علامہ اقبال اور پاکستان
اقبال ایک فلسفی، مفکراسلام، عظیم شاعر کے طورپر پوری دنیا میں چھا گئے ان کی ذہانت و فطانت سے ان کے اساتذہ بھی متاثرتھے۔
ISLAMABAD:
چھپا کر آستین میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
سن اے غافل صدا میری' یہ ایسی چیز ہے جس کو
وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے ، ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
علامہ اقبال کے یہ اشعار پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے موجودہ دور کو مدنظر رکھتے ہوئے تخلیق ہوئے ہیں۔ آج پاکستان کے حالات نازک موڑ پر آگئے ہیں، ایک طرف آئی ایم ایف کا مہنگائی بڑھانے کا دباؤ تو دوسری طرف سی پیک کے مسائل۔ اور تیسرا اور بڑا اہم مسئلہ دشمن کی دیرینہ خواہش ہے کہ پاکستان کو مقروض اور قلانچ کرکے ایٹمی طاقت سے محروم کیا جائے، دشمن کی نگاہ میں ہماری ایٹمی قوت کچھ زیادہ ہی کھٹکتی ہے۔ اپنے انھی مذموم مقاصد کے تحت اس نے یہ جال بچھایا ہے اور سازشوں کے پل تعمیرکیے ہیں ، لیکن افسوس علامہ اقبال کے خواب کی یہ تعبیر ہرگز نہیں تھی۔
انھوں نے سب سے پہلے پاکستان کی تخلیق کا تصور بحیثیت صدر مسلم لیگ کے پیش کیا تھا، ان کی بلند پایہ فکر اور دور اندیشی پاکستان کی تعمیر میں مددگار ثابت ہوئی۔ علامہ نے سترہ سال قبل قیام پاکستان کا دنیا کے نقشے پر وجود میں آنے کی پیش گوئی کی تھی انھوں نے ہندو مسلم اتحاد کو ناقابل عمل قرار دیا اور علامہ نے دسمبر 1930 میں الٰہ آباد کے سالانہ اجلاس میں مسلم لیگ کے صدارتی خطبے میں علیحدہ اسلامی مملکت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس کے ساتھ ہی علامہ کی شاعری اور اپنے حکمت آموز پیغام نے مسلمانوں کے رسم و رواج، ہندو معاشرت اور تہذیب و ثقافت کے بتوں کو پاش پاش کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، انھوں نے اسلام کی صداقت شعاری، حیا پروری، مساوات اور آزادی فکر کے نغمے پوری دنیا میں بکھیر دیے، انھوں نے نئی نسل کے دل و دماغ پر اسلامی تعلیمات اور انسان کامل محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ حسنہ کے نقوش ثبت کر دیے ان کے اس فکر و عمل نے ایک انقلاب برپا کردیا۔
علامہ نے اپنی دوربینی اور افکار عالیہ کی بدولت پاکستان کی خود مختار اور مستقل مملکت کی تعمیر کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ 1932 میں مسلم کانفرنس کے صدارتی خطبے میں مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور باعزت اور باوقار زندگی بسر کرنے کا تفصیلی منصوبہ پیش کیا۔
علامہ اقبال نے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی اس وقت تک حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت بدلنے کے لیے تگ و دو نہ کرے، 1930 میں اس بات کا بھی اظہار کیا کہ ملک کے دستور کو اس مفروضے پر ترتیب دینا کہ ہندوستان ایک متحد ملک ہے یا پھر یہ کہ ہندوستان کا ان کلیات پر کاربند ہونا خود برطانوی جمہوری نظام کے حقیقی محرکات میں ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانا ہے۔ علامہ تقسیم کے حامی تھے، وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان بنوانے کا مطالبہ درست فیصلہ ہے۔
اپنے خیالات کے اظہار کے لیے علامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کو خط لکھا، جس میں انھوں نے اس بات کو واضح کیا، اس ملک میں اسلامی شریعت کو مرتب اور نافذ کرنا ایک آزاد اسلامی مملکت کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں ہے، اسلامی ہند کے ان مسائل کی عقدہ کشائی ممکن بنانے کے واسطے ضروری ہے مسلمان ریاستیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہو مہیا کی جائیں، اب ایسے مطالبے کا وقت آگیا ہے چونکہ ہندو مسلم فسادات کی صورت میں خانہ جنگی ایک مدت سے چل رہی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے ملک کے بعض حصوں میں مثلاً شمال مغربی ہندوستان میں فلسطین کا جیسا نقشہ نظر آئے گا۔
اقبال کے خطوط اور تصور پاکستان نے قائداعظم کو بے حد متاثر کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت کے نتیجے میں 1947 کو پاکستان وجود میں آگیا اور اس طرح علامہ کی سوچ اور خیال و خواب کو تعبیر مل گئی۔ لیکن عظیم قربانیوں اور ایثار کے بعد علامہ نے حالات کے پس منظر میں قوم کو موثر انداز میں نصیحت کی ہے:
یوں ہاتھ نہیں آتا' وہ گوہرِ یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمتِ مردانہ
یا سنجر و طغرل کا آئینِ جہاں گجری
یا مرد قلندر کے اندازِ ملوکانہ
یا حیرتِ فارابی یا تاب و تب رومی
یا فکرِ حکیمانہ یا جذبِ کلیمانہ
امیری میں' فقیری میں' شاہی میں غلامی میں
کچھ کام نہیں بنتا ہے جرأت رندانہ
اقبال ایک فلسفی، مفکر اسلام، عظیم شاعر کے طور پر پوری دنیا میں چھا گئے ان کی ذہانت و فطانت سے ان کے اساتذہ بھی متاثر تھے، وہ تاریخ اور ادبیات کے شجر عالم اور باکمال استاد تھے، ان کی شاعری ندرت خیال، وسعتِ نظر اور اسلامی فکر سے مرصع تھی۔ اقبال نے فن کی تشریح محض فن کی خاطر نہیں کی بلکہ زیست کے مقصد کو اجاگر کرنے کے لیے ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا، اقبال نے سوزِ حیات ابدی کو خوبصورت اور بامعنی الفاظ عطا کیے۔ انھوں نے اہل علم و دانش کی توجہ اس طرف دلائی ہے کہ بغیر علم و ہنر اور قول و فعل کے تضاد سے کامیابی ناممکن ہے۔
اے اہلِ نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شر کیا
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرہ نسیاں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
وہ ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
ڈاکٹر آرنلڈ اسلامی تاریخ و فلسفہ کے بہت بڑے عالم تھے ان کی محبت و شفقت اپنے شاگرد رشید علامہ کے ساتھ خصوصی تھی۔ علامہ کو شمس العلما سید میر حسن سے شرف تلمذ حاصل ہوا، ان کا ہی فیض تھا اقبال کو فارسی کی طرف رغبت ہوئی۔ علامہ نے اپنی نظم ''التجائے مسافر'' میں اپنے فاضل استاد سے عقیدت کا اظہار اس طرح کیا ہے۔
وہ شمع بارگہ خاندانِ مرتضوی
رہے گا مثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کو
نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
ہر سال 9 نومبر کو یوم اقبال تفریح کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لفظ تفریح کا استعمال میں نے محض اس لیے کیا ہے کہ علامہ اقبال کی تعلیمات سے استفادہ کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آج درسگاہوں کے حالات قابل افسوس ہیں جس قربانی نے پاکستان کو دنیا کے نقشے پر نمودار کیا، یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ رائیگاں ہونے کے قریب ہے، پاکستان محض چھینا، جھپٹی، ہوس اقتدار کے لیے نہیں بنایا گیا تھا عوام کو تحفظ اور معاشی و سماجی طور پر مضبوط بنانا تھا۔۔۔۔لیکن!