پاکستان کی داخلی سیکیورٹی اور خارجی چیلنجز
معاشی صورتحال کی بہتری میں ہمیں روایتی طور طریقوں کے مقابلے میں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں
پاکستان کی سیاسی قیادت اورقومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کا داخلی اور خارجی سیکیورٹی و سلامتی کے مسائل پر عسکری قیادت سے بریفنگ یا مکالمہ ایک بروقت اور درست اقدام ہے۔ پاکستان کی صورتحال کا تقاضا بھی یہی کہ سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان حساس معاملات پر بداعتمادی کے مقابلے میں اعتماد سازی کو فروغ دیا جائے۔ مسئلہ کا حل کسی صورت بدگمانی نہیں بلکہ باہمی تعاون کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی ہونی چاہیے۔
سیاسی اور عسکری قیادت میں یہ بات چیت اس لحاظ سے اہمیت رکھتی تھی کہ افغان صورتحال کے تناظر غلط فہمیاں پیدا کری جارہی تھیں۔ ایسے میں افغان صورتحال و ٹی ٹی پی کے تناظر میں پانچ بنیادی نوعیت کے نکات سامنے آئے ہیں۔ اول افغانستان کی صورتحال اور وہاں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں پاکستان کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ۔ دوئم پاکستان افغانستا ن کے معاملات میں مداخلت کے بجائے معا ونت کا کردار ادا کرتا رہے گا۔کیونکہ اگر افغانستان میں امن نہیںہوگا تو ہم ہی براہ راست متاثرین میں ہوں گے۔
سوئم افغانستان جب تک Inclusiveحکومت نہیں بنے گی تو افغان طالبان کی عالمی قبولیت ممکن نہیں ہوگی۔چہارم پاکستان عالمی قوتوں پر یہ دباؤ جاری رکھے گا کہ اگر افغانستان میں طالبان حکومت کی مالی مدد نہیں کریں گے تو اس کا نتیجہ داعش کی مضبوطی کی صورت میں دیکھنا ہوگا جو عالمی یا علاقائی امن کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے ۔پنجم پاکستان افغان حکومت کی مدد سے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مزاکرتی عمل کا حصہ ہے اور افغان حکومت کی ضمانت پر ان سے کوئی معاہدہ بھی ہوسکتا ہے ۔
کیونکہ ہمیں افغان حکومت نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان طالبان افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ اسی طرح ٹی ٹی پی سے جو بھی بات چیت ہوگی وہ آئین اور قانون کے دائرہ کار میں ہوگی اور آرمی چیف کے بقول وقت پڑنے پر اس اہم معاملے پر پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لیا جاسکتاہے ۔
یہ بھی سیاسی اور عسکری قیادت میں اتفاق نظر آیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جولوگ بھی خود کو سرنڈر کرنے اور آئین کو تسلیم کرنے کی حمایت کرتے ہیں ان کو بعض یقین دہانیوں پر معافی دی جاسکتی ہے۔ان مذاکرات کے نتیجے میں تحریک طالبان نے ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کا فیصلہ بھی کیا ہے اورفریقین کی رضامندی سے اس میں مزید توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کو افغانستان کی صورتحال پر بہت تشویش او رفکرمندی ہے ۔ اس مسئلہ کا حل کسی بھی صورت میں بداعتمادی یا ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست سے ممکن نہیں او رہرفریق کو اس بحران کے حل میں کسی پر بھی ڈکٹیشن مسلط کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی مجبوریوں او رضرورتوں کو سمجھ کر آگے بڑھنے سے جڑا ہوا۔اس میں ایک بڑا کردار امریکا اور بھارت کا بھی ہے۔
کیونکہ دونوں پر افغان طالبان کی برتری کے بعد داخلی سیاست میں کافی دباؤ ہے کہ ان کی افغانستان پالیسی ناکام ہوئی ہے۔افغانستان میں موجودہ صورتحال سیکیورٹی کے تناطر میں کافی بہتر ہوئی ہے۔ایک ہی خطرہ داعش کے پھیلاؤ یا ان کی سرگرمیوں سے ہے۔ اصل مسئلہ وہاں مالی وسائل کی فراہمی کا ہے او ریہ کام امریکا سمیت عالمی قوتوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔اسی طرح افغان حکومت میں دیگر فریقین کی شمولیت کے بارے میں بھی بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ اس اہم مسئلہ پر افغان طالبان تقسیم ہیں اور یہ ہی وہ وجہ بن رہی ہے جو ان کی عالمی قبولیت میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہے ۔
ایک ایسے موقعے پر جب بھارت افغانستان میں پاکستان کو سیاسی طور پر تنہا کرنا چاہتا ہے یا وہ مختلف الزامات کی بنیاد پر دنیا میں اس بیانیہ کو ہی پھیلانے کی کوشش کررہا ہے کہ افغان بحران کا اصل ذمے دار پاکستان ہی ہے۔ اسی طرح امریکا کے ساتھ بھی بہت سے معاملات پر پاکستان کے تعلقات میں کچھ سردمہری بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔اس کی ایک وجہ پہلی بار امریکا کو پاکستان سے مختلف امور پر مزاحمت کا سامنا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان امریکا کی ڈکٹیشن کے بجائے اپنی ترجیحات کو بدل رہا ہے ۔
اسی طرح بھار ت ایک مردہ علاقائی سیکیورٹی فورم کی بنیاد پر جو عملی طور پر فعالیت ہی نہیں رکھتا وہ اس کی بنیاد پر افغانستان میں اپنا نیا کردار ڈھونڈنے کی کوشش کررہا ہے۔ مگر ہم نے اس فورم میں شرکت سے انکار ہی اسی بنیاد پر کیا کہ ہم کسی بھی صورت میں اپنی شرکت سے اس فورم کی ساکھ کو قبول کرنے کے لیے سہارا نہیں بنیں گے ۔ ہمیں امید ہے کہ خود چین بھی اس فورم کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کرے گا تاکہ بھارت کے اس فورم کی ساکھ متاثر ہو۔پاکستان نے پہلے بھی اس فورم میں کبھی شرکت نہیں کی تھی اور نہ ہی وہ اب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔اسی طرح اس بار پاکستان افغانستان کی حکومت کوفوری طور قبول کرنے کے بجائے عالمی و علاقائی دنیا کے ساتھ کھڑا ہے ۔
پاکستان کی علاقائی سیاست میں کامیابی کا بڑا انحصار علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات پر مبنی ہیں۔ چین ، روس، ترکی ، ایران ، افغانستان اور بھارت کے ساتھ معاملات کو بہتر طو رپر نمٹ کر ہی ہم علاقائی سیاست میں معاشی ترقی کے نئے امکانات پیدا کرسکتے ہیں ۔ یہ پالیسی کہ ہمیں تنازعات اور ٹکراؤ کی سیاست او رجیو اسٹرٹیجک کے مقابلے میں جیو معیشت کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے درست پالیسی ہے۔اس عمل کو ہی آگے بڑھانے کے لیے ہمیں ماضی کے مقابلے میں نئی جہتوں کو قائم کرنا ہوگا۔ یہ پالیسی تمام فریقین کی باہمی کوششوں کا نتیجہ ہونا چاہیے۔
کیونکہ جو ہمیں داخلی سیکیورٹی اور علاقائی و خارجہ پالیسی کے چیلنجز ہیں اس سے نمٹنے کے ہمیں جو جنگ لڑنی ہے اس میں جذباتیت کے بجائے عقل ودانش اور ماضی کے خول سے نکل کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی۔
ماضی میں رہنے کے بجائے اس سے سبق سیکھ کر مستقبل کے لیے نئی راہوں کو تلاش کرکے ہی ہم ایک بہتر مستقبل کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمیں بھارت کے ساتھ بھی معاملات کو درست کرنا ہے اور اگر فوری طو رپر حالات درست نہیں بھی ہوتے تو تب بھی ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ سیاسی حکمت عملیوں اور عملی اقدامات سے گریز کرکے سازگار ماحول کو پیدا کرنا ہی ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔اسی طرح ایک مضبوط معیشت ہی ہمیں داخلی اور علاقائی سطح کی سیاست میں بڑے فیصلے کرنے کی طاقت دے سکتا ہے ،کیونکہ کمزور معیشت کی بنیاد پر عالمی و علاقائی ایجنڈا اور ہم کو اس پر دباؤ میں لانے کی عالمی پالیسی جاری رہے گی۔اسی لیے معاشی صورتحال کی بہتری میں ہمیں روایتی طور طریقوں کے مقابلے میں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ، یہ ہی ہماری ترجیح بھی ہونی چاہیے ۔