ای وی ایم مشینوں کے تلے پڑی جمہوریت

ہم تجزیہ نگاروں کی باتیں بھی عجیب ہوتی ہیں، حقیقت چھوڑ کے الفاظ کی رو میں چل پڑتے ہیں


جاوید قاضی November 21, 2021
[email protected]

کھڑ ے تو وہ اب بھی ہیں، خان صاحب کے پیچھے، ورنہ یہ خان کے بس کا کام نہ تھا۔ اس بار مشترکہ اجلاس بھی بلایا اور بل بھی پاس کرایا، تو پھر یہ جو ہرزہ سرائی ہے ، وہ کس بات کی ہے ؟ یہ کہ صفحہ پھٹ گیا یا یہ کہ صفحہ ہے مگر صف نہیں ہے۔ ہم تجزیہ نگاروں کی باتیں بھی عجیب ہوتی ہیں، حقیقت چھوڑ کے الفاظ کی رو میں چل پڑتے ہیں، حقیقت کہیں اور رہ جاتی ہے۔ ہاں مگر ہم اس پر متفق ہیں کہ وزیر اعظم جمالی ہو، جونیجو ہو یا خان ہو، اقتدار کی باگ دوڑ کہیں اور ہوتی ہے۔ چلو یوں بھی ہوکہ وزیر اعظم نواز شریف ہوں، بے نظیر بھٹو ہوں یا یوسف رضا گیلانی ہو۔ اقتدار تو ان کے پاس بھی آدھا تھا، آدھا کہیں اور تھا، وہ جمالی نہ تھے، جونیجو نہ تھے مگر اتنے با اختیار بھی نہ تھے۔

یہ رسہ کشی ستر سال کی کہانی ہے، کوئی ایک یا دو سال کی نہیں، سوال یہ بھی نہیں کہ کتنی پرانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اب بھی رواں ہے اور کب تک رواں رہے گی؟ اپوزیشن ہے کہ کچھ کر نہیں پاتی، حکومت ہے کہ گرکر بھی نہیں گر پاتی لیکن لڑکھڑا رہی ہے۔

معاملہ یہ نہیں کہ اب خان سے لوگ رنجیدہ ہیں۔ اب کے بار لوگ اپوزیشن سے رنجیدہ ہیں کہ اپوزیشن کے منصب پر جو تم لوگ بیٹھے ہو، وہ چھوڑ دو۔ کب تک چلے گی یہ نورا کشتی۔

پاکستان کے مسائل بڑھ گئے ہیں، یہ قرضے اب کی بار رکنے کے نہیں، یہ صرف اور صرف بڑھنے کے لیے ہیں ۔ کسی میں بھی جرات نہیں کہ یہ حقیقت بتا سکے۔ اپوزیشن صرف اعداد و شمار کی بات کرتی ہے، خان تک یہ محدود رہتے ہیں اور اگر خان سے آگے بڑھ بھی گئے تو دوچار اور کو رگڑ دیتے ہیں، مگر یہ بات کبھی بھی نہیں کہتے کہ ہمارے بجٹ کے ڈھانچے میں ہی در اصل ہمارا مسئلہ ہے۔ ہم جب تک غیر ترقی اخراجات کم نہیں کریں گے، قرضے کم نہ ہوں گے تو ہم اپنی خود مختاری پر سودا کریں گے۔ ہم اگر لوگوں میں انوسٹ نہیں کریں گے، ترقیاتی کاموں پر زیادہ خرچہ نہیں کریں گے، تو لوگوں کے معیار زندگی بہتر نہیں ہوگی اور لوگ ہنر مند نہیں ہوں گے، ہماری ایکسپورٹ نہیں بڑھے گی۔

ہم ایک طویل دلدل میں پھنس چکے ہیں، ہم نے جو بیانیہ بنایا تھا، وہی آج ہمیں ڈس رہا ہے ۔ دنیا بہت بدل چکی ہے اور ہماری کوئی بھی تیاری نہیں، آیندہ کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ ابھی تو ہمیں فرانس کے سفیر کو نکالنا باقی ہے۔ ابھی تو ٹی ایل پی کو قبول کیا جب کہ ٹی ٹی پی کے طالبانکو قبول کرنا باقی ہے۔

ماڈریٹ سوچ رکھنے وا لوں کو دیوار سے لگا گیا دیا ، ہماری بے نظیر بھٹو کو شہید کسی اور نے نہیں ، اسی سوچ نے کیا جس کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے پال پوس کے بڑا کیا۔ ہم اب بھی ان سے نکلے نہیں اور نکل سکتے بھی نہیں، مگر دنیا بہت بدل چکی ہے۔

معاملہ اب خان صاحب کے آنے اور جانے کا بھی نہیں۔ معاملہ لندن سے کسی کے آنے کا بھی نہیں۔ معاملہ اس سے بھی گمبھیر ہے۔ یہ اپوزیشن، جب بھٹو وزیر اعظم تھے، تو ولی خان اور دوسرے بائیں بازو اور دائیں بازو کے لوگوں کی شکل میں ہوتی تھی۔ حیدرآباد راولپنڈی کیس میں جو اسیر تھے، وہ بھی ایک شہید سہروردی تھے جو راول پنڈی سازش کیس میں اسیروں کا کیس لڑنے کراچی سے حیدرآباد جایا کرتے تھے۔ قوموں کی تاریخ میں یہ ستر سال بہت چھوٹا عرصہ ہے۔ ایک محبت کا رشتہ ہے ان چار اکائیوں میں جنھوں نے ملک یہ پاکستان بنایا تھا۔

اس پاکستان کی تاریخ میں کئی محب وطن شہید ہوئے غدار ٹھہرے، کیونکہ ہم نے جس طرح تاریخ کو مسخ کیا کسی نے بھی نہیں کیا۔ جو غاصب تھے جو حملہ آور تھے ان کو اپنا ہیرو بنایا اور جو مقامی ہیرو تھے جن سے یہ لوگ پیار کرتے تھے ان کو ہم نے نظر اندازکیا۔ کیا کیا نہیں کیا ، ہم نے اور آج اس دوراہے پرکھڑے ہیں کہ کوئی بھی خبر نہیں کہ کرنا کیا ہے اور وقت ہے جو تیزی سے گذرتا جارہا ہے۔ اس ملک کو ایک قومی قیادت کی ضرورت ہے۔ اس ملک کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو بھٹو اور شیخ مجیب جیسا بہادر اور نڈر ہو۔

ای وی ایم سسٹم مشترکہ اجلاس میں صرف قرارداد کی حیثیت لے سکی ہے۔ وہ قانون نہ بن سکا کیونکہ سادہ اکثریت سے یہ بل منظور نہیں ہوا ہے، یہ اور بات ہے کہ اس قرار داد کو زیادہ ووٹ ملے۔ مشترکہ اجلاس اور دونوں ایوانوں سے الگ الگ بل پاس کروانا، دو مختلف طریقہ کار ہیں۔ مشترکہ اجلاس بلا کے بل منظور اگر کروانا ہی ہے کیونکہ عام طریقہ کار سے نچلے ایوان ذیلی سے تو یہ پاس ہوجاتا مگر سینیٹ یا ایوان اعلیٰ سے یہ نہیں ہوتا تو پھر مشترکہ اجلاس میں اگر ملک کی وفاقیت کو ذبح کرکے سب کو ایک صف پرکھڑا کرکے اگر بل پاس ہی کروانا تھا تو کم از کم سادہ اکثریت تو ہو اور وہ بھی ایک ایسا ایوان جو آر ٹی ایس سسٹم کے بیٹھ جانے سے بنا ہے، یہ پارلیمنٹ عوام کے حقیقی ووٹ یا رائے کی عکاس نہیں ہے۔

ابھی تو اور بھی کارڈ ہیں۔ ایک تو وہ بھی ہے جسے ہم مذہبی کارڈ کہتے ہیں۔ ہم نے یہاں فطری طور پر جو سیاسی قوتیں پیدا ہوئیں، ان کو جڑوں سے کاٹ دیا اور ان گملوں میں اپنے پودے لگائے۔ ان میں سے جو کچھ سول بالادستی کی بات کرنے لگے ہم نے ان کو بھی بھینٹ چڑھا دیا۔ شیخ مجیب سے ہم ڈرتے تھے ہم نے اس سے جان چھڑانے کے لیے آدھا ملک گنوا دیا۔ وہ اس آدھے ملک پر کچھ ایک دو دہائیاں تو عتاب میں رہا بمع اپنی جان کا نذرانہ دے کے مگر وہ آدھا پاکستان بنگلہ دیش کی شکل میں سول بالادستی پا چکا اور نہ جانے کیا کیا، معاشی منزلیں طے کررہا ہے، وہاں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے بھی دو تہائی اکثریت والے انتخابی نتائج سے حکومت بنائی۔

پنڈتوں نے کہا کہ شیخ حسینہ کے لیے اس حد تک اقتدار پر قبضہ کرنا مسئلہ ہوجائے گا، مگر شیخ حسینہ نے وہ معاشی فتوحات کیں کہ اب دس سال اور نکالتے ہوئے نظر آرہی ہیں جب کہ پندرہ سال پورے کرنے والی ہے۔ خان صاحب بھی دس سال نکال جاتے اگر معاشی کارکردگی ہوتی۔ اس کے برعکس جو بدحالی اب کے بار آئی ہے اس نے خان صاحب کو تو کیا خود اس کے پیچھے کھڑی ہوئی اسٹیبلشمنٹ کو ہلا دیا ہے۔ اداروں کو شو پیس بنا کے ہائبرڈ وزیر اعظم وغیرہ وغیرہ آخر کب تک۔ اپوزیشن ان کا کچھ بگاڑ سکے نہ سکے یہ خود ہی کافی ہیں۔ '' آبیل مجھے مارکی طرح '' پانی سر سے گزر رہا ہے اور سب کو ای وی ایم مشینوں پے قانون سازی کرنے کے لیے جمع کیا گیا۔ آپ اپنا شوق پورا کیجیے۔

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

(میر)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں