غزل
تم سامنے تھے اس لیے سودا نہیں کیا
ورنہ متاع ِ دل کو تو سستا نہیں کیا
میں ہی تمہارے بخت کی روشن لکیر تھی
تم نے گنوا دیا مجھے، اچھا نہیں کیا
تجھ سے محبتوں کی خطائیں ضرور کیں
لیکن یقین کر، کبھی دعوی نہیں کیا
اپنی ہی ذات پر انہیں تنہا سہا مگر
ہم نے اذیتوں کو بھی آدھا نہیں کیا
چِھن چِھن کے پھر ملے ہیں محبت کے ذائقے
رب نے تو میرے رزق کو تھوڑا نہیں کیا
شامل ہیں میری عمر میں فرقت کی ساعتیں
ان روز و شب سے ہجر کو منہا نہیں کیا
شعروں نے میرے کرب کی تشہیر خوب کی
میں نے تو اپنے زخم کا چرچا نہیں کیا
(ایمان قیصرانی۔ ڈی آئی خان)
۔۔۔
غزل
کچھ معتدل حیات کا موسم ہُوا تو ہے
آنچل کسی کے دوش پہ پرچم ہوا تو ہے
پہلی سی اب مزاج میں شوخی نہیں رہی
لہجہ کسی کی بات کا سرگم ہُوا تو ہے
مری شبیہ کا عکس بھی شاید دکھائی دے
گوشہ کسی کی آنکھ کا پُر نم ہوا تو ہے
محسوس کررہا ہوں کئی روز سے کمی
نالہ شبِ فراق کا کچھ کم ہُوا تو ہے
تنہائیوں میں یاد بھی رہتی ہے ساتھ ساتھ
لیکن خیالِ یار بھی ہمدم ہوا تو ہے
اڑتی سی اک خبر ہے کہ وہ بھی اداس ہے
اس کو بھی میری ذات کا کچھ غم ہُوا تو ہے
جلتا ہوں سَر سے پیر تک اپنی ہی آگ میں
کچھ حسرتوں کے زخم کا مرہم ہوا تو ہے!
کوئی تو ایسی بات تھی جو دل میں چبھ گئی
جس کا ملال آپ کو محرم ؔ ہُوا تو ہے
(رفیع یوسفی محرم۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
جب پرندوں کے پَر نکلتے ہیں
ان کے سینوں سے ڈر نکلتے ہیں
کاٹ دیتے ہیں کاٹنے والے
جونہی شاخوں سے سَر نکلتے ہیں
میری آہ و فغاں مرے نالے
ہو کے اشکوں سے تَر نکلتے ہیں
ایک تاریک دشت کی جانب
کچھ مکانوں کے در نکلتے ہیں
پھر کہیں کے بھی ہم نہیں رہتے
تیرے کوچے سے گر نکلتے ہیں
اس زمیں کو نہ روند کر گزرو
اس زمیں سے گہر نکلتے ہیں
(صدام فدا۔ واہ کینٹ)
۔۔۔
''بنامِ رفتگاں''
جو تم گئے تو زندگی کازائچہ ملول ہے
اداس روز وشب پہ بے قراریوں کی دھول ہے
مگر گلہ فضول ہے!
تمہارے ساتھ اڑ گئے تمام رنگ روپ بھی
اجڑ گئی نصیب کی سفید و سرخ دھوپ بھی
یقین کا سروپ بھی!
اذیتوں نے قتل کر دیا مکالمات کو
اچاٹتی ہے خامشی ہماری کائنات کو
امید کے ثبات کو
تمہیں سے پھول، خواب، رنگ، حسن اور جمال تھے
تمہارے دم سے خوش ہمارے جیسے خستہ حال تھے
یقیں سے مالا مال تھے!
نہیں نظر میں آنے والے کل کی کوئی تازگی
جو تم گئے تو رہ گئی ہمارے ساتھ خستگی
یا دل خراش زندگی!
نہیں ہمارے واسطے زمین پر کہیں اماں
تمہارے بعد ہم سمیٹتے ہیں دل کی دھجیاں
اے رفتگاں! گئے کہاں؟
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
عمر گزری ہے قید خانے میں
آخری مورچہ بنانے میں
بھوک مصروف ہے سرِخیمہ
طفلِ مزدور کو رلانے میں
ضبط مژگاں تلک جو آ پہنچا
مسئلہ کیا ہے اب بہانے میں
کوئی وارث نہیں ملا میرا؟
کب سے رکھا ہوں سرد خانے میں؟
وقت کا کوئلا نہیں جلتا
میری سانسوں کے کارخانے میں
صبر کا اک ستون ہوتا ہے
ہر قلندر کے شامیانے میں
ایک دریا چھپا ہے قطرے میں
پیڑ ہوتا ہے ایک دانے میں
(سردارفہد۔ ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
نمی آنکھوں میں جو اُتری ہوئی ہے
بچھڑ جانے کی رُت ٹھہری ہوئی ہے
کسی کے لمس کی خوشبو ہے جس سے
مری جانِ حزیں مہکی ہوئی ہے
ازل سے یہ محبت کی کہانی
سراسر درد میں ڈوبی ہوئی ہے
کسی کا نام لکھا تھا زمیں پر
زمیں پر چاندنی اُتری ہوئی ہے
سرِ محفل وہ جب بھی مسکرائے
زمانے کو غلط فہمی ہوئی ہے
وہ گزرے ہیں نجانے کب یہاں سے
ابھی تک رہ گزر مہکی ہوئی ہے
کسی کی جھیل سی آنکھوں میں طارق
مری دنیائے دل ڈوبی ہوئی ہے
(طارق ملک، لیاقت پور۔ رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
جو پا لیا ہے اُس کو گنوانا نہیں ہے کیا
اب یہ بتاؤ لوٹ کے جانا نہیں ہے کیا
ہر موڑ پر ملے تُو مجھے کیوں شبِ فراق
میری طرح ترا بھی ٹھکانہ نہیں ہے کیا
جس نے بنا دیا ہے ترا اس طرح کا حال
اُس بے وفا کا نام بتانا نہیں ہے کیا
خاموش مت رہو کہ مرا بیٹھتا ہے دل
اب یہ بتاؤ عہد نبھانا نہیں ہے کیا
مت کر یُوں انتظار کے سارے چراغ گُل
میں نے ترے جوار میں آنا نہیں ہے کیا
جو کر رہے ہو ہم کو محبت سے دور تم
اچھا یہ الفتوں کا زمانہ نہیں ہے کیا
کیوں پڑ رہی ہے میری محبت میں زندگی
نام و نشان میرا مٹانا نہیں ہے کیا
(اسد علی باقی ۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
تم کہاں میری محبت کے لیے آئے ہو
تم تو بس اپنی ضرورت کے لیے آئے ہو
حسرتِ دید میں جلتے ہیں چراغوں کی طرح
پھر نہ کہنا کہ شکایت کے لیے آئے ہو
یہ الگ بات کہ چُپ اوڑھ کے بیٹھے ہو مگر
صاف لگتا ہے رفاقت کے لیے آئے ہو
تم نے الفت کو یہاں کھیل بنا رکھا ہے
دشت میں کس کی عبادت کے لیے آئے ہو
میں تو کہتی ہوں فقط شدتِ احساس اسے
دوسری بار عیادت کے لیے آئے ہو
ایسا لگتا ہے محبت کی ضرورت ہے تمہیں
ایسا لگتا ہے کہ چاہت کے لیے آئے ہو
(بینش اسد۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
یادوں کے جھرمٹ میں بامِ فلک پہ آتا ہوگا چاند
ہم دونوں کی آنکھ میں جب بھی پانی دیکھتا ہوگا چاند
جب ہم پہلی بار ملے تھے، وہ ہی ساعت دہرائیں گے
چپ کا جادو، خواب کا مطرب اور خوشبو پھیلاتا چاند
ان نینوں کی ہوشربا خاطر میں کب لاتا تھا
اس لہجے کی شیرینی میں لیکن کیسا ڈوبا چاند
تاروں کی شاخوں سے آخر تیرہ منظر لپٹے کیوں
جانے کیا کچھ سوچ رہا ہے آج کی رات میں تنہا چاند
ہر اک سانس میں وحشت بھر کر خواہش دل سے کہتی ہے
رہ دکھلاتا دھیرے دھیرے بدلی بھیتر کھویا چاند
(آئلہ طاہر۔ خانیوال)
۔۔۔
غزل
دل پر جو حکومت ہو وہی تاج وری ہے
ورنہ تو یہ شاہی بھی چراغِ سَحَری ہے
رنگوں بھری دنیا میں ہے وحشت بھی بلا کی
تتلی کسی مسلی ہوئی تتلی سے ڈری ہے
کیا تھا کہ بہاروں میں بھی ہر پیڑ تھا خالی
کیا ہے کہ خزاؤں میں بھی ہر شاخ ہری ہے
کیا چیز ان آنکھوں میں رکھی ہے مرے رب نے
کیا بات ان آنکھوں نے مرے دل میں بھری ہے
صنّاعی بتاتا ہے وہ بدخو اسے خود ہی
دھوکے کو وہ کہتا ہے کہ یہ شکل گری ہے
آنکھوں کو بھگوتے ہیں خوشی کے کبھی آنسو
سانسوں کو ڈبوتی کبھی آنکھوں کی تری ہے
دانائی تمہاری کسے معلوم ہے احسنؔ
مشہور زمانے میں تو آشفتہ سری ہے
(احسن خلیل احسن ۔ڈی آئی خان)
۔۔۔
غزل
کبھی چراغ کبھی سائباں بناتی ہے
ہماری شعلگی بجھ کر دھواں بناتی ہے
پڑا ہو جیسے مسافر گھنیری چھاؤں میں
کسی کی یاد بھی ایسا سماں بناتی ہے
اسے کہو کہ محبت سے دور دور رہے
یہ دل پہ رنج کے پختہ نشاں بناتی ہے
فرشتے ان کی مہک سے زمیں پہ آتے ہیں
وہ روٹیاں جو مرے گھر پہ ماں بناتی ہے
اور اب تو پاؤں بھی زخمی ہیں زندگانی کے
جہاں جہاں سے بھی گزرے نشاں بناتی ہے
(محمد ادریس روباص۔ ڈی آئی خان)
۔۔۔
غزل
ترکِ تعلقات کا الزام دیجیے
لیکن اس احتراز کو کچھ نام دیجیے
کر دے جو میری روح کو دنیا سے بے خبر
مے خانۂ نگاہ سے وہ جام دیجیے
یہ دشتِ بے امان ہے بارش کا منتظر
آنکھوں کو اپنی دید کا انعام دیجیے
محفل میں اپنا سامنا ہو جائے بھی اگر
ترچھی نظر سے پیار کا پیغام دیجیے
دنیائے انبساط میں جس کی سحر نہ ہو
مجھ کو دیارِ عشق سے وہ شام دیجیے
دل چیرنا ہی آپ کا شیوہ سہی مگر
کارِ رفو گری بھی تو انجام دیجیے
آتی ہے میرے رو برو چٹھی کھلی ہوئی
قاصد کو اب تو دوسرا کچھ کام دیجیے
دل کے معاملات جو چھپتے نہیں تو کیا
ہاتھوں میں اپنا ہاتھ سرِ عام دیجیے
(منزہ سید۔ ساہیوال)
۔۔۔
خستگی
جو ناخنوں سے کھرچ رہی ہے
سفید بالوں سے خستگی کو
وہ جس کے چہرے پہ بل پڑا ہے
شباب مغرب کو چل پڑا ہے
ہماری بستی کی وہ ضعیفہ
ادھیڑ عمری سے ٹھیک پہلے
حسین و دل کش پری نما تھی
مگر یہ حسن و شباب اس کا
ادھیڑ عمری میں ڈھل چکا ہے
تو بات کچھ اس طرح ہے مالک
ہمارے دل میں بھی اک حسینہ
حسین و دل کش پری نما ہے
تُو اس سے آنکھیں نہ پھیر مالک
شبابِ جاناں کی خیر مالک
بڑا تماشا بنا ہوا ہے!!
(شہزاد مہدی۔ اسکردو، گلگت بلتستان)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی