جدید دور میں بچوں کے حقوق سب سے زیادہ پامال ہورہے ہیں

چائلڈ پروٹیکشن پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے 8 کروڑ بچے عدم تحفظ کا شکار۔


’’بچوں کے عالمی دن ‘‘کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکاء کا اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' کا انعقاد کیا گیا جس میں حکومت ، ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

اعجاز عالم آگسٹین (صوبائی وزیربرائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)

بدقسمتی سے ہم اخلاقی طور پر پستی کا شکار ہوچکے ہیں اور جو قومیں اخلاقی طور پر تباہ ہوجاتی ہیں، وہ قانون سازی سے نہیں بلکہ انقلاب سے ٹھیک ہوتی ہیں۔ غیر اخلاقی مواد دیکھنے کے حوالے سے دنیا میں ہمارا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ جب معاشرہ اس سطح پر آجائے تو پھر بچوں پر تشدد، زیادتی و دیگر جرائم کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ بچوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اب کیسز کے رپورٹ ہونے کی شرح زیادہ ہوئی ہے جس کی وجہ سوشل میڈیا اور آگاہی ہے۔ ہمارے نصاب میں بچوں کی رہنمائی کیلئے ایسا کوئی مواد موجود نہیں ہے جو انہیں اچھے، برے کی تمیز بتائے، سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی ترغیب دے اور جنسی ہراسگی یا زیادتی جیسے اہم موضوعات پر بات کرے۔

میرے نزدیک نئے قوانین کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جو قوانین پہلے سے موجود ہیں ان پر عملدرآمد کیا جائے تو بہتری آجائے گی۔ کراچی میں ایک بچی کے کیس میں مجھے جانے کا اتفاق ہوا تواندازہ ہوا ہے کہ 2013ء میں بچوں کا جو قانون بنا تھا اس کے رولز ہی نہیں بن سکے۔ اسی طرح پنجاب میں بچوں کے حوالے سے ایسے قوانین موجود ہیں کہ برسوں گزرنے کے بعد بھی ان کے رولز نہیں بن سکے۔ ہمارے اداروں میں روابط کا فقدان ہے، میرے نزدیک جب تک ادارے مل کر کام نہیں کریں گے تب تک مسائل حل نہیں ہونگے۔ چائلڈ لیبر سب کے گھروں میں ہو رہی ہے، کم عمر بھکاری سڑکوں پر موجود ہیں، لوگ بچوں سے کام لے رہے ہیں، انہیں بھیک دے رہے ہیں۔

جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کیلئے بھی کمیونٹی کی سطح پر کوئی قابل قدر کام نہیں ہوا، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے، کوئی کسی دوسرے کے بچے کے بارے میں نہیں سوچتا۔ 20 برس پیچھے چلے جائیں تو ہمارے ہاں اخلاقی قدریں تھی، گاؤں یا گلی محلے میں کوئی نیا شخص نظر آتا تو لوگ اس سے پوچھتے تھے مگر اب کوئی توجہ ہی نہیں کرتا۔ ہمیں اخلاقی طور پر مضبوط ہونے اور مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، ریاست ہر گھر میں چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھ سکتی۔ سول سوسائٹی دنیا بھر میں حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور اس طرح کے مسائل کا بوجھ اس نے ہی اٹھایا ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں سول سوسائٹی کام تو کر رہی ہے مگر شاید اس طرح نہیں کر رہی جس طرح ہونا چاہیے تھا۔ موجودہ حکومت نے قومی کمیشن برائے حقوق اطفال بنایا اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ دو بچوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔ ہمیں صوبوں میں بھی اس طرح کا کمیشن بنانے کی تجویز آئی ہے مگر میرے نزدیک ماضی میں کمیشنز کی کوئی اچھی مثال نہیں رہی۔ ہم پنجاب میں کمیشن بنا سکتے ہیں مگر کیا اس سے انقلابی تبدیلی آئے گی؟ ہماری حکومت نے زینب الرٹ و دیگر قوانین بنائے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان سے بچوں سے زیادتی کے واقعات میں کمی آئی؟ قوانین اور اقدامات کے ذریعے ریاست کا رویہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ معاملات کو کتنا سنجیدہ لیتی ہے۔

ہم نے بچوں کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا ہے، قانون سازی کی جس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ میرے نزدیک ہمیں بچوں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہونگے اور وسیع پیمانے پر آگاہی دینا ہوگی۔ بچوں کے مسائل بہت زیادہ اور توجہ طلب ہیں، میرے نزدیک بچوں کے حقو ق کے حوالے سے ایک الگ وزارت ہونی چاہیے جو صرف ان کیلئے ہی کام کرے۔ وزیراعظم نے اپنی پہلی تقریر میں بچوں کی سٹنٹڈ گروتھ پر بات کی جو ہمارے پسماندہ علاقوں میں 40 فیصد کے قریب ہے۔ یہ بچے کس طرح معاشرے میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے؟

اسی طرح تھلیسیما و دیگر جینیاتی بیماریوں کے حوالے سے بھی مسائل ہیں اور بیمار بچوں کی شرح بڑھ رہی ہے، اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ موجودہ حکومت نے بچے کی پیدائش پر پہلی مرتبہ والد کو چھٹیاں دینے اور ماں کوپیکیج دینے کا اعلان کیا ہے،ا س سے بچوں کی نشونما اور دیکھ بھال میں بہتری آئے گی۔ پنجاب میں شادی کیلئے لڑی کی کم از کم عمر 16 سال سے بڑھا کر 18 برس کرنے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے لوکل باڈیز کے ساتھ مشاورت مکمل اور ڈرافٹ تیار ہوچکا ہے،علماء بورڈ سے مشاورت میں بھی کافی حد تک پیشرفت ہوچکی ہے، جلد یہ بل کابینہ میں پیش کیا جائے گا جہاں سے منظوری کے بعد اسمبلی میں پیش کریں گے۔

چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے ہر حکومت نے بہت کوشش کی مگر جب تک ملکی معیشت مضبوط نہیں ہوتی، لوگوں کا معیار زندگی بہتر نہیں ہوتا تب تک اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ چائلڈ لیبر کی شکایت پر والدین کی گرفتاری ہوئی، جب میں نے ان کے گھر کا دورہ کیا تو والد معذور اور والدہ نابینا تھی، ان کے دو بچے ہی ان کا واحد سہارا تھے ۔ احساس پروگرام کے ذریعے ایسے گھرانوں کی معاشی حالت بہتر اور ان کی مدد کی جارہی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر سیدہ مہناز حسن (سربراہ شعبہ سوشل ورک پنجاب یونیورسٹی)

بچوں کے حقوق پیدائش کے بعد نہیں بلکہ پیدائش سے پہلے ہی شروع ہوجاتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے میں صحت مند بچوں کی پیدا ئش اور بعد ازاں سازگار ماحول کی فراہمی پر بہت زیادہ بات چیت ہوتی ہے اور اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔ بعض جگہ تو دوران زچگی ماں کو ریاضی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی تحقیقات پڑھاتے ہیں۔ ماں کو خاص قسم کی خوراک بھی دی جاتی ہے اور اس کی زندگی کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ بچے کی ذہنی، جسمانی صحت اور ذہانت کو یقینی بنایا جاسکے۔

جینیاتی خرابیوں سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بیمار بچے پیدا ہوتے اور عمر بھر بیمار زندگی گزارتے ہیں۔ ان بیماریوں پر دنیا بھر میں بہت زیادہ تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ان میں سے ایک بیماری تھیلیسیما ہے جس کا شکار بچے، والدین اور معاشرے پر بوجھ بنتے ہیں اور ان کی اپنی زندگی قابل رحم ہوتی ہے۔ کیا غریب معاشرے میں ہم بیمار بچے پیدا کرنے کی سکت رکھتے ہیں؟فرد کی عظمت و تکریم بنیادی حق ہے۔ بچہ اشرف المخلوقات پیدا ہوا ہے لہٰذا اس کا یہ حق ہے کہ اسے صحت مند معاشرہ مہیا کیا جائے جس میں وہ اپنی صلاحیت کے مطابق آگے بڑھ سکے اور ایک صحت مند زندگی گزار سکے۔

سوال یہ ہے کہ تھیلیسیمیا، پولیو و دیگر جینیاتی بیماریوں کے حوالے سے ایسے قوانین کیوں نہیں بنائے جارہے جو مہذب معاشروں میں بنائے جاتے ہیں؟ہر قانون پر کلچر اورمعاشرے میں موثر نہیں ہوتا۔ لوگوں کے ایمان، یقین، ماحول، کلچر و دیگر اہم پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے قوانین تیار کیے جائیں۔ جس طرح کسی فصل کو اگانے کیلئے زمین تیار کی جاتی ہے اسی طرح کسی قانون پر عملدرآمد کیلئے پہلے ماحول بنایا جاتا ہے۔ اگر ایسا قانون بنایا گیاجسے معاشرہ تسلیم نہیں کر رہا تو پھر اس قانون کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ قانون تب اہم ہوتا ہے جب احتساب ہو۔ زینب، فرشتہ کیس ہو یا قصور میں بچوں سے درندگی کے واقعات، اگر قانون پر عملدرآمد کے ذریعے مثال قائم نہیں کرنی، لوگوں کو انصاف نہیں دیا تو پھر قانون بنانے کا مقصد کیا ہے؟

اس سے معاشرے میں کیا بہتری آئی ہے؟ 20 نومبر 1989ء میں اقوام متحدہ کے چارٹر برائے حقوق اطفال میں کونسا ایسا قانون ہے جو پہلے سے موجود نہیں تھا؟ 1973کے آئین پاکستان میں آرٹیکل 8 سے 20 تک تعلیم، صحت، تحفظ سمیت دیگر بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ہیں جو اقوام متحدہ کے چارٹر میں دیے گئے۔ہمارے ہاں سیاسی، سماجی، مذہبی و تعلیمی اداروں کی بات تو ہوتی ہے مگر ہم نے فیملی انسٹی ٹیوٹ کو نظر انداز کر دیا۔

سائنسدان اور سائیکالوجسٹ کہتے ہیں کہ ابتدائی چھ برسوں میں بچے کی شخصیت کا خاکہ بن جاتا ہے اور باقی زندگی صرف اس میں رنگ بھرے جاتے ہیں لہٰذا بچے کی تربیت اور شخصیت سازی میںوالدین کا کردار سب سے اہم ہے ۔ معاشی حالات کی وجہ سے آج کل ماں اور باپ دونوں ہی روزگار کمانے میں مصروف ہیں، بچوں کو سوشل میڈیا کے استعمال میں کھلی چھوٹ ہے، بچہ روتا ہے تو والدین مصروفیت کی وجہ سے اس کے ہاتھ میں موبائل تھما دیتے ہیں۔ اب تو حالت یہ ہے ایک کمرے میں پانچ افراد موجود ہیں تو پانچوں ہی موبائل پر مصروف ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک بچوں کے سب سے زیادہ حقوق موجودہ دور میں پامال ہورہے ہیں۔

بچہ معصوم ہونے کی وجہ سے اظہار نہیں کر پاتا کہ وہ کس ٹراما سے گزر رہا ہے، نہ ہی اتنا میچور ہوتا ہے کہ اسے مینج کر سکے۔ نتیجے میں ہمیں بیمار ذہن کے بچے ملتے ہیں۔بچوں کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ نفسیات کا ہے۔ اللہ نے ہر فرد کو الگ ٹیلنٹ دے کر پیدا کیا ہے مگر والدین ہر بچے کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے ہیں۔ بچوں کے پاس اپنی پسند کے شعبے میں جانے کا اختیار نہیں ہے۔زندگی میں نام وہ بناتے ہیں جو خود کی پہچان کرلیتے ہیں۔ بقول اقبالؒ:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

خودی یہ ہے کہ ہر بچہ اپنا مقصد پہچانے کہ اسے کس لیے پیدا کیا گیا ہے اور اس کے اندر کونسا ہنر ہے۔ ہم بچے کو اس طرف آنے ہی نہیں دیتے بلکہ والدین اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں اور جب وہ عملی زندگی میں آتا ہے تو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتا ہے۔ افسوس ہے کہ ہم نے چھوٹے قد کی نسل پیدا کرنی شروع کر دی ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے انہیں آزادی اظہار کا حق نہیں دیا،ہم نے ان کی سوچنے کی صلاحیت سلب کر لی ہے اور انہیں صرف ڈپریشن اور نفسیاتی دباؤ دیا ہے۔

ہمیں بچوں کو صحت مند ماحول دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تعلیمی اداروں میں کھیل اور ایسی غیر نصابی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے جن میں بچہ جسمانی طور پر زیادہ مصروف ہو اور وہ سوشل میڈیا سے نکل کر صحت مند طرز زندگی کی طرف راغب ہو۔ میرے نزدیک بچوں کے حوالے سے مسائل کو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے اور فیملی انسٹی ٹیوشنز میں سپیشلائزیشن ہونی چاہیے۔

ہماری بچیاں بدترین استحصال کا شکار ہیں جو غیر رسمی شعبہ میں کام کر رہی ہیں۔ شیخوپورہ کی کارپٹ انڈسٹری ہو یا گوجرانوالہ، سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری، یہ خواتین اور کم عمر بچیوں کی وجہ سے ہی چل رہی ہے۔ دادی یا ماں سے یہ ہنر لڑکی کو منتقل ہوتا ہے، اسے پرائمری میں ہی سکول سے ہٹا کر اس کام کی طرف لگا دیا جاتا ہے۔ ان گھروں کی معاشی حالت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ ان کا گزارہ کام کر نے سے ہی ہوتا ہے ، صد افسوس کہ ان کا بچپن، بزرگی میں بدل جاتا ہے۔اس وقت ملک میں 8 کروڑ بچے ہیں جن میں سے2 کروڑ بچے سکول نہیں جاتے جبکہ 52 فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔

33 ہزار خواتین دوران زچگی موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ جن بچوں کی ماں خون کی کمی کا شکار ہوتی ہے وہ کس طرح صحت مند ہوسکتے ہیں؟ ہم معاشرے کو نہ صحت مند دماغ دے رہے ہیں اور نہ ہی صحت مند جسم، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔ ہماری خوراک، دودھ و دیگر اشیائے خورونوش خالص نہیں ہیں۔ ماحول کی بات کریں تو اس وقت لاہور آلودہ ترین شہر ہے۔ ہمارے بچے سانس اور پھیپھڑوں کے امراض کا شکار ہورہے ہیں۔ہم نے شہروں کو پھیلا دیا ہے، ہم ہر وقت ڈویلپمنٹ کی بات کرتے ہیں، ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ اس ڈویلپمنٹ نے ہمیں دیا کیا ہے؟

ہمیں ڈویلپمنٹ کے مغربی ایجنڈے کے بجائے مقامی ڈویلپمنٹ کی طرف جانا چاہیے۔ ہمارے ادارے علیحدگی میں کام کرتے ہیں۔ چائلڈ ویلفیئر بیورو کیا کام کر رہا ہے یہ اکیڈیمیا کو معلوم نہیں اور جو کام اکیڈیمیا کر رہا ہے وہ انہیں معلوم نہیں۔ اسی طرح جو وزارتیں پالیسیاں بنا رہی ہیںانہیںیہ علم نہیں ہے کہ تعلیمی اداروں میں کیا تحقیقات ہو رہی ہیں اور سماجی ادارے کیا اہداف حاصل کرچکے ہیں۔ میرے نزدیک سب کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

افتخار مبارک (نمائندہ سول سوسائٹی)

اقوام متحدہ کے چارٹر برائے حقوق اطفال کو رواں سال 32 برس مکمل ہوگئے ہیں اور پاکستان اس عالمی معاہدے کا فریق ہے۔ بچوں کے حقوق کے حوالے سے قانون و پالیسی سازی، انتظامی اقدامات، تعلیم سمیت جتنے بھی اہم کام ہیں، ان کیلئے اقوام متحدہ کا یہ چارٹر رہنمائی فراہم کرتا ہے جسے دنیا کے بہترین ماہرین پر مشتمل 18 رکنی کمیٹی سپروائز کرتی ہے، یہ ماہرین مختلف ممالک کی کارکردگی رپورٹ کا جائزہ لے کر انہیں بہتری کی تجاویز بھی دیتے ہیں۔

وطن عزیز کی بات کریں تو گزشتہ ایک دہائی سے پارلیمان کی جانب سے بچوں کے مسائل پر قانون سازی کے حوالے سے مثبت پیشرفت سامنے آئی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں بچوں کے حقوق پر قومی کمیشن بنانے کی منظوری ہوئی، موجودہ حکومت نے اسے تشکیل دیا۔ جب قصور و دیگر علاقوں میں بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے دلخراش واقعات سامنے آئے تو 2016 ء میں کریمینل لاء میں ترامیم لائی گئی۔ 2018ء میں جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ بنایا گیا جوکہ سنہ 2000ء سے آرڈیننس کی صورت میں موجود تھا۔ اسی طرح جب قصور، چونیاں و دیگر علاقوں میں بچوں کی لاشیں ملی تو ایسے واقعات کے تدارک کیلئے زینب رسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ بنایا گیا۔

صوبائی سطح پر بات کریں تو ہر صوبے میں بچوں کی تعلیم، صحت، لیبر و دیگر حوالے سے قوانین کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کا بھی کوئی نہ کوئی قانون ضرور موجود ہے۔ یہاں اہم قانون نہیں بلکہ اس پر عملدرآمد ہے۔ دنیا کے بہترین قانونی ماہرین سے بہترین قانون بنوا لیںیا بہترین پالیسی سازوں سے بہترین پالیسی ، اُس وقت فائدہ نہیں ہوگا جب تک صحیح معنوں میں عملدرآمد کرکے لوگوں کے مسائل حل کیے جائیں۔ 2010ء کے بعد ہر صوبے کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے جغرافیائی اور معروضی حالات کے تناظر میں چائلڈ پروٹیکشن پالیسی مرتب کرے مگر بدقسمتی سے تاحال کوئی بھی صوبائی حکومت یہ پالیسی مرتب نہیں کر سکی۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ بچوں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے ہماری صوبائی حکومتوں کی کوئی سمت نہیں ہے۔ تعلیمی اداروں میں جسمانی مارپیٹ کی روک تھام کیلئے انتظامی طور پر پابندی ہے، اس حوالے سے محکمہ سکولز ایجوکیشن کی جانب سے نوٹفکیشن موجود ہے تاہم اس پر قانون سازی میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ ہماری سیاسی قیادت مسائل سے آگاہ اور حل کیلئے اقدامات کرتی ہے مگر بدقسمتی سے عوامی نمائندوں کے بنائے گئے قوانین پر انتظامیہ کی جانب سے عملدرآمد کا میکنزم نہیں بنایا جاتا۔ 2004ء میں پنجاب میں بے سہارا اور لاوارث بچوں کا ایکٹ منظور ہوا ، 2014ء میں پنجاب میں مفت اور لازمی تعلیم کا ایکٹ بنا، 2016 ء میں چائلڈ لیبر کے دو اہم قوانین آئے مگر ان سب قوانین کے ابھی تک رولز نہیں بن سکے۔

جب رولز نہیں بنتے تواس کے عملدرآمد کے حوالے سے ذمہ داری کا تعین نہیں ہو پاتا اور پارلیمنٹ کی ہوئی کوشش بے کار جاتی ہے۔ زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ پر موثر عملدرآمد کیلئے میکنزم چاہیے جس کے لیے مالی و انسانی وسائل درکار ہیں۔ اسی طرح دیگر قوانین کیلئے بھی وسائل چاہئیں جو نہیں دیے جارہے۔ ہمارے پاس ہارڈویئر پرانا ہیے مگر سافٹ ویئر جدید تقاضوں کے مطابق موجود ہیں، فائدہ اٹھانے کیلئے ہمیں ہارڈویئر کو اپ گریڈ کرنا ہوگا۔ ہمیں وہ سٹرکچر بنانا ہوگا جس میں نئے بننے والے قوانین سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور عوامی مسائل حل کیے جاسکیں۔

کم عمری میں بچیوں کی شادی کی روک تھام کے حوالے سے صرف صوبہ سندھ میں قانون سازی ہوئی اور وہاں لڑکے، لڑکی دونوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 برس مقرر کی گئی۔وفاقی اور دیگر صوبوں میں لڑکی کی شادی کی عمر 16 برس جبکہ لڑکے کی 18 برس ہے جو امتیازی سلوک ہے اور آئین پاکستان کے منافی ہے۔

راشدہ قریشی (نمائندہ سول سوسائٹی)

وزیراعظم عمران خان کی پہلی تقریر ہمارے لیے حوصلہ افزاء تھی، انہوں نے بچوں کے مسائل کے حوالے سے خصوصی طور پر بات کی۔ اس وقت زینب و دیگر واقعات ہائی لائٹ تھے لہٰذا وزیراعظم نے عزم کا اظہار کیا تھا کہ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے حکومت ہر ممکن کام کرے گی مگر بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ ایسے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری توجہ واقعہ پر ہوتی ہے، کوئی افسوسناک واقعہ رونما ہو اور میڈیا و سوشل میڈیا پر ہائی لائٹ ہو جائے تو حکومت متحرک ہوجاتی ہے، ملزم تک پہنچ جاتی ہے، بچے اور اس کے خاندان کو مدد فراہم کر دی جاتی ہے تاہم ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات نہیں کیے جاتے۔

ضرورت یہ ہے کہ واقعہ رونما ہونے سے پہلے اسے روکا جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے بچوں کی زندگی اور عزت کو محفوظ بنایا جاسکے۔ بچوں کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے کہ وہ کس طرح خود اپنا تحفظ کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین، اساتذہ اور معاشرے کے تمام افراد کو آگاہی دینے کی بھی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس حوالے سے بڑے پیمانے پر کوئی آگاہی مہم نظر نہیں آئی ۔ ہمارے پاس تو چائلڈ پروٹیکشن پالیسی ہی نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ کس طرح بچوں کو تحفظ دیا جائے گا؟

بچوں کا تحفظ کسی ایک ادارے کی ذمہ داری نہیں ہوسکتی۔ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو ریسکیو ادارہ ہے جس کا کام واقعہ رونما ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے ۔ واقعات کی روک تھام کیلئے دیگر اداروں کی ضرورت ہے۔ اس میں محکمہ تعلیم ، لیبر ، انسانی حقوق و دیگر ادارے چائلڈ پروٹیکشن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں مگر بدقسمتی سے ایسا کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں جو ان اداروں کو ایک جگہ پر بٹھا سکے، ان کے درمیان روابط کا فقدان ہے۔ جس طرح وفاقی سطح پر بچوں کے حوالے سے کمیشن تشکیل دیا گیا ہے، اسی طرح صوبائی سطح پر بھی ماہرین کا ایک کمیشن تشکیل دینا چاہیے جو ان اداروں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرے۔

چائلڈ پروٹیکشن کے حوالے اساتذہ کی تربیت نہیں ہوئی۔ اساتذہ کی تربیت کے نصاب میں چائلڈ پروٹیکشن کو بھی شامل کر لیا جائے تو بغیر کسی اضافی خرچ کے بہتری لائی جاسکتی ہے۔ یہی اساتذہ اپنے سکول میں بچوں کو تربیت دیں گے۔ اسی طرح پولیس کو بھی تربیت کے دوران چائلڈ پروٹیکشن اور بچوں سے متعلقہ کیسز کو ڈیل کرنے کی تربیت دینی چاہیے۔ لیڈی پولیس اہلکاروں کو تربیت دی جاسکتی ہے کہ وہ بچوں سے کس طرح تفتیش کریں، انہیں سمجھانا ہوگا کہ اگر خدانخواستہ کسی بچے سے زیادتی ہوتی ہے تو اسے نفسیاتی ، سماجی، قانونی و دیگر حوالے سے تعاون درکار ہوگا۔

سول سوسائٹی کے پاس وسائل کم اور دائرہ کار محدود ہوتا ہے، ہم سب اپنی اپنی سطح پر اپنی کپیسٹی کے مطابق کام کرتے ہیں تاہم اصل کام حکومت کا ہے جس کے پاس اختیارات وسیع اور وسائل زیادہ ہوتے ہیں۔ بچوں کی تربیت اور ان کے حقوق و تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے یونیورسٹی کی سطح پر parenting کو کورس کا لازمی حصہ بنایا جائے، اس سے نوجوان نسل کی تربیت ہوگی اور ہماری آنے والی نسل کی بہتر تربیت ہوسکے گی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں