ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ پرجوش پاکستان کی اونچی اڑان

گرین شرٹس نے بھارت کے بعد نیوزی لینڈ کو بھی شکست دے کر کرکٹ کی دنیا میں اپنی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔


Abbas Raza November 07, 2021
گرین شرٹس نے بھارت کے بعد نیوزی لینڈ کو بھی شکست دے کر کرکٹ کی دنیا میں اپنی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔ فوٹو : اے ایف پی

حیران کن بیٹنگ، بولنگ یا فیلڈنگ کی بدولت حاصل ہونے والی ناقابل یقین فتوحات کی وجہ سے دنیا بھر کے کروڑوں شائقین کرکٹ سے بے پناہ لگاؤ رکھتے ہیں۔

سنسنی خیزی کی وجہ سے ہر گیند کے ساتھ دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوتی ہیں، وقت کم اور مقابلہ سخت ہونے کی وجہ سے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں سنسنی خیز لمحات زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

پاکستان ٹیم ہمیشہ سے ناقابل یقین کارکردگی دکھانے کے لیے مشہور ہے،گرین شرٹس کی تاریخ حیران کن فتوحات اور پریشان کن شکستوں سے بھری پڑی ہے، شاید اسی لیے ٹی ٹوئنٹی متعارف کروائے جانے کے وقت سے ہی پاکستان کا پسندیدہ فارمیٹ رہا ہے،اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گرین شرٹس کے سوا دنیا کی کسی بھی ٹیم نے 5 بار ورلڈ کپ سیمی فائنل تک رسائی حاصل نہیں کی۔

اس سفر میں کئی سنسنی خیز لمحات آئے،پاکستان نے کئی حیران کن فتوحات سے پرستاروں کے چہروں پر خوشیاں بکھیر یں اور کئی بار توقعات کے برعکس کارکردگی پیش کرتے ہوئے مایوس بھی کیا،جنوبی افریقہ میں 2007میں ہونے والے پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں گرین شرٹس کو فائنل میں بھارت کے ہاتھوں 5وکٹ سے شکست ہوئی تھی،مصباح الحق کا ریورس سوئپ ناکام ہونے پر جیتی بازی ہاتھ سے نکل گئی۔

اگلا ایڈیشن 2009 انگلینڈ میں تھا جس میں پاکستان نے فیصلہ کن معرکے میں سری لنکا کو 8وکٹ سے زیر کرتے ہوئے ٹائٹل پر قبضہ جمایا،ویسٹ انڈیز میں ورلڈکپ2010میں پاکستان نے 3میچز میں صرف ایک جیت پائی مگر بہتر رن ریٹ کی بدولت سیمی فائنل کھیلنے کا موقع مل گیا جہاں آسٹریلیا نے 3وکٹ سے ہرایا،مائیک ہسی نے سعید اجمل کی پٹائی کرتے ہوئے یقینی فتح سے محروم کردیا تھا۔

سری لنکا میں ہونے والے 2012کے میگا ایونٹ کے سپر 8مرحلے میں گرین شرٹس نے 3میں سے 2میچ جیت کر گروپ میں دوسری پوزیشن کے ساتھ فائنل فور میں جگہ بنائی جہاں سری لنکا نے 16رنز سے زیر کرلیا،بنگلادیش میں ہونے والے ورلڈکپ2014 کے سپر 10مرحلے میں پاکستان ٹیم 2میچز جیت اور اتنے ہی ہار کر اپنے گروپ میں تیسرے نمبر پر رہی اور فائنل فور میں جگہ نہیں بناپائی۔

گزشتہ میگا ایونٹ 2016میں بھارت میں ہوا تھا،سپر 10مرحلے میں گرین شرٹس نے 4میں سے صرف ایک میچ جیتا اور گروپ میں چوتھے نمبر پر رہتے ہوئے باہر ہوگئے،اس بار ٹائٹل کی جانب سفر جاری ہے، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کو 4،4سیمی فائنلز کھیلنے کا اعزاز حاصل ہے۔

پاکستان کا یو اے ای میں جاری ورلڈ کپ میں سفر بھی حیران کن رہا ہے،گزشتہ کئی سیریز میں مڈل آرڈر کے مسائل سامنے آئے، پاور ہٹرز کی تلاش کے لیے کئی تجربات ناکام ہوئے، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز کی کنڈیشنز یو اے ای سے ملتی جلتی ہونے کی وجہ سے امید کی جا رہی تھی کہ پاکستان کو ورلڈ کپ کے لیے اچھا کمبی نیشن بنانے میں بھی مدد ملے گی،نام نہاد سیکیورٹی خدشات کو جواز بناتے ہوئے دونوں ٹیموں نے میچز کھیلنے سے ہی انکار کر دیا تو قومی کرکٹرز کو میگا ایونٹ کی تیاری کا موقع نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں ہی مل سکا۔

صہیب مقصود کی انجری اور چند کھلاڑیوں کی فارم اچھی نہ ہونے کی وجہ سے آخری وقت میں چند تبدیلیاں بھی کرنا پڑیں، نئے کمبی نیشن کی کارکردگی کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا، پہلا میچ ہی روایتی حریف بھارت سے ہونے کی وجہ سے پرفارمنس کے لیے دباؤ بھی بہت زیادہ تھا،شاہین شاہ آفریدی نے پہلے اسپیل میں ہی ایسی دھاک بٹھائی کہ مضبوط بھارتی بیٹنگ لائن کا اعتماد متزلزل ہو گیا،دیگر پولرز نے بھی اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور کسی بیٹسمین کو چھکے چھڑانے کی اجازت نہیں دی۔

دباؤ سے بھرپور میچ میں پاکستان کی ابتدا میں وکٹیں گرنے سے فتح کا سفردشوار ہو سکتا تھا مگر بابر اعظم اور محمد رضوان نے انتہائی پراعتماد بیٹنگ سے کسی دوسرے بیٹسمین کی آزمائش کا موقع ہی نہیں آنے دیا۔

اس بڑی فتح کے بعد قومی ٹیم کے مسائل پیچھے رہ گئے، یقین اور اعتماد کی دولت نے گرین شرٹس کے جوش و خروش میں بے پناہ اضافہ کر دیا،نیوزی لینڈ اور افغانستان کے خلاف میچز میں مشکل لمحات آئے بھی تو کھلاڑیوں نے ہار نہیں مانی، پوری ٹیم میں سب سے زیادہ تنقید آصف علی کی شمولیت پر ہوئی تھی،کسی بھی پلیئر سے زیادہ دباؤ بھی ان پر تھا،حیران کن طور پر انہوں نے سب اندازے غلط ثابت کرتے ہوئے ایسے چھکے چھڑائے کہ سب عش عش کر اٹھے۔

نمیبیا سے میچ میں محمد حفیظ کی فارم بھی بحال ہوگئی، شعیب ملک بھی مختصر مگر کارآمد اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے ہیں،فخر زمان کو ٹائمنگ میں مشکل پیش آ رہی ہے،بیٹنگ میں عمادوسیم اور شاداب خان بھی دشواری محسوس کر رہے ہیں،البتہ بولنگ میں کنڈیشنز کا بہتر استعمال کیا ہے، شاہین شاہ آفریدی ہمیشہ کی طرح توقعات کے مطابق پرفارم کر رہے ہیں، حارث رؤف نے بھی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور لائن و لینتھ میں نمایاں بہتری لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، حسن علی کا ردھم بھی واپس آنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔

پاکستان میں ابھی تک کی کارکردگی سے تمام تمام اندازے غلط ثابت کیے ہیں،کھلاڑیوں میں جیت کا جذبہ نظر آ رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ چیئرمین رمیز راجہ کی تنقید سے بے پرواہ ہوکر بے خوف کرکٹ کھیلنے کی ہدایت نے بھی پلیئرز کو شیر کردیا ہے، عوام کی توقعات بھی بلندیوں کو چھونے لگی ہیں۔

اپنی تاریخ میں دوسری بار عالمی ٹی ٹوئنٹی کپ پر قبضہ جمانے کے لیے پاکستان کو سیمی فائنل اور فائنل دو میچز میں عمدہ کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھنا ہے، امید ہے کہ کھلاڑی کسی سہل پسندی کا شکار ہوئے بغیر مسائل کی چکی میں پستے ہوئے عوام کی جھولی میں خوشیاں ڈالنے میں کامیاب ہوں گے۔

یاد رہے کہ پاکستان نے ماضی میں بھی مشکل حالات میں توقعات کے برعکس کارکردگی پیش کرتے ہوئے ٹائٹل جیتے ہیں، ورلڈ کپ 1992 میں فٹنس اور کمبی نیشن کے مسائل تھے، چند کرکٹرز میں سرد جنگ کی باتیں بھی کی جا رہی تھی مگر گرین شرٹس ابتدا میں آگ لگانے کے بعد ایسا سنبھلے کہ ٹائٹل پر قبضہ جما کر ہی دم لیا، 2009 میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملہ کے بعد پاکستان کرکٹ پر بہت برا وقت تھا مگر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت لیا۔

رواں سال نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے اچانک دورے منسوخ کرکے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے عمل پر کاری ضرب لگائی ہے،اس اقدام کے پیچھے بھارتی سازش کے تانے بانے بھی نظر آچکے، گرین شرٹس نے بھارت کے بعد نیوزی لینڈ کو بھی شکست دے کر کرکٹ کی دنیا میں اپنی اہمیت کا احساس دلایا ہے، ٹرافی بھی اٹھالیں تو سونے پر سہاگہ ہوجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں