اسلام میں خودکُشی کی مذمّت
یہ دنیا دارالامتحان ہے، ہر وقت اور ہر منزل پر آدمی کا واسطہ نت نئے مسائل سے پڑتا رہتا ہے۔
آج کل خودکشی کا رجحان اتنا عام ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان میں ہی نہیں بل کہ پوری دنیا میں آئے روز خودکشی کے واقعات رونما ہورہے ہیں، جن کی خبریں آپ اخبارات اور مختلف نیوز چینلز سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔
حالاں کہ اس نامناسب اقدام کو کسی بھی سماج اور معاشرے میں بھی اچھی نگاہ سے بالکل بھی نہیں دیکھا جاتا۔ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ ملکی قانون میں یہ اقدام بہ ذات خود کوئی بُرا نہیں ہے اور نہ قابل مواخذہ ہے البتہ اقدام خودکشی کو ضرور جُرم قرار دیا گیا ہے گویا کہ کوئی شخص خودکشی کی کوشش کرے اور کسی وجہ سے وہ اس میں ناکام ہوجائے تو ایسی صورت میں اسے سزا دی جائے گی۔ اس کے مقابلے میں اسلام کی تعلیم اس کے برعکس ہے اور وہ اس عمل کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔
مصائب و آلام اور ناکامی وقتی ہوتی ہے، یہ کبھی تو جلد رفع ہوجاتی ہیں اور کبھی وقت لگتا ہے۔ اﷲ نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عبادت کے لیے اس دنیا میں پیدا کیا ہے تو پھر کیوں نہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو کفران نعمت ہے اور بزدلی بھی ہے جو مومن کی شان کے خلاف ہے۔
کون انسان کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت واقع ہوگی یہ صرف اﷲ ہی جانتا ہے اور زندگی دینے والے کو ہی موت دینے کا اختیار ہے۔ انسان کے بس میں اگر یہ اختیار ہوتا تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا۔
انسان کا اس دنیا میں زندہ رہنا بھی تقویت اور ترقی درجات کا باعث ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''کسی کو بھی موت کی تمنا نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے کہ اس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہوگا او اگر بُرا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ تائب ہوجائے۔''
قرآن پاک و حدیث نبویؐ میں متعدد مقامات میں وارد ہوا ہے کہ اہل ایمان کو موت کی دعا نہیں کرنا چاہیے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ مصائب و مشکلات اور بیماری سے دوچار ہونے کے بعد اسلام، انسان کو خودکشی کی اجازت دے۔ اگر کوئی شخص خودکشی کرتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ہوگی۔ حضرت عبداﷲ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی نفس کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔'' انسان کتنا ہی متقی اور پرہیزگار ہو اور کتنی ہی نیکیاں اس نے کمائی ہوں اور بھلائی کے کام کیے ہوں اگر وہ دنیاوی پریشانیوں اور ناکامیوں سے دوچار ہو کر یہ اقدام کرتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
ارشاد ربانی کا مفہوم ہے کہ جب موت کا وقت آجاتا ہے تو ایک ساعت بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ جب کہ خودکشی کا اقدام مشکلات سے فرار کا ایک راستہ ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے، ہر وقت اور ہر منزل پر آدمی کا واسطہ نت نئے مسائل سے پڑتا رہتا ہے۔ وہی شخص اس میں کام یاب ہوتا ہے جو ہر طرح کی پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جائے۔ جو شخص ان مشکلات میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور جلدبازی اور بے صبری میں اپنی متاع حیات ہی کو ختم کردے تو وہ موت کے بعد والی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں برباد کرلیتا ہے۔
آخرت میں وہی شخص کام ران ہوگا اور اس کا لطف اٹھائے گا جس نے اس دنیا میں نازک ترین لمحات میں بھی خدا کا بندہ ہونے کا ثبوت دیا اور زندگی کی آخری سانس تک وہ اس پر قائم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس دنیا کو آنے والی دوسری دنیا کا ضمیمہ قرار دیا ہے، یہاں جو عمل اچھا یا بُرا کیا جائے گا اس کا بدلہ اسے دوسری زندگی میں مل کر رہے گا۔ خودکشی، ایک غلط اور ناپسندیدہ عمل ہے جس سے آدمی کی آخرت خراب ہوتی ہے۔
روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں بڑی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور ہر محاذ پر دشمنوں کا مقابلہ کرتا رہا، اس کی بہادری کو دیکھ کر ہر طرف سے تحسین و تعریف ہونے لگی، بالاخر وہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگیا اور زخم کی تکلیف برداشت نہ کرسکا تو اس نے اپنی ہی تلوار کی نوک اپنے سینے میں پیوست کرلی جس سے اس کی موت واقع ہوگئی اس سے وہ جہنمی ٹھہرا۔
سرکار دوعالمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ لوگوں کی نظر میں ایک آدمی (ساری عمر) بہشت والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے حالاں کہ وہ دوزخی ہوتا ہے اور ایک آدمی (عمر بھر) دوزخ والوں کے سے کام کرتا ہے حالاں کہ وہ جنتی ہوتا ہے۔ اسی طرح حضرت جندب بن عبداﷲ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے پہلے جو قومیں گزر چکی ہیں ان میں سے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ اسے زخم لگا وہ اس کی تکلیف برداشت نہ کرسکا اور اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا اس سے اس قدر خون بہا کہ وہ فوت ہوگیا اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے جلدی کی قبل اس کے کہ میں اس کی روح قبض کرتا، اس نے خود ہی اپنے آپ کو ختم کردیا، لہذا میں نے اس کے لیے جنّت حرام کر دی۔
ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کے محبوب نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ کو کسی لوہے کے ہتھیار سے قتل کرلے تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا وہ اس کو اپنے پیٹ میں بھونکتا رہے گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ جلتا رہے گا اور جو شخص زہر پی کر اپنی جان لے تو وہ چوسا کرے گا اسی زہر کو، اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہے گا اور جو شخص اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر مار ڈالے گا تو وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں گرا کر ے گا، سدا اس کا یہی حال رہے گا۔
خودکشی کرنے والے کے ساتھ ناصرف اﷲ کا معاملہ دردناک ہوگا بل کہ دنیا میں بھی ایسے لوگوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور اس کے بُرے نتائج سے اس کے گھر والے اور عزیز و اقارب دوچار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے رشتے داروں سے معاشرے کے دوسرے لوگ تعلق نہیں رکھتے، رشتے داری کرنے میں ان سے خائف ہوتے ہیں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ طعن و تشنیع کا معاملہ کرتے ہیں۔ خودکشی کرنے والا تو چلا جاتا ہے مگر اس کے اس غلط عمل سے اس کے احباب کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اس کا اندازہ اگر ہوجائے تو کوئی بھی اہل ایمان اس فعل حرام کا مرتکب نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اﷲ کے رسول کریم ﷺ کو ایک مسلمان کے خودکشی کرنے کی خبر ملی تو آپؐ انتہائی خفا ہوئے اور فرمایا کہ میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔
اسلام نے کسی بھی حال میں خودکشی کی اجازت نہیں دی۔ جس نے انسان کو پیدا کیا، ماں کے شکم سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک اس کی حفاظت و نگرانی فرمائی اور سکون کی نعمت سے سرفراز کیا، وہی اپنے بندوں کو مصائب میں مبتلا کرتا ہے اور وہی انہیں مشکلات سے نکالتا بھی ہے۔
انسان کو جب خوشی ملتی ہے تو وہ عیش کرتا ہے اور جب پریشانی آتی ہے تو وہ اس سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے اور اپنے اوپر موت طاری کرتا ہے، یہ کیسی بے وقوفی اور نادانی ہے۔ کچھ لوگ خودکشی کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ انسان اپنی جان کا مالک ہے اور اسے اختیار ہے کہ وہ اسے ختم کر دے یا باقی رکھے۔ طرفہ تماشا یہ کہ عام حالات میں تو اس عمل کو وہ پسند نہیں کرتے مگر بیماری اور تکلیف کی حالت میں اس عمل کو بہ روئے کار لانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ایسا شخص زندگی کو اس لیے ختم کر رہا ہے کہ وہ تکلیف کا باعث بن گئی ہے اور اس کی وجہ سے وہ سخت اذیت محسوس کر رہا ہے، یہ کتنی بودی دلیل ہے۔
خودکشی کرنے والے کی نمازجنازہ پڑھی جائے یا نہیں؟ اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی واضح صراحت نہیں ملتی۔ اسی وجہ سے اس مسئلے میں فقہائے کرام اور علمائے امت کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور بعض کے نزدیک ادا نہیں کی جائے گی۔ جب کہ درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی نماز پڑھی جانی چاہیے البتہ مسلمانوں کے ذی وجاہت اور سربرآوردہ لوگ چاہیں تو اس میں شریک نہ ہوں۔ اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ مومن گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوتا جو شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا اس کے لیے دعائے مغفرت کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ نماز جنازہ بھی دعائے مغفرت کی ایک صورت ہی تو ہے جب کہ قرآن مجید میں صرف مشرکین کے لیے بخشش کی دعا مانگنے کی ممانعت ہے۔
عہد نبوی ﷺ میں جس شخص کا نفاق بالکل کھلا ہوا تھا اور جس کا نبی کریم ﷺ کو علم دیا گیا تھا صرف ایسے منافقین کے لیے دعا و استغفار کرنے اور نماز جنازہ پڑھنے سے آپ ﷺ کو روکا گیا تھا اور جیسا کہ بعض احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کسی گناہ گار یا خطا کار کا جنازہ آپؐ نے خود نہیں پڑھایا، یہ محض تنبیہ کے طور پر تھا اور اس کی نوعیت بھی بعض اوقات عارضی تھی، یہ مقصود نہیں تھا کہ اس خطا کے مرتکب کا جنازہ کوئی دوسرا بھی نہ پڑھے بل کہ بعض حالات میں آپؐ نے صحابہ کرامؓؓ کو اس کا جنازہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی تھی۔
اس کی ایک نمایاں مثال مقروض کا جنازہ ہے جب کوئی مقروض مسلمان فوت ہوتے تھے تو آپ سرکار ﷺ دریافت فرماتے کہ ان پر کوئی قرض تو نہیں ہے ؟ اگر ہوتا تو آپؐ جنازہ پڑھانے سے اجتناب کرتے تھے مگر دوسرے صحابہ کرام ؓ کو پڑھنے کا حکم دیتے تھے بعد میں ایسا بھی ہوا کہ کوئی ادائی قرض کا ذمہ لے لیتا تھا یا بیت المال سے اس کا انتظام ہوجاتا تھا تو حضور پاک ﷺ جنازہ پڑھا دیتے تھے۔
اسی طرح کا معاملہ خودکشی کرنے والے کا بھی ہے کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ملتی جس سے ثابت ہو کہ نبی کریم ﷺ نے خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھانے کی ممانعت فرمائی ہو اور ایسے شخص کو جنازہ پڑھائے بغیر دفن کر دیا گیا ہو۔ جس جرم کے مرتکب کا جنازہ پڑھانے کی اﷲ کے رسول ﷺ نے اجازت مرحمت فرما دی ہے اور صحابہ کرامؓ کی جماعت نے جس کا جنازہ پڑھا دیا اس کے جنازے کی عام ممانعت کس بنا پر جائز ہو سکتی ہے۔ یقیناً بعض فقہاء نے خودکشی کرنے والے اور بعض دوسرے کبائر کا ارتکاب کرنے والے کا جنازہ نہ پڑھنے کا فتویٰ دیا ہے، لیکن اس کا علیٰ الاطلاق درست معلوم نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ان فقہائے کرام اور علمائے امت کی رائے قابل ترجیح ہے کہ بڑے سے بڑا گناہ گار بھی دعائے مغفرت اور نماز جنازہ کا محتاج و مستحق ہے۔
حیرانی ہے کہ اسلام میں خودکشی کے بارے میں اتنی واضح تصریحات کے باوجود آج ہمارے معاشرے میں یہ بہت عام ہوگئی ہے۔ معاشرے میں مسائل اور پریشانیاں ضرور بڑھ گئی ہیں لیکن ایک مسلمان کو اﷲ سے مدد طلب کرتے ہوئے ہمت و حوصلے سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے نہ کہ ہمت ہار کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے اور پس ماندگان کو مزید پریشانیوں کا شکار بنادے۔
آج معاشرے میں اگر اسلامی تعلیمات عام ہوں تو خودکشی کے رجحان کو کم کیا جاسکتا ہے۔ آ ج ہمارا معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے، جس کی وجہ سے پریشان حال لوگ مایوس ہوکر خودکشی جیسے گناہ کا ارتکاب کرنے لگے ہیں۔ ہمیں اﷲ کی رحمت سے بالکل مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ہمارے حکم رانوں کو بھی چاہیے کہ خدارا اب منہگائی، بے روزگاری اور دہشت گردی کا خاتمہ کریں تاکہ لوگ اپنی قیمتی جانوں کو خودکشی کرکے ضایع نہ کریں۔ اﷲ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ہمیں اپنے محبوب دوعالم ﷺ کی سچی محبت سے سرفراز فرما کر ہماری انفرادی و اجتماعی مشکلات کو آسان اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ آمین