دل کا حال آپ نہیں جانتے احتیاط کیجئے

کسی کے خلاف کوئی بھی بات کرنے سے پہلے سوچیے، سمجھیے اور ہر لحاظ سے پرکھیے


کسی بھی پوسٹ کو پھیلانے سے پہلے کچھ دیر کےلیے رک جائیے۔ (فوٹو: فائل)

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ آسٹریلیا کی جیت کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ اس ورلڈکپ کے دوران ایک جانب ہماری کرکٹ ٹیم نے عمدہ کھیل کے ذریعے ناقدین کے منہ بند کردیے، وہیں دوسری جانب ہماری قوم نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز کے ذریعے جس انداز میں مخالفین کو لتاڑا وہ ہماری تربیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

اس ورلڈکپ کے دوران ہم ایک ایسی قوم بن کر سامنے آئے جو مزاج کے خلاف بات ہونے پر اسے اپنی مرضی کے معنی پہنا دیتی ہے۔ اس بات کا عملی مظاہرہ حالیہ کرکٹ میچز کے دوران اس وقت دیکھنے میں آیا جب افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو ناقص کھیل کی وجہ سے انڈیا سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے اپنی تازہ ترین دوستی کی پرواہ کیے بغیر افغانستان کرکٹ ٹیم پر الزام تراشی شروع کردی۔ کسی نے اس ہار کو آئی پی ایل کا ٹکٹ قرار دیا تو کسی نے روپے کا کمال قرار دیا۔ اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ ہمارے خیالات کس قدر تباہ کاری کا باعث بن رہے ہیں۔ ہم نے یہ تک نہ سوچا کہ اگر یہ افغان سچے اور ہم جھوٹے ثابت ہوگئے تو ہم کس منہ سے معذرت کریں گے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اگر کل کو افغانستان ٹیم کسی دوسرے موقع پر بھارت کو شکست دے دے تو یہی غدار ہمارے ہیرو بن جائیں گے۔

صرف یہی نہیں، ہم نے سیمی فائنل میں شکست کی ساری ذمے داری حسن علی پر ڈال کر وہ مقولہ سچ ثابت کردیا کہ ''نمک والا ہر کسی کو نمک ہی فروخت کرتا ہے''۔ کسی کے پاس کوئی ایسا آلہ نہیں تھا جس سے وہ جانچ سکے کہ حسن علی نے جو کچھ کیا جان بوجھ کر کیا، مگر الزامات اس انداز میں لگائے گئے کہ جیسے ہم دلوں کا حال جاننے میں کمال رکھتے ہوں۔

غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ہمارا یہ رویہ صرف کھیل تک ہی محدود ہے؟ من حیث القوم ہم زندگی کے ہر شعبے میں اس کیفیت کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر ماضی قریب میں عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہا جاتا تھا، بلکہ کچھ تو آج بھی اپنے اس قول پر قائم ہیں۔ مگر اسی یہودی ایجنٹ کے خلاف کوئی حتمی اور فیصلہ کن قانونی چارہ جوئی کرنے سے قاصر ہیں۔ عمران خان کو کشمیر فروش بھی کہا گیا، مگر کسی کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ انہیں عدالتوں میں کشمیر فروش ثابت کرسکے۔ اسی طرح عمران خان بھی وطن عزیز کے تین مرتبہ کے وزیراعظم پر کرپشن کے سنگین الزامات لگاتے رہے مگر ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر براجمان ہونے کے باوجود ان کے خلاف کارروائی سے قاصر رہے۔ حالیہ دنوں ان کے وزیروں کی جانب سے تحریک لبیک کے خلاف بھارت سے تعلقات کے الزامات لگائے گئے مگر پھر انہی بھارتی ایجنٹوں سے معاہدہ کیا گیا، انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی منظوری دی گئی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر معاملے میں اعتدال کا دامن تھامے رکھیں۔ کسی کے خلاف کوئی بھی بات کرنے سے پہلے، کسی بھی پوسٹ کو پھیلانے سے پہلے کچھ دیر کےلیے رک جائیے۔ سوچیے، سمجھیے اور ہر لحاظ سے پرکھیے کہ کہیں ہماری معمولی سی حرکت ہماری دنیا یا آخرت کی تباہی کا باعث تو نہیں بن رہی۔ اس کے بعد کوئی قدم اٹھائیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں