تحریکی کارکنان کے نام
کارکنان کوچاہیے وہ اپناپیغام معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچائیں تاکہ تحریک عوامی قوت کاروپ دھارکرکمیابی سے ہمکنارہوسکے.
گزشتہ ماہ ایک دینی سیاسی جماعت کی جانب سے کراچی کے مقامی اسکول میں ایک سالانہ تین روزہ اجتماع عام کا انعقاد کیا گیا جس میں مجھے شرکت کا موقع ملا۔ اجتماع عام کے دوسرے روز ایک مذاکرے کا انعقاد کیاگیا جس کا موضوع تھا '' تحریک کو فروغ کیسے دیا جائے'' اس موضوع پر تحریک سے وابستہ کارکنان نے اظہار خیال کرنا تھا ، اس کا دورانیہ ایک گھنٹے پر محیط تھا۔
اس مذاکرے میں چند ہی نوجوانوں کی جانب سے وسیع النظر نکات سامنے آئے زیادہ تر نوجوانوں کی جانب سے پیش کیے گئے نکات سطحی نوعیت کے تھے ، اگر ان نکات کا جائزہ لیا جائے تو اس کا خلاصہ کچھ یوں تھا۔
''خرابیوں اور مسائل کا ذمے دار فرد کی اپنی ذات ہے ، جب تک فرد اپنی ذات کی اصلاح نہیں کرے گا مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ تبدیلی کا آغاز ہر فرد کو اپنی ذات سے کرنا ہوگا۔ نظام کی اصلاح سے پہلے فرد کی اصلاح ضروری ہے ، جو لوگ بھی تحریک سے وابستہ ہیں وہ لوگ جب تک اپنے عقائد، عبادات اور معاملات کی اصلاح نہیں کریں گے تحریک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتی۔
میں یہ نقطہ نظر توجہ سے سن رہا تھا، اس نقطہ نظر کو سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ ان تحریکوں سے وابستہ بیشتر نوجوان تحریکوں کو فروغ دینے کے عصری تقاضوں سے لاعلم ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں جو ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ منظم اور متحرک ہیں ان کا وسیع نیٹ ورک بھی موجود ہے ، ان جماعتوں کے پاس مخلص کارکنان ایک اثاثے کی صورت میں موجود ہیں لیکن یہ کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکیں۔
اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے راقم التحریر نے ان تحریکوں سے وابستہ نوجوانوں کے لیے چند نکات تحریر کیے ہیں تاکہ نوجوان ان نکات کو عملی طور پر اختیار کرکے ان تحریکوں کو کامیابی سے ہمکنار کرسکیں۔
سب سے پہلے کسی بھی سیاسی یا دینی سیاسی تحریک سے وابستہ نوجوان کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ تاریخ میں کسی بھی نبی، مصلح اور قومی لیڈر نے اجتماعی مسائل کا ذمے دار اپنے وقت کے نظام اور حاکموں کو قرار دیا جنھوں نے اپنے قائم کردہ سیاسی، معاشی اور عدالتی نظام کے ذریعے اپنے عوام کو غلام بنایا اور اپنے گروہی مفادات کے لیے ان کا استحصال کیا۔
موجودہ تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا میں چاہے وہ انقلاب فرانس ہو ، چاہے انقلاب چین میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں وہ بھی اسی وجہ سے رونما ہوئیں کہ سیاسی قیادت نے ہر فرد کو ٹھیک کرنے کے بجائے ایک ٹیم یعنی جماعت تیارکی پھر اس جماعت کے ذریعے رائے عامہ ہموار کی اور پھر عوامی قوت کے ذریعے ملک میں قائم باطل نظام کو چیلنج کیا اور اس کے خلاف تحریک برپا کرکے اس پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ اس کا خاتمہ کردیا اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے نظام حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر قومی نقطہ نظر سے اسے اقدامات کیے کہ اپنی قوم کو عروج پر پہنچا دیا۔
جو نوجوان کسی سیاسی یا دینی سیاسی جماعت میں شمولیت کا ارادہ رکھتے ہوں انھیں چاہیے کہ وہ سب سے پہلے مطالعہ کی عادت کو اپنائیں۔ مطالعہ انسانی بصیرت کو وسعت اور گہرائی نہیں دیتا بلکہ سوچ کو نئے زاویے بھی عطا کرتا ہے جس سے عمل کی راہیں متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ان خواہش مند نوجوانوں کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بعض سیاسی اور دینی سیاسی جماعتیں خاص حالات کی پیداوار ہوتی ہیں کچھ مخلص اور ذہین افراد اپنے وقت ، حالات ، ذوق اور نظریات کے تحت ان تحریکوں میں شامل ہوتے ہیں اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ یہ جماعتیں خاص حالات کی پیداوار ہوتی ہیں ، اس لیے جیسے ہی حالات تبدیل ہوتے ہیں یہ تحریکیں غیر موثر ہو جاتی ہیں۔ پھر جو لوگ شروع میں ان جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں یہ جماعتیں ان کی حد تک محدود ہوجاتی ہیں۔
ان کی حیثیت ایک پریشر گروپ کی ہوتی ہے جو گروہی شناخت کے سہارے اپنا وجود رکھتی ہیں۔ یہ جماعتیں گروہی مفادات تو حاصل کرلیتی ہیں لیکن ان کا ملک کی سیاست میں کوئی مرکزی کردار نہیں ہوتا۔ اس لیے کسی بھی تحریک میں شمولیت سے پہلے نوجوان کا غیر جذباتی انداز فکر کا ہونا بہت ضروری ہے۔
جب آپ دلی جذبے کے ساتھ کسی بھی تحریک سے وابستہ ہو جائیں تو اس تحریک کے نصب العین، اس کے مقاصد اور مقاصد کے حصول کے طریقہ کار سے پوری واقفیت رکھنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنی تحریک سے ہم آہنگ دیگر کام کرنے والی تحریکوں سے بھی مکمل واقفیت رکھتے ہوں تاکہ باہمی تعاون کرکے تحریکی مقاصد کی تکمیل کرسکیں اس کے ساتھ مخالف نظریات رکھنے والی تحریکوں کے نظریات سے بھی پوری طرح واقف ہوں بلکہ ان نظریات کے رد یعنی توڑ میں دیے جانے والے منطقی دلائل بھی آپ کے پاس موجود ہوں تاکہ فکری محاذ پر انھیں شکست دی جاسکے اور آپ کی تحریک کے مقاصد میں رکاوٹ بننے والی تحریکوں کو غیر موثرکیا جاسکے۔
تحریک کے کارکنان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف فکری محاذ پر متحرک ہوں بلکہ عملی محاذ پر بھی متحرک ہونا ضروری ہے یعنی آپ کا کردار اور آپ کی سوچ اور نظریات سے ہم آہنگ ہو اگر ایسا نہیں ہوگا تو لوگوں پر آپ کی دعوت اور پیغام کا کوئی اثر نہ ہوگا اور آپ کی جانب سے کی جانے والی تمام کوششیں بے کار جائیں گی۔
کارکنان کا یقینا یہ مشاہدہ ہوگا کہ بعض جماعتیں خواص یا مخصوص طبقات کو ہی اپنا پیغام پہنچاتی ہیں اور بعض جماعتیں عوام الناس یعنی معاشرے کے تمام طبقات کو ترجیح دیتی ہیں ، کارکنان یاد رکھیں جو جماعتیں مخصوص طبقہ میں کام کرتی ہیں۔ ان کی حیثیت پریشر گروپ کی ہوتی ہے وہ ملک میں کوئی بڑی تبدیلی لانے سے قاصر رہتی ہیں جب کہ جو جماعتیں عوام الناس یعنی معاشرے کے تمام طبقات میں کام کرتی ہیں ان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں وہ جماعتیں عوامی قوت کا روپ دھار لیتی ہیں ایسی جماعتوں کے سیاسی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
کارکنان کو چاہیے کہ وہ اپنا پیغام معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچائیں تاکہ تحریک عوامی قوت کا روپ دھار کر کمیابی سے ہمکنار ہوسکے اس ضمن میں خیال رہے کہ کارکنان کی اصل سیاسی تربیت کا بڑا ذریعہ ہی عوام الناس میں کام کرنے سے ہے۔
آخری بات کبھی ناامیدی اور مایوسی کا شکار نہ ہوں ہمیشہ پر امید رہیں۔ امید ہی ایسا عمل ہے جو عمل پر آمادہ رکھتا ہے اور اس طرح انسان کامیابی سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔