افغانستان سے ترکی تک خطے کی بدلتی صورتحال
افغانستان،ایران،عراق اور شام،یہ مسلمان ممالک مل کر ایک بڑا اور اہم خطہ بناتے ہیں
افغانستان،ایران،عراق اور شام،یہ مسلمان ممالک مل کر ایک بڑا اور اہم خطہ بناتے ہیں۔امریکا اس خطے میں اپنا دبدبہ اور اثر و رسوخ قائم رکھنے میں ناکام نظر آتا ہے۔در اصل امریکی پالیسیاں اس سارے خطے میں اسرائیل کے لیے سہولت کاری کے جذبے کے گرد گھومتی ہیں۔امریکا صرف اسرائیل کی سلامتی میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ سارے خطے کے ممالک اس کے سامنے دم نہ مار سکیں۔
پچھلے چند سالوں میں امریکا نے یہ کوشش کی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے اہم عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر خطے کے باقی مسلمان ملکوں کے لیے ایک مثال بنیں۔امریکا اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب رہا ہے لیکن ابھی تک وہ کچھ نہیں ہو پایا جس کی امریکا توقع کر رہا تھا۔ امریکا کو اب یہ احساس بھی ستا رہا ہے کہ بہت تیزی سے ترقی کرتا چین کئی میدانوں خاص کر معاشی میدان میں امریکا سے آگے نکل کر اس کے دبدبے کے لیے بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
اس لیے امریکا کے پاس اپنے اور اسرائیل کے مشترکہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے وقت کم ہے۔اسرائیل خطے میں ایران کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ایران،لبنان،شام اور عراق کے اندر خاصا اثرو رسوخ رکھتا ہے۔اسرائیل کو لبنان میں حزب اﷲ کے ہاتھوں جو مشکلات درپیش ہیں وہ ان سب کے پیچھے ایرانی ہاتھ کو دیکھتا ہے۔
یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے لیکن حزب اﷲ کے اپنے اندر بہت دم خم ہے۔اسی طرح اسرائیل کے ہاتھوں پے در پے نقصات اُٹھانے کے باوجود شام،اسرائیل اور امریکا کی ہاں میں ہاں ملانے کو تیار نہیںاور یہ بات امریکا کو پسند نہیں۔ امریکا اور اسرائیل دونوں سمجھتے ہیں کہ اگر ایران ہاتھ کھینچ لے تو شام کو بآسانی سیدھا کیا جا سکتا ہے۔ اب تو شام دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو رہا ہے۔یہ ساری صورتحال اسرائیل کے لیے ناپسندیدہ ہے اور ساتھ ہی امریکی پلان کے بھی خلاف ہے۔
جب سے جناب طیب اردگان ترکی میں برسرِ اقتدار آئے ہیں امریکا اور اسرائیل دونوں کے لیے مصیبت بنی ہوئی ہے۔جناب اردگان سے پہلے ترکی حکومت،امریکی پالیسیوں کے مطابق چلتی تھی اس لیے بہت لمبے عرصے تک ترکی،اسرائیل اور امریکا کے بہت ہی اچھے تعلقات رہے ہیں لیکن اب یہ تعلقات دھوپ چھاؤں کی مانند ہیں بلکہ زیادہ تر چھاؤں ہی نظر آتی ہے۔یورپی ممالک بھی مشکل میں ہیں،ترکی یورپ کا پڑوسی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک یورپی ملک بھی ہے۔ کئی یورپی ممالک میں ترکی النسل لوگ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
ترکی کی بے پناہ فوجی قوت،شاندار ماضی اور مضبوط سماج ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ترکی کو نہ تو اِگنورIgnoreکیا جا سکتا ہے اور نہ ہی تر نوالہ بنایا جا سکتا ہے۔ ترکی کے ساتھ تعلقات اکثر یورپی ممالک کی ضرورت ہے لیکن ترکی کو کمزور دیکھنا بھی ان اقوام کا خاصہ ہے۔امریکا کے فوجی اڈے ترکی کے اندر ہیں۔ یوں امریکا بھی ترکی کو ایک حد تک قریب رکھنا اپنی مجبوری سمجھتا ہے۔اسرائیل کی تو شدید خواہش ہے کہ ترکی موجودہ روش چھوڑ کر اسرائیل کے ساتھ ہمقدم ہو جائے اور اپنے دیرینہ تعلقات کی راہ اپنائے۔
موجودہ انتظامیہ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعدسعودی معاشرے کو آزاد اور سیکولر بنیادوں پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ چند دن پہلے اسرائیل کے ایک عبرانی اخبار نے اطلاع دی ہے کہ امریکا میں اسرائیل کی حامی مضبوط لابی کے سرکردہ افراد پر مشتمل ایک وفد نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور سعودی شاہی خاندان کے افراد اور حکومتی وزراء سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اس سے پہلے متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل سے تعلقات استوار کرچکے ہیں۔ پاکستان اس وقت شدید ترین مالی مشکات میں گھرا ہوا ہے۔
سعودی حکومت نے پاکستانی وزیرِ اعظم کو دورے کی دعوت دی اور ایک مالی پیکیج دے کر تعلقات ٹھیک کر لیے۔پاکستان ویسے بھی کبھی کھلم کھلا سعودی عرب کے مخالف کیمپ میں نہیں گیا۔ سعودی عرب کا اصل مسئلہ ایران ہے۔ یمن میں جاری جنگ میں سعودی مخالف حوثی قبائل کا پلڑا بھاری ہے۔یہ جنگ سعودی عرب کو مہنگی پڑ رہی ہے۔حوثیوں کے آئے دن ڈرون حملوں سے سعودی تیل صاف کرنے والے کارخانے اور یمن بارڈر کے قریب ہوائی اڈے نشانہ بن رہے ہیں۔
اگر سعودی عرب ایران سے تعلقات بہتر کر لے تو ایرن کو اس بات پر راضی کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ وہ حوثیوں کی امداد معطل کر کے انھیں مذاکرات کی میز پر لے آئے۔ ایران،عراق،لبنان اور شام میں بھی اپنےAssets کے ذریعے اچھا خاصا اہم ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بہتر ہونے سے ایران کو اس بات پر بھی راضی کیا جا سکتا ہے کہ وہ عراق،شام اور لبنان میں حالات کو بہتر بنانے میں مدد گار ہو۔ اطلاع یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے مابین مذاکرات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔عراق ان مذاکرات میں ایک سہولت کار کا کردار نبھا رہا ہے۔ ایران سعودی عرب بہتر تعلقات سے اسرائیل بھی فائدے میں رہے گا۔
یورپی یونین کی کوششوں سے ایران،یورپی یونین اور امریکا کے مابین جوہری مذاکرات 29نومبر سے آسٹریا کے دار الحکومت ویانا میں دوبارہ شروع ہو رہے ہیں۔ اوباما کے دور میں ایک جوہری معاہدہ ہوا تھا لیکن سابق امریکی صدر ٹرمپ نے یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے امریکا کو اس معاہدے سے الگ کر لیا۔یورپی یونین اس سارے عرصے میں کوشش میں رہی کہ امریکا اس معاہدے میں واپس آ جائے لیکن ٹرمپ راضی نہ ہوا۔ٹرمپ کے بعد ایران امریکی شرائط پر مذاکرات کے لیے راضی نہیں تھا۔ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد یورپی یونین کی کوششیں رنگ لائیں۔ایران میں نئے صدر کے اقتدار سنبھالنے کے بعد تعطل کا شکار یہ مذاکرات بحال ہونے جا رہے ہیں۔
جوہری معاہدے سے متعلق ایرانی مذاکرات کار علی باقری نے اس کی تصدیق کی ہے۔ایران کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے اوپر Crippling پابندیاں ختم ہوں۔اسی لیے جناب باقری نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ہم نے 29نومبر کو ویانا میں غیر قانونی اور غیر انسانی پابندیوں کو ہٹانے کے مقصد سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔امریکا بھی اب یہ چاہتا ہے کہ کوئی ایسی صورت پیش آ جائے جس سے وہ باعزت طور پر جوہری معاہدے میں واپس آ سکے۔
ایسے لگتا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد نئی صف بندیاں ہونے جا رہی ہیں۔ممکن ہے مستقبلِ قریب میں سعودی عرب،ایران اور امریکا بہت قریب آ جائیں۔2023کے بعد ترکی بھی ایک نئی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہو سکتا ہے۔پاکستان کے لیے ان حالات کو بنظرِ غور دیکھنے اور نتائج اخذ کرنے کی ضرورت ہے،ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو بہت ہوشیاری سے نئے حالات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔