبہ کیا کہ سندھ کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے تاکہ باصلاحیت نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں۔''

خیرپور یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف کمپیوٹر سائنسز کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں،''گذشتہ ایک برس میں جو اقدامات کیے گئے، اُن کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ صبح اور شام کے بیچلرز ڈگری پروگرام میں کم و بیش پانچ سو طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ 60 بچے ماسٹرز کر رہے ہیں۔ ایک پراجیکٹ کے تحت 31 طلبا و طالبات اِس وقت یورپ اور چین میں تحقیق کررہے ہیں۔ ہم نے جو پانچ سالہ پروگرام ترتیب دیا ہے، اس میں باصلاحیت طلبا و طالبات کے لیے تحقیقی منصوبوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ہر وہ سہولیت دی جارہی ہے، جو بڑے ادارے میں فراہم کی جاتی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ کمپیوٹر سائنس لیبارٹری میں جدید آلات کی دست یابی کو یقینی بنایا جائے۔ ہم نے سیمینارز، ورک شاپ کا بھی اہتمام کیا، جس سے کارکردگی میں واضح بہتری آئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملکی جامعات میں شاہ لطیف یونیورسٹی ساتویں نمبر پر ہے۔''

اپنی مصروفیات کی بابت کہتے ہیں،''میرا زیادہ وقت 'لیپ ٹاپ' پر گزرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، ہمارے نوجوانوں کو اِس ٹیکنالوجی کی عادت ڈالنی ہوگی۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا، تو پاکستان ترقی کی دوڑ میں باقی دنیا سے پیچھے رہ جائے گا۔ یہ ٹیکنالوجی زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہورہی ہے۔ ''

ذاتی زندگی کی تفصیلات کچھ اِس طرح ہیں کہ 23 مارچ 1999 کو اُن کی شادی ہوئی۔ 11 سال بعد خدا نے بیٹے سے نوازا۔ پیشہ ورانہ ذمے داریاں اُنھیں مصروف رکھتی ہیں، گھر والے وقت نہ دینے کا شکوہ کرتے ہیں، مگر اہلیہ تعلیم یافتہ اور سمجھ دار ہیں، بہت سے مسائل خود حل کر لیتی ہیں۔

کھانے میں اُنھیں میٹھا پسند ہے۔ گرمی کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کرکٹ کا کھیل پسند ہے۔ ''آج کبھی کبھار کرکٹ کھیل کر پرانی یادیں تازہ کرلیتا ہوں۔'' پسندیدہ مقام یا ملک کے متعلق کہنا ہے،''یوں تو میں نے دنیا دیکھی ہے، مگر جب بھی میں ایران کا دورہ کرتا ہوں، مجھے روحانی سکون ملتا ہے۔'' جب کسی تنظیم کی جانب سے یونیورسٹی میں کلاسز کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے، اُس دن شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں،''سارا دن کرب میں گزرتا ہے۔ اِس سے ہمیں بھاری نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں