دعوت و تبلیغ… مشن پیغمبری
آج جب ہم سکون کھو بیٹھتے ہیں تو اسے دوبارہ پانے کے لیے ہم بہترین گاڑی، بنگلہ اورآسائش کی ساری چیزیں اکٹھی کرتے ہیں۔
QUETTA:
کورونا وبا کی پابندیوں کی وجہ سے ایک سال وقفے کے بعد رائے ونڈ میں عالمی تبلیغی اجتماع کا انعقاد ہوا۔جس میں سب کچھ اللہ کی طرف سے ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین دلوں میں لیے لاکھوں فرزندانِ توحید نے شرکت کی۔
پاکستان ہی نہیں، بھارت، بنگلہ دیش، چین، ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک سے مسلمان رائے ونڈ پہنچے اور تین تین دن کے دو مختلف مراحل میں اللہ اکبر کی روح پرور صداؤں سے فضاؤں کو معطر کرتے رہے۔ رائے ونڈ کا عالمی تبلیغی اجتماع حج بیت اللہ کے بعد مسلمانوں کا دوسرا بڑا اجتماع ہے۔
اللہ کا پیغام پہنچانا تبلیغی جماعت کا مشن ہے، حقیقت میں یہ مشن پیغمبری ہے۔ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس نور اللہ مرقدہ کو شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ سب سے مقدم اور ضروری کام تبلیغ اور مسلمانوں میں مسلمان ہونے کا احساس پیدا کرنا ہے اورجو دین سیکھے بغیر نہیں ہوسکتا، ان کی سوچ اور نظریہ تھا کہ دنیاکے کسی بھی پیشے یا ہنر سے زیادہ اس کے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ احساس اور طلب اگر پیدا ہوگئی تو باقی مراحل و منازل خود بخود طے ہو جائیں گے۔
تبلیغی جماعت کے اکابرین اور بزرگ حضرت مولانا محمد الیاس نور اللہ مرقدہ سے لے کر مولانا نذر الرحمٰن اور ان کے رفقاء سبھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی بعثت کا مقصد لوگوں کو بتا رہے ہیں۔ ان کے اندر احساس و طلب دین کی تڑپ پیدا کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ شہر شہر، قریہ قریہ جا کر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اسلام کا کلمہ طیبہ ہی اللہ تعالیٰ کی رسی کا وہ سرا ہے جو ہر مسلمان کے ہاتھ میں ہے، اسی سرے کو پکڑ کر آپ اسے پورے دین کی طرف کھینچ سکتے ہیں، مسلمان جب تک اس کلمہ کا اقرار کرتا ہے، اس کو دین کی طرف لے آنے کا موقع باقی رہتا ہے۔ یہ موقع کے نکل جانے سے پہلے اس سے فائدہ اٹھا لینا چاہیے۔
والد محترم حضرت اقدس مولانا حمد اللہ جان رحمہ اللہ سے سنا ہے کہ مولانا محمد الیاس نور اللہ مرقدہ مدینہ منورہ مستقل طور پر شفٹ ہوگئے تھے۔ انھوں نے ایک رات نبی رحمتﷺ کو خواب میں دیکھا اور نبی اکرمﷺ نے ان سے کہا کہ آپ ہندوستان واپس جائیں ہم نے وہاں آپ سے کام لینا ہے۔
بیدار ہونے کے بعد پریشان تھے کہ میں تو ضعف کی زندگی گزار رہا ہوں اورجنت البقیع میں دفن ہونے آیا ہوں، اس ضعف کی حالت میں ہندوستان جا کر کیا کام کرسکتا ہوں۔ انھوں نے یہ خواب اپنے کسی قریبی ساتھی کو سنایا تو انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ضعیف ہیں مگر آپ کو خواب میں کہا گیا کہ ہم نے کام لینا ہے اب یہ لینے والے کی حکمت ہے کہ آپ سے کیسے کام لیا جائے گا۔
تب وہ اس تعبیر پر مطمئن ہوئے واپس آئے اور تبلیغی جماعت کی داغ بیل ڈالی۔ آج پوری دنیا میں جماعت کے پھیلاؤ کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ واقعی اللہ نے نبی رحمت کے طفیل وبشارت مولانا الیاس رحمہ اللہ سے بہت بڑا کام لیا۔ حضرت مولانا محمد الیاس نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں '' ہم نے جماعتیں بنا کر دین کی باتوں کے لیے نکلنا چھوڑ دیا، حالانکہ یہی اصل بنیاد تھی۔ مدینہ میں اجتماعی اور متمدن زندگی تھی، وہاں پہنچتے ہی آپﷺ نے ہر طرف جماعتیں روانہ کرنی شروع کر دیں اور وہ اکثریت کی طرف بڑھتے گئے، پرسکون زندگی صرف انھیں کو حاصل تھی، جو پھرنے والوں کے لیے ''مرجع'' اور پھرتے رہنے کا ذریعہ بن سکیں، دین کے لیے جدوجہد اور نقل و حرکت میں رہنا اصل تھا، جب یہ چھوٹ گیا، توخلافت بھی ختم ہوگئی۔ ''
اسی درد اور تڑپ کو لے کر تبلیغی جماعت کے کارکن نبی کریمﷺ کی سنت کو زندہ کررہے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح دنیا کے گوشے گوشے میں اللہ کے دین کی دعوت پہنچا رہے ہیں۔ یہ دنیا کی واحد جماعت ہے جو اپنا نظام چلانے کے لیے چندہ اکٹھا نہیں کرتی، کسی سے فنڈ نہیں لیتی، حکومتوں سے مراعات نہیں لیتی، اس کا ہرایک کارکن اپنی جیب سے خرچ کرتا ہے۔ اللہ کی راہ میں نکلنے والی ہر جماعت کے پاس میرے والد حضرت اقدس مولانا حمدللہ جان ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ کے استاد و مرشد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا نور اللہ مرقدہ کی تصنیف '' فضائل اعمال'' ہوتی ہے۔
یہ کتاب دنیا کے کونے کونے میں پڑھی اور سنی جاتی ہے۔ آپ کی کتابوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ قبولیت اور مقبولیت حاصل ہے کہ کرہ ارض کا کوئی خطہ ان کے نام سے نامانوس نہیں۔ حضرت شیخ کی کتابوں کے مطالعے سے دل کی دنیا کو سکون ملتا ہے، ایمان کو جلا ملتی ہے۔ آج کروڑوں انسان ان کتابوں سے اپنا ایمان روشن کررہے ہیں۔ فضائل درود شریف سے بہت سے خوش نصیبوں کو خواب میں زیارت رسولﷺ نصیب ہوئی۔ کسی کو میری باتوں پر رتی برابر بھی شک ہو تو حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی کتابوں کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں۔
حضرت مولانا محمد الیاس اور حضرت مولانا محمد زکریا نور اللہ مرقدہ یہ بات جان چکے تھے کہ عالم اسلام میں مسلمانوں کے انحطاط و زوال کا سبب دینی ماحول سے علیحدگی ہے۔ اگر دینی ماحول میں رہیں گے تو اللہ کا توکل دل میں پیدا ہوگا۔ جب توکل دل میں اتر جائے تو بندہ اس قدر پْرسکون ہوتا ہے کہ اسے دنیا کا مشکل سے مشکل مسئلہ بھی آسان لگتا ہے۔
آج جب ہم سکون کھو بیٹھتے ہیں تو اسے دوبارہ پانے کے لیے ہم بہترین گاڑی، بنگلہ اورآسائش کی ساری چیزیں اکٹھی کرتے ہیں، اس تگ و دو میں حلال حرام کی تمیز کا بھی خیال نہیں رکھتے اور جب ہم اپنی خواہش کے مطابق سب کچھ حاصل کرلیتے ہیں تو اس کے باوجود رات کو نیند کی گولی کھائے بغیر نیند نہیں آتی۔ مخمل کے بستر پر ساری رات کروٹیں بدلتے بیت جاتی ہے، مگر سکون نہیں ملتا، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پیسہ اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمت ہے، مگر ہم پیسے کے حصول کے لیے اتنا تیز دوڑتے ہیں کہ سکون کا اسٹاپ راستے میں ہی رہ جاتا ہے اور اس دوڑ کے آخر میں مختلف امراض بندے کو تحفے میں ملتے ہیں، جو اسے قبر میں اتار دیتے ہیں۔
یہ ہلاکت ہے اورانسان کو ہلاکت سے بچانے کا ذمہ مولانا محمد الیاس کی تبلیغی جماعت نے اٹھا رکھا ہے، ابتدا میں یہ کام مولانا محمد الیاس نے اپنی ذات سے شروع کیا، آپ علاقے میں گشت کرتے اور لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی تلقین کرکے ان کے دلوں کو نورِ اسلام سے منور کرتے۔
مولانا محمد الیاسؒ نے ساری زندگی اسی مشن پر گزار دی، ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند ارجمند مولانا محمد یوسفؒ نے اس کام کو اس تیزی سے آگے بڑھایاکہ یہ پورے برصغیر میں پھیل گیا۔ تیسرے حج سے واپسی پر مولانا محمد یوسفؒ بذریعہ ٹرین رائے ونڈ سے گزرے تو فرمایا! میرا دل کہتا ہے کہ یہاں سے رشد و ہدایت کا چشمہ پھوٹے گا۔ انھوں نے رائے ونڈ کی ایک کچی سی مسجد کو اپنی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا۔
1949 میں یہاں پہلا تبلیغی اجتماع ہوا، جس میں کم و بیش ایک ہزارافراد شریک ہوئے۔ آپ اپنے والد رحمہ اللہ کے بعد جماعت کے امیر بنے اور 1965 تک امیر رہے ان کا انتقال1965میں لاہور میں ہوا تھا اس وقت وہ اجتماع میں بیان کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے جہاں طبیعت خراب ہوئی اور موت کا باعث بنی۔ مسٹر گاندھی نے ان کی میت بھارت لانے کے لیے خصوصی طیارہ بھیجا تھا۔
اللہ نے ان کی کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول کرلیا آج رائے ونڈ کے اجتماع میں لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں، لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑا۔ اس بار بھی دونوں اجتماعات میں کم و بیش بیس بیس لاکھ افراد نے شرکت کی۔ جماعت کے امیر مولانا عبدالوہابؒ کے انتقال کے بعد مولانا نذر الرحمٰن نے انتظام و انصرام سنبھالا ہوا ہے، وہ ہی جماعت کے امیر ہیں۔
اتوار کو بھارت سے تعلق رکھنے والے بزرگ عالم دین حضرت مولانا ابراہیم کی رقت آمیز دعا کے بعد اجتماع ختم ہوا اور تبلیغی جماعتیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ اللہ کریم بزرگان دین کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہر مسلمان کے دل میں دین سے محبت کا جذبہ پیدا کرے۔ (آمین)